قسم کھانا

ایک روایت میں ملتا ہے کہ کسی معاملہ میں امام سجاد(ع) عدالت تشریف لے گئے اور اگر آپ قسم کھا لیتے تو یہ عمل آپ کے فائدے میں ہوتا لیکن آپ نے قسم کھانے سے انکار کیا۔چاہنے والوں نے دریافت کیا مولا آپ حق پر تھے اور اپنے حق کو ثابت کرنے کے لئے قسم کھالیتے تو آپ کو اتنا بڑا نقصان نہ ہوتا،آپ نے فرمایا: اللہ کا نام اس مال اور فائدے سے افضل و برتر ہے کہ جو مجھ تک پہونچنے والا تھا۔

ولایت پورٹل: قارئین کرام! اپنی کسی اہم بات کو ثابت کرنے اور منوانے کے لئے عرف میں قسم کھانا اور حلف اٹھانا ایک عام بات ہے۔لیکن بہر حال یہ بات ضرور ہے کہ کسی اہم کام اور مدعٰی کو ثابت کرنے کے لئے ہی قسم کھائی جاتی ہے لیکن کبھی کبھی ہمارے معاشرے میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ کچھ لوگ قسم کھانے کو اپنا تکیہ کلام بنا لیتے ہیں اور بات بات پر قسم کھاتے ہیں۔اگرچہ قسم بہت سی چیزوں کی کھائی جاتی ہے مثال کے طور پر قرآن مجیدکی قسم،کعبہ کی قسم،حضرت عباس(ع) کی قسم؛ اور عام طور پر سب سے زیادہ ذات خداوند عالم کی قسم کھائی جاتی ہے بہر حال یہ تو طئے ہے کہ قسم ایک غیر معمولی اور مقدس شئی کی کھائی جاتی ہے اور کبھی بھی کسی بے اہمیت و بے قیمت شئی کی قسم نہیں کھائی جاتی ۔
لہذا مؤمنین کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس چیز کے لئے اور کس جگہ اللہ تعالٰی کی قسم کھارہے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ایک معمولی سی چیز کے لئے اور معمولی سے فائدہ کے لئے اللہ تعالٰی کی قسمیں کھا رہے ہوں؟ اب ظاہر ہے یہ کام کہاں تک صحیح ہے اور کہاں تک نہیں اس چیز کا فیصلہ آئیے خود قرآن مجید اور سنت قطعیہ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس سلسلہ میں ہمیں سب سے پہلے قرآن مجید کے سورہ مبارکہ بقرہ کی ۲۲۴ ویں آیت سامنے آتی ہے جس میں ارشاد ہے:’’و لا تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً لِأَيْمانِكُمْ أَنْ تَبَرُّوا وَ تَتَّقُوا وَ تُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ وَ اللَّهُ سَميعٌ عَليمٌ‘‘۔(سورہ بقرہ:۲۲۴)
ترجمہ: خبردار خدا کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بناؤ کہ قسموں کو نیکی کرنے، تقویٰ اختیارکرنے اور لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے میں مانع بنادو اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔
لہذا اس آیت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف بہت ہی نادر اور بلند مقاصد کے حصول کے علاوہ اللہ کی قسم کھانا ایک نامطلوب امر ہے،اور اگر احادیث کی طرف رجوع کیا جائے تو ہمیں امام صادق علیہ السلام سے ملتا ہے:’’ و لا تحلفوا باللَّه صادقين و لا كاذبين فان اللَّه سبحانه يقول وَ لا تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً لِأَيْمانِكُمْ‘‘۔تم کبھی بھی اللہ کی قسم نہ کھاؤ چاہے قسم سچی ہو یا جھوٹی،چونکہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:’’ خبردار خدا کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بناؤ‘‘۔
یا ایک دوسری روایت میں ملتا ہے کہ کسی معاملہ میں امام سجاد(ع) عدالت تشریف لے گئے اور اگر آپ قسم کھا لیتے تو یہ عمل آپ کے فائدے میں ہوتا لیکن آپ نے قسم کھانے سے انکار کیا۔چاہنے والوں نے دریافت کیا مولا آپ حق پر تھے اور اپنے حق کو ثابت کرنے کے لئے قسم کھالیتے تو آپ کو اتنا بڑا نقصان نہ ہوتا،آپ نے فرمایا: اللہ کا نام اس مال اور فائدے سے افضل و برتر ہے کہ جو مجھ تک پہونچنے والا تھا۔
قارئین کرام! ایک مرتبہ پھر ذہن نشین کرلینا چاہیئے کہ اگر حالات ایسے ہوں اور مجبوری انسان کے گلے کی ہڈی بن جائے اور قسم کے علاوہ انسان کے پاس کوئی چارہ نہ ہو تو اس مرحلہ میں قسم کھائی جاسکتی ہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:’’ لاَّ یُؤَاخِذُکُمُ اللّهُ بِاللَّغْوِ فِیَ أَیْمَانِکُمْ وَلَکِن یُؤَاخِذُکُم بِمَا کَسَبَتْ قُلُوبُکُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ حَلِیمٌ‘‘۔(سورہ بقرہ:۲۲۵) خدا تمہاری لغواور غیر ارادی قسموں کا مواخذہ نہیں کرتا ہے لیکن جس کو تمہارے دلوں نے حاصل کیا ہے اس کا ضرور مواخذہ کرے گا. وہ بخشنے والا بھی ہے اور برداشت کرنے والا بھی۔
البتہ جو لغو اور فضول میں قسمیں کھائی گئیں ہیں ان پر شریعت میں کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا لیکن جن لوگوں نے جدی طور پر قسم کھائی ہیں اور پھر ان کو پورا نہ کیا ان کا کفارہ شریعت کی رو سے واجب ہے۔
بہر حال یہ سب باتیں سچی اور صادق قسم کھانے کے متعلق تھیں اب آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جب دینی تعلیمات میں مشکل حالات میں سچی قسم کھانا مناسب نہیں ہے تو جھوٹی قسمیں کھانا کس درجہ منفور اور ناپسند عمل ہوگا؟
 


0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین