ولایت پورٹل: عالم ودانا افراد ہمارے درمیان ہمیشہ رہے ہیں اور عصر حاضر میں تو یونیورسٹیز اور دینی درسگاہوں میں ان کی تعداد گذشتہ کی بنسبت کہیں زیادہ ہے مگر شہید مطہری جیسا کوئی کہاں ؟
''ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے''
آخر مطہری میں کون سی ایسی خصوصیت تھی جو آج کے صاحبان علم و فضل، محققین و مصنفین میں کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہم میں وہ بات کیوں نہیں ؟
میں اپنی اس مختصر سی گفتگو میں آپ تمام یونیورسٹیز اور دینی مدارس کے اساتذہ، محققین و مصنفین اور بالخصوص دینی وعصری طالب علموں کی خدمت میں چند ایسے فرق بیان کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے اور شہید مطہری کے درمیان پائے جاتے ہیں۔ اگر بیان میں تندی نظر آئے تو پہلے ہی معذرت خواہ ہوں ۔ میرا نظریہ ان احباب کے برخلاف ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ صراحت بیانی مناسب نہیں ، زخم کہنہ کو کریدنا ٹھیک نہیں ، صرف دشمن کے لئے سخت لہجہ اختیار کرنا چاہئے۔ میری نظر میں آپس کے بے جا تکلفات زخموں کو اور زیادہ ہرا رکھتے ہیں ۔ لہٰذا جتنی سنجیدگی دشمن کے لئے اختیار کی جاتی ہے اتنی ہی آپس میں رکھنا چاہئے۔ دوستانہ گفتگو ضرور کیجئے مگر سنجیدگی اور صراحت کے ساتھ ۔
ممکن ہے جو باتیں میں عرض کرنا چاہتا ہوں ان پر سب کا اتفاق نہ ہو یا انہیں اہم نہ جانتے ہوئے چشم پوشی کی جائے لیکن ضروری باتوں کا کہہ دینا بھی ضروری ہوتا ہے اس لئے کہ اگر معاشرہ کے جوانوں کے دل و دماغ کے لئے خطرہ بن جانے والی چیزوں کا مقابلہ کرنا ہے تو پھر یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ ان باتوں سے کون سے ثقافتی، تعلیمی یا تحقیقی ادارہ کے کس عہدہ دار کی دل شکنی ہورہی ہے ۔ بہرحال اس طرح کے دل کے بہلاوے اچھے نہیں ۔ ابھی دیر نہیں ہوئی ہے سنبھلنا ضروری ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب اس طرح کے مسائل چھپانے کے رہ ہی نہیں گئے ہیں۔ اب ہماری بجا تہذیب، صحیح عقیدہ اور بے مثال اخلاقیات پر یلغار ہے۔ اس یلغار کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ تو پہلے سے مقابل کو آگاہ کیا جاتا ہے اور نہ نبرد تن بہ تن کے قوانین ہی کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ اگر منافقت، تحریف اور مغالطہ کا عنصر نہ پایا جاتا اور الحادی نظریات و خیالات کا صراحت کے ساتھ اظہار کیا جاتا، تو ہم اس چیز کو ثقافتی یلغار کا نام نہ دیتے۔ میں بھی جانتا ہوں اور آپ بھی کہ اگر تنقید کے عمدہ قوانین اور اظہار نظر کے بہترین اصولوں کا لحاظ نہ رکھا جائے تو پھر تنقید اور'' خونخوار بھیڑیے کے دانتوں '' میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔
تھوڑی دیر میرے ساتھ رہئے تاکہ اس ثقافتی بحران کے تمام اسباب کی نہیں تو ان میں سے کچھ کی نشاندہی کرسکوں ۔ اب تک اگر چشم دل سے نہیں دیکھا ہے تو چشم سر ہی سے دیکھ لیجئے۔ خون شہید مطہری سبب بنے گا کہ ہم اس مقدس مقصد تک پہنچیں جس کے لئے انہوں نے خود کو فدا کردیا۔
یہ کون سی جبلّت تھی جس کی بنیاد پر انہوں نے انقلاب سے قبل اکیلے اور بغیر اسباب کے ایسے بابرکت نظریاتی محاذ کھولے کہ اب تک ان کے وہ مکتوبات اسلامی انقلاب کی تھیوری کو غذا فراہم کر رہے ہیں جو ان کے مبارک ہاتھوں سے بیس سے چالیس برسوں پہلے ضبط تحریر میں آئے۔ مگر آج اسلامی انقلاب کی کامیابی وحاکمیت کے برسوں بعد تمام مواصلاتی وسائل و اسباب اختیار میں رکھتے ہوئے اور صاحبان علم و فضل کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود (اللہ انہیں نظر بد سے بچائے) ہمارے تعلیمی، ثقافتی اور نشریاتی مراکز پر جمود طاری ہے؟! ثقافتی سرگرمیوں کا بجٹ کہاں جا رہا ہے اور یہ بے شمار ثقافتی اور تعلیمی ادارے کیا کر رہے ہیں جو اب تک صرف ایک مطہری کے برابر بھی کام نہیں کرسکے ہیں۔
مطہری کو ان کے عہد نے مبعوث کیا لہٰذا انہوں نے اپنے عہد کو پورا بھی کیا۔ شہید مطہری عالم ربانی تھے۔ ان کے وجود حقیقی کی تو بات الگ ۔ ہم ان کے اس وجود کے تئیں بھی مجرم ہیں جسے انہوں نے تاریخ اور اپنے مکتوبات کی شکل میں یادگار کے طور پر چھوڑا ہے۔
سب سے پہلے شہید مطہری کے اس سوز جگر کی بات کرنا چاہئے جس سے ہم نے اپنا دامن بچا رکھا ہے۔ ہاں وہ سوز جگر کسی دہکتے ہوئے شعلہ سے کم نہ تھا جس نے صاحب قلم مطہری کو ایسی سرخ خاک میں تبدیل کردیا جو افق تہذیب حاضر کو کربلائی رنگ میں رنگ دینے میں کامیاب ہوئی۔
دین کا مصلح و مجدد، ''دلِ شعلہ ور'' کے بغیر کوئی اہم اصلاح انجام نہیں دے سکتا۔ ''قابل ذہن''اور''ہوشیار نظر'' اگرچہ ضروری ہیں مگر ''سوز جگر'' نہ ہو تو کچھ بھی نہیں ۔
درد دل، سوز و گداز، بے باکی و سرفروشی ہی وہ عناصر ہیں جو زمین معاشرہ کو قابل زراعت بنا کر اس میں جدید نسل کا بیج بوتے ہیں ۔
اگر کوئی محقق، فقیہ، فلسفی، سائنسداں، مصنف یا خطیب درد و سوز و گداز سے عاری ہو، صرف الفاظ کو زبان پر لاکر یا ورق پر سجا کر اپنے علم کا اظہار کرنے پر ہی رضامند ہو، اصلاح و انقلاب ، تعلیم و تربیت، آزادی و استقلال، عدل و انصاف، عبادت و بندگی کی فکر اس کے پردۂ مغز کو چاک نہ کرے، تشکیل حکومت، نشر معرفت اور آقائیت و اقتصادی مظالم کے خاتمہ کا درد اس کے قفس دل کو وا نہ کرے اور وہ اپنے مقدس اغراض و مقاصد کے لئے قربانی کا ہنر نہ رکھتا ہو تو ایسا عوام پسند محترم مفکر و دانشور ایک تائید آمیز نظر کا بھی مستحق نہیں۔ افسوس کہ یونیورسٹیز اور دینی درسگاہوں میں ایسے دانشوروں کی کمی نہیں۔ اب تو ثقافتی اور تعلیمی اداروں کا اصل بجٹ، چارٹ، عمارت، افراد کی کھوج اور مختلف وسائل و اسباب کی فراہمی میں ہی خرچ ہوجاتا ہے اور ان کا سارا ہم و غم یہ ہوتا ہے کہ اپنے مافوق کے سامنے موٹی سے موٹی رپورٹ پیش کی جائے تاکہ وہ راضی رہیں۔ حتی کام پر باقی رہنے اور شکم پروری کے لئے اسے فریب بھی دینا پڑے تو کوئی بات نہیں۔ اب ہمیں اس سے کیا مطلب کہ اس رکھ رکھاؤ، رفت و آمد، قیل و قال اور لاکھوں کروڑوں کے بجٹ کو خرچ کرنے کا نتیجہ کیا ہوا، کتنے لوگ انسان بنے، کون سے باطل کا انکار اور کون سے حق کا اظہارہوا!!
تحقیقوں اور ریسرچز میں بھی ''درد'' کا فقدان نظر آتا ہے، سوز و گداز دکھائی نہیں دیتا۔ قانونی اختیارات کے حدود کے سلسلہ میں بحث کی جاتی ہے مگر اس میدان میں سنجیدہ گفت و شنید کم نظر آتی ہے۔ جسے دیکھو اس مشغلہ سے بس اپنی مادی ضروریات کی تکمیل، اعلیٰ اسناد کے حصول اور ظاہری عزت و آبرو اور اثرو رسوخ کی تلاش میں لگا ہوا ہے۔ اور نہ جانے کیا کیا...
جب صورتحال ایسی ہے تو اگر تمام تہذیبی، مواصلاتی اور تحقیقی مراکز مل کر صرف ایک مطہری کے برابر بھی کوئی قابل قدر اور شائستۂ بقا کام نہ کر پائیں تو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ شہید مطہری نے قلم اور منبر کو کبھی عزت کی دو روٹیاں کمانے اور مال و دولت اور عزت و آبرو کے حصول کے وسیلہ کی نظر سے نہیں دیکھا۔ ان کا درد ''درد دین'' ، عشق ''عشق زندگی بخش'' اور سوز ''سوز انقلاب'' تھا۔ لیکن ہمارا درد ''درد نفس'' ، عشق'' عشق مشکوک'' اور سوز''سوز لایعنی'' ہے۔
مردہ، مردے کو زندہ نہ کرے تو تعجب نہیں ۔ تعجب تو اس توقع پر ہونا چاہئے کہ مردہ مردے کو زندہ کردے۔ یونیورسٹیز ، دینی مدارس اور تحقیقی و مواصلاتی اداروں میں طالب علم کو مجبور کیا جاتا ہے کہ دوسروں کی ''راہ رفتہ'' پر ہی گامزن رہے، اپنے آپ کو دنیائے علم و فکر کے ''بے درد جعلی فادرز'' کی راہ و روش سے سازگار رکھے اور معاشرہ کی ضرورتوں اور معبود حقیقی کے تقاضوں سے اسے کوئی مطلب نہ ہو۔ (البتہ یہ مجبوری نہیں بلکہ مجبوری کا وہم ہے۔)
سب کا ہم و غم بس یہی رہ گیا ہے کہ کسی طرح مشہور ہوجائیں اور لوگوں کی واہ واہی لوٹیں۔ سب دوسروں کی تائید حاصل کرنے اور اپنی جعلی شخصیت کا لوہا منوانے کے چکر میں ہیں ۔ کم ہی لوگ خدا کی خاطر نشر حق و فضیلت اور خدمت حق کا درد رکھتے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں جسے چھپاکر رکھنے میں ہی بھلائی ہو۔
علمی بضاعت و حیثیت ایک ایسا امتیاز ہے جس کے بغیر فکری حادثات وانحرافات کے مقابلہ میں شاندار دینی اور سماجی اصلاح، اگر محال نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ استاد شہید مطہری علمی معرکوں میں اپنے موقف کے ساتھ حاضر رہتے تھے۔ ان کے عقائدی، فلسفی اورعرفانی خیالات و نظریات بھی اصولی و منطقی نظریات کی طرح کافی ٹھوس اور راہ گشا ہوا کرتے تھے۔ مجتہد تھے لہٰذا انہوں نے اقتصاد، حکومت اور فقہی نظام معاشرہ جیسے ناشناختہ موضوعات کو بیان کیا۔ کسی جھول یا سبک بیانی کے بغیر شیعی اجتہاد کو ایک میتھڈ کے طور پر عصریات کے ساتھ ملادیا۔ ان تمام امتیازات کے باوجود وہ انتہائی خوش اخلاق، بہترین تربیت یافتہ اور سیاسی و سماجی دانش و بصیرت کے حامل تھے۔ ''وہ اپنے آپ میں ایک امت تھے''
اس کے علاوہ اپنے گراں بہا علمی سرمایہ کی بنیاد پر وہ عیسائی و یہودی تھیولوجی ، عرفانیات اور جدید فلسفہ میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔ علمی معرکوں میں حاضر رہنے والے ایسے مفکر تھے کہ یونیورسٹیز اور دینی مدارس کے مختلف علمی مراکز اور روشن خیال حضرات بھی انہیں اور ان کے موقف کو مستقل طور پر پیش نظر رکھنے پر مجبور تھے۔ اگر علمی معرکوں کاکوئی سورما تمام تر توانائیوں کے ساتھ یوں اعلان وجود کرے تو پھر کس کی مجال کہ اس سے اپنی نظر التفات ہٹا سکے۔ مطہری کے سایہ سے دوست و دشمن سبھی بہرہ مند ہوتے تھے، دوست اپنے اختیار سے اور دشمن مجبوری میں۔
مغربی فلسفہ میں بھی مہارت رکھنے کی بنیاد پر وہ اس فلسفہ کے تار و پود کو بکھیر کر رکھ دیتے تھے اور ایک دانا و محقق انسان ہونے کے ناطے اس بات کے قائل تھے کہ مغربی فلسفہ، فلسفہ ہی نہیں۔
وہ مغربی فلسفہ کے ماہر ودانا مترجموں اور استادوں کے ساتھ ہونے والے فلسفی مذاکرات میں صحیح کو غلط سے اور استدلال کو مغالطہ سے الگ کرتے تھے اور جرمنی فلسفہ، نیز ''انگلوسکسن'' کے فلسفہ کی بے بنیاد اور کمزور باتوں کی نشاندہی کرتے تھے۔ سرزمین مغرب پر اپیسٹمولوجی اور علم نفسیات کے جدید فلسفہ کی شکل اختیار کرلینے کا بھی انہیں بہت گلہ تھا، جس نے فلسفہ سے ''فلسفیت'' کو چھین لیا ہے۔
مقرر: ڈاکٹر رحیم پور ازغدی
مترجم: عابد رضا نوشاد
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔