جب شیطان کو بہشت سے خوار کرکے بھگا دیا گیا تو پھر آدم و حوا کو بہکانے کے لئے دوبارہ کیسے داخل ہوا؟

وہ جنت جہاں حضرت آدم و حوا(ع) قیام پذیر تھے وہ اخروی جنت نہیں تھی چونکہ اخروی جنت میں شیطان کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی وہ ایسا علاقہ ہے جہاں شیطان اور اس کی شیطنت چل سکے، اور نہ ہی وہاں باطل خیال اور نافرمانی کا تصور ہے اور دوسرے یہ کہ جو ایک مرتبہ جنت خلد اور اخروی بہشت میں داخل ہوگیا وہ پھر کبھی اس سے باہر نہیں نکلے گا۔

ولایت پورٹل: قارئین کرام! جب اللہ تعالٰی نے ملکوت میں موجود فرشتوں کے ساتھ انہیں کی صف سے ملحق شیطان کو بھی حضرت آدم(ع) کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا تو سب فرشتوں نے تعمیل حکم خداوندی میں آدم کے سامنے سجدہ کیا لیکن شیطان نے حضرت آدم کو سجدہ نہیں کیا اور غرور و تبکبر کے سبب اللہ تعالٰی نے اسے ابدی لعنت کا مستحق بنا کر بہشت سے نکال دیا اور اب کبھی شیطان بہشت میں نہیں جاسکتا۔
البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جہاں سے شیطان کو نکالا گیا تھا یہ وہ بہشت بریں نہیں ہے جہاں حساب و کتاب کے بعد انسان کو جانا ہے بلکہ یہ واقعہ ایک ایسی جگہ پیش آیا جہاں بارگاہ خدا کے تمام مقرب بندے جمع تھے۔جبکہ بہشت صرف ان خالص و مخلص مؤمنین کے لئے ہے جو دنیا میں اللہ کے مطیع ہوں اور آخرت میں حساب کے بعد جنت میں پہونچے۔بلکہ شیطان کا اخراج اس جنت سے اخراج نہیں تھا بلکہ شیطان کو اللہ کی بارگاہ میں جو مقام و مرتبہ ملا ہوا تھا اس سے وہ چھینا گیا ہے اسی وجہ سے قرآن مجید میں لفظ’’ھبوط‘‘ کا استعمال ہوا ہے چنانچہ سورہ مبارکہ اعراف کی تیرہویں آیت میں ارشاد ہورہا ہے:’’قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِينَ‘‘۔فرمایا تو یہاں سے اتر جا تجھے حق نہیں ہے کہ یہاں غرور سے کام لے -نکل جا کہ تو ذلیل لوگوں میں ہے۔
بہر حال یہ بات تو مسلم ہے کہ جب شیطان کو اللہ کی بارگاہ سے نکال دیا گیا تو پھر وہ دوبارہ وہاں لوٹ کر نہ جاسکا اور نہ قیامت تک لوٹ کر جاسکتا ہے۔
اس تمہید کے بعد جو سوال پیش آتا ہے کہ پھر شیطان جناب آدم و حوا(ع) کو بہکانے کے لئے سی بہشت میں گیا؟
اگرچہ بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں جہاں آدم و حوا(ع) کو خلق کرنے کے بعد ٹہرایا گیا تھا یہ وہی بہشت موعود ہے لیکن پختہ شواہد کی روشنی میں یہ تصور صحیح نہیں ہے چونکہ وہ بہشت جس کا وعدہ مؤمنین سے کیا گیا ہے اس سے ایک بار داخل ہوکر کوئی باہر نہیں نکل سکتا بلکہ اگر اس جنت موعود کے متعلق قرآن مجید کی تعبیرات کا مطالعہ کیا جائے تو اس کی تعریف میں’’وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ‘‘۔کی لفظیں ملتی ہیں۔
چنانچہ اس جنت کے سلسلہ میں علماء کے درمیان دیگر اکثر علمی مسائل کی طرح شدید اختلاف پایا جاتا ہے اور یہاں تین اہم نظریات سامنے آتے ہیں:
۱۔آسمانی باغ
کچھ مفسرین کرام  کا ماننا یہ ہے کہ وہ جنت کہ جہاں جناب آدم و حوا(ع) کو خلق کرنے کے بعد ٹہرایا گیا تھا وہ آسمان کے باغات میں سے ایک باغ تھا چونکہ کچھ اسلامی روایات میں اس جگہ کی تعریف میں لفظ’’سماء‘‘ کا استعمال ہوا ہے جو اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ وہ بہشت، آسمان کا ایک باغ تھی۔
۲۔زمینی باغ
کچھ مفسرین اس نظریہ کے قائل ہیں کہ جناب آدم کو آسمان کے کسی باغ میں نہیں رکھا گیا تھا بلکہ وہ زمین کے ہی کسی سرسبز باغ کا تذکرہ ہے اور قرآن مجید کا یہ جملہ’’ اهْبِطُوا‘‘ کی دلالت بھی اس امر پر نہیں ہے کہ انہیں اوپر سے نیچے بھیج دیا گیا ہو بلکہ اس کے معنٰی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے ہیں۔لہذا جب آدم(ع) نے شجر ممنوعہ سے پھل کھا لیا تو انہیں اب وہاں سے زمین کے کسی دوسرے حصہ کی طرف منتقل کردیا گیا۔
اور اس نظریہ کے قائل مفسرین جن میں سے ایک علی ابن ابراہیم قمی(رح) ہیں وہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ سے اس جنت کے متعلق سوال کیا گیا جہاں جناب آدم و حوا(ع) سکونت پذیر تھے چنانچہ سائل نے عرض کیا: فرزند رسول! جس جنت میں آدم رہتے تھے وہ بہشت دنیا تھی یا بہشت عقبٰی؟ فرمایا: وہ بہشت دنیا تھی اور اس میں سورج و چاند نکلتے تھے اور اگر وہ بہشت آخرت میں ہوتے تو کبھی اس سے باہر نہ نکلتے۔
۳۔برزخی بہشت
مفسرین کا ایک گروہ اس نظریہ کا قائل ہے کہ جس بہشت میں جناب آدم و حوا(ع) کو ٹہرایا گیا تھا وہ آسمانی باغ نہ تھا بلکہ وہ ایک برزخی جنت تھی چنانچہ اس نظریہ کے حامیوں میں سے ایک علامہ طباطبائی(رض) بھی ہیں وہ اس نظریہ کے دفاع میں بہشت میں سکونت سے متعلق وارد روایات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جن روایات میں جناب آدم(ع) کے اسی دنیا کی بہشت(باغات) میں ٹہرنے کا تذکرہ ملتا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ایک برزخی بہشت میں تھے۔ اور اس مطلب کی تائید بہت سی ان روایات سے بھی ہوتی ہیں جو آئمہ اطہار علیہم السلام سے ہم تک پہونچی ہیں کہ آدم صفا بر اترے اور حوا مروہ پر اتریں،اور چونکہ برزخ آخرت سے پہلے اسی عالم میں ایک منزل کا نام ہے۔ پس اس بہشت کا دنیا میں ہونا اس کے برزخی ہونے سے کوئی منافات نہیں رکھتا۔
خلاصہ:مذکورہ بالا نظریات کی روشنی میں با آسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ وہ جنت جہاں حضرت آدم و حوا(ع) قیام پذیر تھے وہ اخروی جنت نہیں تھی چونکہ اخروی جنت میں شیطان کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی وہ ایسا علاقہ ہے جہاں شیطان اور اس کی شیطنت چل سکے، اور نہ ہی وہاں باطل خیال اور نافرمانی کا تصور ہے  اور دوسرے یہ کہ جو ایک مرتبہ جنت خلد اور اخروی بہشت میں داخل ہوگیا وہ پھر کبھی اس سے باہر نہیں نکلے گا۔

.....................................................................................................
حوالہ جات:
۱۔تفسیر نمونه، ج1، ص: 186۔
۲۔تفسیر المیزان، ج1، ص 212۔
۳۔آیت الله جوادی، تفسیر تسنیم،ج 3، ص 37 ۔


0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین