ولایت پورٹل: 3 جنوری 2020 جمعہ کی صبح تھی جب اسلامی انقلابی گارڈ کور کی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی الحشد الشعبی کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس بغداد بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب امریکی دہشت گردانہ حملے میں شہید ہو گئے، خطے اور دنیا میں جنرل سلیمانی کی کرامت ایسی تھی کہ انقلاب اسلامی کی مقبول ترین شخصیت اور عالمی تسلط و جبر کے خلاف جدوجہد کی علامت کے طور پر ان کی شہادت کی خبریں ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی سرخیوں میں آئیں اور بہت سے بین الاقوامی ردعمل بھی دیکھنے کو ملے۔
ایران کی مشرقی سرحدوں سے لے کر عراق، شام اور لبنان تک مختلف زمینی محاذوں پر موجودگی میں جنرل سلیمانی کے کردار نے انہیں عملی طور پر مزاحمت کا مرکز بنا دیا تھا، جنرل سلیمانی کو قتل کرنے کے امریکی مقاصد میں سے ایک علاقائی مساوات کو تبدیل کرنا اور مزاحمتی محور کے کردار کو کمزور کرنا تھاجبکہ اب دو سال کے بعد خطے کے رجحان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنرل سلیمانی کی شہادت نے نہ صرف مزاحمتی سرگرمیوں میں خلل نہیں ڈالا بلکہ اس کے دائرہ اثر و رسوخ میں بھی اضافہ کیا ہے جبکہ امریکہ ایران کے خلاف اپنے تمام منصوبوں میں ناکام ہو چکا ہےاور ہمیشہ کے لیے اس کنویں میں گرچکا ہے جو اس نے اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے کھودا تھا۔
امریکہ سمجھتا ہے کہ ایران پر مختلف مسائل بالخصوص دفاع اور صحت جیسے اہم شعبوں میں پابندیاں اسلامی جمہوریہ کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہیں لیکن ان کی بدولت ایران تمام شعبوں میں خود کفیل ہونے میں کامیاب ہوا ہے اورپابندیاں کی وجہ سے بالخصوص دفاع اور صحت کے میدان میں یہ دنیا کے اہم ترین ممالک میں شامل ہو چکا ہے۔
شہید سلیمانی کے قتل کر کے بھی امریکہ مزاحمتی تحریک کو کمزور نہیں کر سکا:ترکی کے ماہر قانون
ترکی کے ماہرقانون امین گنش کا کہنا ہے کہ جنرل سلیمانی کی شہادت سے امریکہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور خطے میں مزاحمت کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔

wilayat.com/p/7416
متعلقہ مواد
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین