ولایت پورٹل: اخلاق اور عرفان کے درمیان فرق کو واضح کرنا، اجتماعی زندگی ، سماجیات، اخلاقیات، سماج کی بالیدگی اور صحت و سلامتی میں عرفان کے اثرات اور اس کی تاثیر کا اندازہ لگانا ہے، جیسا کہ آپ لوگوں کو بخوبی معلوم ہے اور آپ لوگ مطلع ہیں کہ اس اخلاق اور عرفان کے درمیانی فرق کے سلسلہ میں بحث کرنا حقیقت میں تعریف بالرسم ہےاور اس کا تعریف بالحد سے کوئی تعلق نہیں ہے، بطور مثال ، اگر ہم چاہیں کہ ’’ الف‘‘ کے امتیاز کو ‘‘ باء’’ سے حاصل کرنا چاہیں تو ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ گوہر ’’ الف‘‘ کی ذاتیات کا پتہ لگائیں، اس لئےکہ جیسے ہی ہمیں ‘‘ الف’’ کے عوارض کا پتہ چلے گا ہم مطلوب تک پہنچ جائیں گے۔
یاد رہے کہ عوارض ذاتی میں اتنی قدرت ہوتی ہے کہ وہ اپنے معروض کو دیگر تمام چیزوں سے ممتاز بنادے اور ان سے مجزا کردے، اگر ہم لوگ عرفان اور اخلاق کے درمیان تمایز اور فرق کو تحقیقی نگاہ سے مورد مطالعہ قرار دینا چاہیں اور نہایت دقت کے ساتھ اس تمایز کے سلسلہ میں تحقیق کرنا چاہیں تو سب سے پہلے ہمیں خود عرفان اور اخلاق کے سلسلہ میں بحث کرنے اور اسے پوری طرح سمجھنے کی ضرورت ہے، یہ تھا پہلا نکتہ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ گوہر اخلاق حقیقت میں گوہر عرفان کے لئے مقدمہ کی حیثیت رکھتا ہے، یہ دونوں ایک دوسرے سے مشابہ اور آپس میں برابر نہیں ہیں، ان دونوں میں کوئی یکسانیت اور ہمتائی نہیں پائی جاتی کہ کوئی یہ سوال کرے کہ پس ان دونوں کے درمیان فرق کیا ہے؟ ایک شخص جہاد میں اوسط ہے لیکن ایک دوسرا شخص جہاد اکبر میں اوسط ہے ، اخلاق میں عرفان کی حدوں سے نزدیک ہونے کی صلاحیت ہرگز نہیں پائی جاتی ، اس لئے کہ عرفان اخلاق کے حدوں سے باہر ہے اور دونوں ایک دوسرے سے بہت دور ہیں، ان میں سے ایک جہاد اکبر کا عہدہ دار ہے اور دوسرا جہاد اوسط کا ذمہ دار ہے ، جیساکہ آپ لوگوں کو بخوبی معلوم ہے کہ خارجی دشمنوں سے لڑنا اور ان سے جنگ کرنا جہاد اصغر کہلاتا ہے لیکن نفس کے ساتھ جنگ کرنا جو نفس اور عقل کے درمیان ایک گھمسان لڑائی کا نام ہے اسے جہاد اوسط کہا جاتا ہے اور اگر مشہور حدیث نبوی میں اخلاقیات کی جنگ اور تقوا کی فضیلت وغیرہ کے سلسلہ میں جو باتیں بیان ہوئی ہیں اور اسے جہاد اکبر کا نام دیا گیا ہے تو اس کا جہاد اکبر ہونا نسبی امر ہے ، اسی لئے اسے جہاد اکبر نفسی نہیں کہیں گے ، اس لئے کہ انسان کے وجود میں ایک نفس امارہ ہے جو برائیوں کا حکم دیتا ہے اور ایک عقل ہے جو نیکیوں کا حکم دیتی ہے ان دونوں کے درمیان جنگ اور جہاد کو جہاد اوسط کہا جاتا ہے، پس جب جہاد اوسط سے فراغت حاصل ہوجاتی ہے یعنی زاد تقوا فراہم ہوجاتا ہے تو اس وقت انسان عدل و عقل کے گوہر نایاب کو حاصل کرتا ہے اور تباہی و بربادی سے آسودہ خاطر ہوجاتا ہے اور پوری طرح پرہیزگار بن جاتا ہے جہالت سے علم و آگاہی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے اور نادانی سے عقل کی روشنی میں آتا ہے، حماقت سے عقل کی شاہراہ پر لگ جاتا ہے ، گناہوں سے اطاعت و ثواب کی منزل میں وارد ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ ایک عاقل و عادل انسان بن جاتا ہے ، اب اس کے بعد جہاد اکبر کی شروعات ہوتی ہے اور انسان جہاد اکبر کی وادیوں میں قدم رکھتا ہے جو عقل اور قلب کے درمیان جنگ کا نام ہے۔
وادی عرفان میں قلب سے مراد حقیقت میں عقل عملی ہے جسے فلسفہ کی زبان میں مبدأ تجلیہ، تخلیہ، تحلیہ اور فنا سے یاد کیا جاتا ہے ، عقل عملی انسان کے وجود میں عملی امور انجام دیتی ہے اور اسی میں وہ سرگرم رہتی ہے لیکن اس کے مجرد ہونے کی وجہ سے اس کے تمام افعال اور امور بھی مجرد ہوتے ہیں بس اس کی پہلی خاصیت یہ ہے کہ وہ ہرگز ادراک سے خالی نہ ہوا گا اور دوسری خاصیت یہ ہے کہ اس کے تمام ادراکات شہودی ہوں گے نہ حصولی، حقیقت تو یہ ہے کہ عقل عملی کے حدود جسے ’’ما عبد به الرحمن واکتسب به الجنان‘‘۱کا افتخار حاصل ہے، وہ علم شہود کے سوا کچھ نہیں ہے ، وہ جو کچھ بھی ہے وہ سب علم شہودی ہے۔
بہرحال جب اخلاق پوری طرح حاصل ہوجاتا ہے ، یعنی انسان متخلق اور اخلاق الٰہی سے آراستہ و پیراستہ نیز عدالت کے درجہ پر فائز اور اخلاقی عیوب و نقائص سے پاکیزہ اور مبرا ہوجاتا ہے تو اسے چاہیۓ کہ اخلاق کی منزل سے باہر آئے اور عرفان کی وادیوں میں قدم رکھے اور جہاد اکبر کی شروعات کرے جو حقیقت میں عقل اور قلب کے درمیان ہوتی ہے، عقل کہتی ہے : میں دلیل قائم کرنا چاہتی ہوں اور اسے دلیل کے ذریعہ سمجھنا چاہتی ہوں لیکن قلب کہتا ہے: مفہوم کے ذریعہ مشکل حل نہیں ہوسکتی بلکہ میں اسے دیکھنا پسند کرتا ہوں ، دیکھنا دل کا کام ہے یعنی عقل عملی کا کام ہےاور سمجھنا عقل نظری کا کام ہے، فکر و اندیشہ کی ذمہ دار عقل نظری ہے اور انگیزہ و ارادہ کی عہدہ دار عقل عملی ہے ، پس معلوم ہوا کہ اخلاق کی وادی عرفانی کی وادی سے بالکل جدا ہے ، اگرچہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک نیک کام کو جہاں ایک عارف انجام دیتا ہے وہیں ایک بااخلاق انسان بھی اسے انجام دیتا ہے لیکن ان دونوں کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ بااخلاق انسان ایک نیک کام یا تو جہنم کے خوف میں انجام دیتا ہے یا جنت کی طمع میں اسے پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے لیکن ایک عارف جہنم کے خوف اور جنت کی طمع سے آزاد ہوتا ہے، بلکہ دوزخ میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ عرفان کی حریم میں قدم رکھ سکے اور جنت تو خود عارف کی مشتاق ہوتی ہے اور اس کا راستہ تکتی رہتی ہے ، ایک عارف انسان ہمیشہ اپنی زبان پر یہ جملہ دہراتا ہے: ’’ میں جنت کو نہیں بلکہ جنت بنانے والے کو دیکھنا چاہتا ہوں ‘‘ جیسا کہ کیا خوب کہا ہے:
ای دوست شکر بہتر یا آنک شکر سازد
خوبی قمر بہتر یا آنک قمر سازد
وادی عرفان میں ایک عارف کی تمام سعی و کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ صرف اور صرف ایک دیکھے اور دو ہوجائےاس کو یعنی اس کا سارا ہم و غم یہ ہوتا ہے کہ وہ علم نظری، مفاہیم اور جملہ محصول کو علم شہودی میں بدل دے اور ہر لحظہ فاصلہ کو کم کرتا رہے یہاں تک کہ ’’ دنی فتدلی‘‘۳ کی بارگاہ میں پہنچ جائے۔لہٰذا عرفان کی حد جو حوزہ سوم ، جنگ سوم اور مقام جہاد اکبر ہے، حقیقت میں یہ جنگ، مفہوم اور مشہود، حکمت اور عرفان، سمجھنے اور دیکھنے کے درمیان جاری و ساری ہے،صحیح طور پر سمجھنا اسی وقت ممکن ہے جب انسان میں اخلاقی طہارت پیدا ہوجائے ،اس لئے کہ یہ مسلم ہے کہ خالص کو مشاہدہ کرنا بھی اخلاقی طہارت کے بعد ہی میسر ہے ، پس اخلاق کا تعلق جہاد اوسط سے ہے اور متخلق کا ہر فعل خیر حقیقت میں دوزخ سے نجات اور جنت کے شوق میں انجام پاتا ہے لیکن تمام عرفاء کا ہم و غم یہ ہوتا ہے کہ وہ جنت بنانے والے کو مشاہدہ کرسکیں اور اسی کا تقرب حاصل کریں وادی عرفان میں محوری عنصر ، معرفت ناب اور محبت خالص ہے ، شہودی محبت اور معرفت جو حقیقت میں ایک خاص امر وجودی کا نام ہے۔
اگر عرفان کو اس انداز میں بیان کیا جائے تب عرفان کی اہمیت اور اس کا مقام اجتماعی ترقیات اور صحت و سلامتی کے مباحث کے درمیان واضح و روشن اور ان سب کے درمیان بنیادی فرق سمجھ میں آئے گا، حقیقت میں عرفان مذکورہ تمام امور کا سرپرست اورقیم کی حیثیت رکھتا ہے امیر بیان امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کا یہ نورانی بیان کہ بعض لوگ خدا کی عبادت اس کے خوف سےکرتے ہیں بعض اس کے شوق میں عبادت کرتے ہیں اور بعض اس کی محبت اور شکر کے لئے عبادت کرتے ہیں اور میں خدا کی عبادت اس کی محبت اور شکرانہ میں کرتا ہوں۔اس لئے کہ اس سے پہلے اس بات کا اقرار کرچکے تھے کہ ’’ما کنت اعبد ربا لم اره‘‘ میں نے خدا کی عبادت اس وقت تک نہیں کی جب تک کہ اسے دیکھ نہیں لیا۔
اس بحث کا دوسرا رخ یہ ہے کہ عرفان بقیہ علوم کے درمیان ہر ایک سے الگ اور متفاوت ہے ، عرفان کے اصول و قوانین بقیہ تمام اسلامی علوم کے اصول و قوانین سے متفاوت ہیں، حوزات علمیہ میں علم فقہ ہے ، علم اصول ہے، علم فلسفہ ہے ، علم حدیث ہے اور ایک حدتک یہی علوم یونیورسٹی وغیرہ میں بھی پائے جاتے ہیں لیکن زیادہ تر اس محیط میں علم سائنس کا بول بالا ہوتا ہے جب اجمالی طور پر تمام علوم کی چھان بین کی جاتی ہے تو نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر عرفان کے اصول و قوانین بقیہ علوم سے متفاوت ہیں، حوزات علمیہ میں فقہاء اور اصولی حضرات ’’کل شیء حلال حتی تعرف انه حرام‘‘، ’’ کل شیء نظیف حتی تعلم انه قذر’‘‘۔ یا ’’کل شیء هو لک حلال حتی تعلم انه حرام بعینه‘‘جیسے قوانین کے متعلق آزادانہ بحث کرتے ہیں ، اسی فضا اور حال و ہوا سے مانوس اور انہیں مباحث میں سرگرم رہتے ہیں اور انہیں بڑا مزہ بھی آتا ہے ، فلسفہ کی دنیا میں ’’ الله خالق کل شیء‘‘کے قانون کے پیش نظر جیسا کہ اس آیت سے سمجھ میں آتا ہے کہ ہر وہ چیز جس کی ہستی اور وجود اس کی عین ذات نہیں ہے وہ خدا کی مخلوق ہے ’’کل ممکن مخلوق للّٰه کل حادث مخلوق للقدیم کل محتاج مخلوق للغنی‘‘ ر ممکن خدا کی مخلوق ہے ، ہر حادث قدیم کے لئے مخلوق ہے اور محتاج غنی کے لئے مخلوق ہے‘‘ فلاسفہ ان ہی قوانین کے متعلق بحث کرتے ہیں ، وہ معقول ہنر جس کے مدار پر صاحبان عقل اور عقل محور حضرات اپنی ہنرمندی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو ہرگز خیال پردازی نہیں کرتے ، ہوا میں بات نہیں کرتے ، وہ آیۂ شریفہ ’’ احسن کل شیء خلقه اس نے ہر شے کو بہترین خلق فرمایا ہے ‘‘۹کے مدار اور محور پر بحث کرتے ہیں ، ا ن کی فضا ، ان کے حدود اور ان کے ہنر کی طاقت کا دارو مدار بس اس بات پر استوار ہے کہ خدا نے جو کچھ پیدا کیا ہے اسے بڑاہی خوبصورت بنایا ہے ، وہ اسی معقول خوبصورتی کو کشف کرتے ہیں، وہ خلقت کے پیج و خم کو ملاحظہ کرتے ہیں جو خود اپنے آپ میں ایک ہنر ہے اور اسی ہنر کے سہارے مصنوع الٰہی یعنی مخلوقات عالم کی خلقت انجام پائی ہے ، پس معلوم ہوا کہ یہ قضیہ موجبہ کلیہ فلسفہ کا محور ہے جس میں کہا جاتا ہے : ’’ کل شیء مخلوق لّٰله تعالی‘‘اور ’’ کل حسن مخلوق لله تعالی‘‘ ان دونوں میں سے ایک ہنرمعقول کی دنیا میں اپنا کرشمہ دکھاتا ہے اور دوسرا میدان فلسفہ میں اپنا اثر دکھاتا ہے۔
علم سائنس کے سلسلہ میں ’’من الماء کل شیء حی‘‘جو بھی چیز زندہ ہے اس کے پاس ضرور پانی ہے ، البتہ اگر پانی ملکی اور ملکوتی ہو ، یہاں زندگی سے مراد ملکی و ملکوتی زندگی ہے لیکن اگر پانی سے مراد یہ ظاہری پانی ہوتو اس سے مراد وہی پانی ہے جس کے متعلق علم سائنس میں کہا گیا ہے اور اس کے متعلق مختلف مباحث پیش ہوتے ہیں، آپ حضرات بخوبی مستحضر ہیں کہ حوزات علمیہ اور یونیورسٹی میں جو مباحث پیش ہوتے ہیں وہ ایک کلی اصول ہیں یا ’’ کل شیء طاهر، ہر شے پاک ہے ‘‘یا ’’ کل شی ء حلال، ہر شے حلال ہے ‘‘ یا ’’کل شیء مخلوق،ہرشے مخلوق ہے‘‘ یا ’’ کل حَسن یا حُسن مخلوق، ہر نیک اور خوبصورت چیز مخلوق ہے ‘‘یا ‘’’کل شیء خلق من الماء، ہر شے پانی سے خلق ہوئی ہے‘‘ اسی طرح اور دیگر مثالیں.
لیکن وادی عرفان میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور اس وادی میں ایسی کوئی خبر نہیں ہے بلکہ وہاں ’’ فاینما تولوا فثم وجه الّٰله‘‘۱۱کی باتیں ہیں، جہاں بھی دیکھو، جدھر بھی دیکھو خدائے سبحان کی صورت نظر آئے گی۔’’ فاینما تولوا فثم وجه الّٰله‘‘ ، یہاں ہر شے کو اپنے احاطے میں لئے ہوئے ہے وہ خواہ معلوم ہو یا علم ہو یا عالم ہو یا تولیہ (رخ چاہے جدھر بھی ہو) ہو یا تولا ہو یا صورت ہو خواہ کوئی بھی ہو سبھی پر اسی کا قبضہ ہے ، وہ ہر ایک پر بھاری ہے اور سب اسی کے دامن میں سمٹے ہوئے ہیں، ایک عارف ایسی ہی ایک فضا میں زندگی گذارتا ہے ’’ فاینما تولوا فثم وجه الّٰله ‘‘ یہ ’’ این‘‘، ’’تولیہ‘‘ اور ’’ وجہ ‘‘ ، آسمان و زمین غرضکہ سب کچھ ’’ فاینما تولوا فثم وجه الّٰله‘‘ کے سایہ میں ہیں،فن عرفان کہاں اور دنیا کے دیگر فنون کہاں! عارف جہاں بھی نظر ڈالتا ہے حق کی نامرئی صورت کی زیارت کرتا ہے اور جیسا کہ آپ لوگوں کو بخوبی معلوم ہے کہ وادی عرفان میں دو ممنوعہ وادیاں ہیں ، ان میں سے ایک مقام ذات اور ہویت محض ہے جس تک کسی کو بھی دسترسی حاصل نہیں ہے ، سیدنا الاستاد امام راحل رضوان اللہ تعالی علیہ اپنی کتاب شریف ’’مصباح‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ ذات اقدس الٰہی ایک بسیط ہویت کا نام ہے جو نہ کسی پیغمبر ، ولی اور امام کا معبود ہے اور نہ ہی کسی پیغمبر، امام اور ولی کا مشہود ہے‘‘۔
تحریر: آیت اللہ جواد آملی
مترجم :مولانا منہال حسین