وہابیوں کے ہاتھوں حجاز کے مقدس مزارات کی ویرانی کی روداد

مرحوم علامہ محسن امین اس سلسلہ سے لکھتے ہیں: شیخ عبد اللہ کا لوگوں سے دریافت کرنے کا مقصد حقیقی استفتاء نہیں تھا چونکہ وہابیوں کے نزدیک تمام گنبد اورمناروں یہاں تک کہ رسول اللہ(ص) کے گنبد کو بھی مسمار کرنے میں کوئی تردید نہیں ہے چونکہ یہ تو ان کے مذہب کی بنیاد ہے اور قاضی القضات کا لوگوں سے سوال تو عوام فریبی تھا۔چنانچہ مدینہ میں قاضی نے لوگوں سے دریافت کرنے کے بعد مدینہ اور اس اطراف کی تمام بارگاہوں کو ویران کردیا کہ جن میں بقیع میں موجود آئمہ(ع) مزارات بھی تھے یہاں تک کے قبروں کے در و دیوار اور تعویز بھی توڑ دیئے گئے۔

ولایت پورٹل: جب وہابی طائف میں داخل ہوئے تو انہوں نے سب سے پہلے جناب عباس بن عبدالمطلب کے مدفن پر بنے گنبد کو توڑ اور جب شہر مکہ میں پہونچے تو انہوں نے جباب عبدالمطلب(رسول اللہ(ص) کے داد) جناب ابوطالب(رسول(ص) کے چچا) جناب خدیجہ(رسول(ص) کی زوجہ) اور خود رسول اللہ(ص) اور جناب فاطمہ(س) کے جائے ولادت پر بنے گنبدوں کو مسمار کردیا۔شہر جدہ پہونچے تو انہوں نے جناب حوا(س) کی قبر کو مسمار کردیا۔غرض مکہ طائف مدینہ اور اطراف مدینہ میں جتنی بھی اسلامی تاریخی یادگاریں اور مقامات تھے وہ سب منہدم کردیئے گئے ۔جیسا کہ احد میں جناب حمزہ اور شہدائے احد کے روضوں پر تعمیرشدہ گنبدوں کو بھی بے دردی سے ڈھا دیا گیا۔(۱)
مرحوم علامہ امین تحریر کرتے ہیں: مورخین کے درمیان مشہور ہے کہ جب وہابیوں کا ٹڈھی دل لشکر مدینہ منورہ پہونچا تو انہوں نے مرقد نبی(ص) کو بھی توپ سے باندھ دیا۔ اگرچہ خود وہابی اس کا انکار کرتے ہیں۔چنانچہ جیسے ہی یہ خبر ایرانی عوام تک پہونچی انہیں بہت تشویش لاحق ہوئی اورعلماء اور بزرگان قوم نے ایک اجتماع کیا اور اسے ایک خطرناک سانحہ قرار دیا اور ہم نے خود دمشق میں علمائے مشہد و خراسان میں سے ایک شخصیت کا ٹیلگراف وصول کیا جس میں انہوں نے ہم سے اصل حقیقت کے بارے میں سوال کیا گیا تھا اس کے بعد ایرانی حکومت نے ایک گروہ کو حجاز بھیجا تاکہ اصل ماجرے کے بارے میں آکر آگاہ کرے۔(۲)
رمضان ۱۳۴۴ ہجری کی بات ہے کہ جب مدینہ پر وہابیوں نے حملہ کرکے شہر کا محاصرہ کرلیا تو مدینہ میں وہابیوں کے قاضی القضات شیخ عبد اللہ بن بلیھد نے ایک عام اعلان کیا اور لوگوں سے دریافت کیا کہ مدینہ منورہ میں موجود روضوں کے مناروں اور گنبدوں کوچھوڑ دیا جائے یا باقی رکھا جائے ؟بہت سے لوگوں نے تو خوف کے مارے کوئی جواب نہیں دیا جبکہ کچھ لوگوں نے ان کی مرضی کے مطابق جواب دیا۔
مرحوم علامہ محسن امین اس سلسلہ سے لکھتے ہیں: شیخ عبد اللہ کا لوگوں سے دریافت کرنے کا مقصد حقیقی استفتاء نہیں تھا چونکہ وہابیوں کے نزدیک تمام گنبد اورمناروں یہاں تک کہ رسول اللہ(ص) کے گنبد کو بھی مسمار کرنے میں کوئی تردید نہیں ہے چونکہ یہ تو ان کے مذہب کی بنیاد ہے اور قاضی القضات کا لوگوں سے سوال تو عوام فریبی تھا۔
چنانچہ مدینہ میں قاضی نے لوگوں سے دریافت کرنے کے بعد مدینہ اور اس اطراف کی تمام بارگاہوں کو ویران کردیا کہ جن میں بقیع میں موجود آئمہ(ع) مزارات بھی تھے یہاں تک کے قبروں کے در و دیوار اور تعویز بھی توڑ دیئے گئے۔
اسی طرح رسول اللہ(ص) کے والد جناب عبد اللہ کی قبر کا گنبد،نیز مادر گرامی جناب آمنہ(س) کی قبر کا گنبد اور ازواج رسول (ص) نیز عثمان بن عفان کی قبر پر بنا گنبد وغیرہ وغیرہ بھی توڑ دیا گیا۔(۳)
اس کے بعد تحریر کرتے ہیں:
وہابیوں نے اس کام کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے خطرات کے پیش نظر رسول اللہ(ص) کی قبر مطہرکو ویران کرنے سے گریز کیا ورنہ ان کے عقیدہ کی رو سے کوئی بھی گنبد اور کوئی بھی بارگاہ مستثنٰی نہیں ہے۔ اور رسول اکرم(ص) کی قبر تو چونکہ دوسری قبور اور بارگاہوں سے کی نسبت اس کا زیادہ احترام و اکرام ہوتا ہے اسے تو سب سے پہلے خراب کردیا جاتا ۔اور سعودی عرب کے بادشاہ کا یہ اعلان کہ ہم قبر رسول اللہ(ص) کا احترام کرتے ہیں یقیناً یہ کلام ان کے عقیدہ کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا اوریہ صرف لوگوں کو دھوکہ دینے کا بہانا ہے اور اگر وہ لوگوں کی طرف سے مطمئن ہوجاتے کہ لوگ رسول اللہ(ص) کے مرقد کو نقصان پہونچانے پر خاموش نہیں رہیں گے تو ضرور یہ کام کرتے۔
اور جب انہوں نے مزارات بقیع اور دوسری جگہوں پر آئمہ اور اولیاء کرام کے مزارات کو ڈھایا تو ایران عراق و ہندوستان سمیت پوری دنیا سے آل سعود کے خلاف آوازیں اٹھیں اسکول مدارس اور اجتماعی سماجی مراکز بند کردیئے گئے اور آل سعود کے خلاف جگہ جگہ احتجاج کئے گئے۔(۴)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
1۔تاریخ المملکة‌العربیة‌السعودیة، ج‌2، ص 344.
2۔کشف الارتیاب، ص 55.
3۔کشف الارتیاب، ص 55.
4۔سابق حوالہ۔
5۔ تاریخ اصفهان، ص 392.
6۔حسین مکی، تاریخ بیست‌ساله ایران، ج‌3، ص 365 و 366.
7۔ سفرنامه فراهانی، ص 281 ۔
8۔هدیة‌السبیل، ص 127 ۔
9۔ تحفة‌الحرمین، ص 227.
10۔ مرآة‌الحرمین، ج‌1، ص 426، چاپ مصر، 1344ه - 1925م.


0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین