ولایت پورٹل: تقریباً پچاس برس پہلے جب سے غاصب صہیونی حکومت کی تشکیل عمل میں آئی اور تقریباً ایک سو برس پہلے سے جب سے مغربی اور یورپی حلقوں میں اس فکر نے جنم لیا، ارادہ اور مقصد یہی تھا کہ علاقہ پر قبضہ کرلیا جائے، اس کو ہڑپ لیا جائے کیونکہ اس کی ان کو ضرورت ہے۔ اس علاقہ کے عوام ان کے لئے اہمیت نہیں رکھتے ہیں۔خطرہ سب پر منڈلا رہا ہے۔ عقلمندی اسی میں ہے کہ اس بارے میں سبھی لوگ غور و خوض کریں اور آپس میں متحد و متفق ہوجائیں۔ اسلامی حکومتوں اور قوموں سے ہمارا سنجیدہ مطالبہ اور گزارش یہی ہے کہ اس بارے میں فکرکریں اور کام کریں کہ جس میں مشقتیں بھی ہیں اور مقدمات کی فراہمی بھی لازم ہے، البتہ دشمن بھی بیکار نہیں بیٹھا رہے گا بلکہ وہ پھوٹ ڈالنے والی پرانی روش کو بروئے کار لانے کے فراق میں رہے گا۔ وہ علاقائی و لسانی امکانات سے فائدہ اٹھائے گا اور ان امور کو بروئے کار لانے کی کوشش کرتارہے گا کہ جنہیں اسلام نے تاکید کے ساتھ منع کیا ہے۔ اسلام نے تأکید کی ہے کہ علاقہ،ملک اور نسل ماہیت و تشخص کا معیار نہیں ہیں بلکہ ہم سب کو قرآنی معیار اپنانا ہوگا:’’اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ‘‘۔(سورۂ حجرات: ۱۳)
اسلام نے تأکید کی ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں بھائی چارے کی بنیاد پر عمل کرنا چاہیٔے، اس نے یہ نہیں کہا ہے کہ کوئی شیعہ ہے یا سنی یا فلاں مذہب کا پیروکار ہے اس کے ساتھ ایسا کرو بلکہ یہ کہا ہے کہ مسلمان:’’اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ‘‘۔(سورۂ حجرات:۱۰)
جو کوئی بھی اس کتاب، اس قرآن اور اس دین اور اس قبلہ پر عقیدہ رکھتا ہے وہ مؤمن ہے،اور یہ سب مؤمنین آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اسلام نے ہمیں یہ سب بتایا ہے۔ لیکن ہم اپنے بھائیوں کے سینے میں خنجر پیوست کرنے کے لئے اسے اپنے پیچھے چھپا کر رکھتے ہیں۔تمام شعبوں اور گوشوں میں خطا کار پائے جاتے ہیں۔ ہمیں انہیں روکنا ہوگا اور ان سے مقابلہ بھی کرنا ہوگا۔ آج امت اسلامیہ کو اپنی بقاء، سربلندی، نجات اور پرچم اسلام کو برافراشتہ رکھنے کے لئے اتحاد کی ضرورت ہے۔ پھر اس طرح کے مسائل کے سامنے کون سی منطق استقامت دکھا سکتی ہے کہ اختلاف وجود میں آجائے؟سبھی ضرورتوں پر اتحاد کے مسئلہ کو برتری حاصل ہے۔ ہم مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی ضرورت کو سمجھتے کیوں نہیں ہیں؟ ہمارے کاندھوں پر بڑی بھاری ذمہ داری ہے اور یہ زمانہ بڑا ہی حساس ہے، کیونکہ اگر دشمنوں نے بزور طاقت اس علاقہ پر قبضہ جما لیا تو عالم اسلام سامراجیت کے دور کی مانند سو برس پیچھے چلا جائے گا اور صنعتی اور ترقی یافتہ دنیا سے امت اسلامیہ سو برس اور پیچھے رہ جائے گی۔
ہمیں اس کا جواب دینا ہوگا، آج ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے، آج حکومتیں، اہم لوگ، ماہرین اور ثقافتی و مذہبی ذمہ دار حضرات کے کاندھوں پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ہم سبھی لوگ عالم اسلام کے اتحاد کے سلسلہ میں ذمہ دار ہیں، امام خمینی(رح) اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک جس بات پر بہت زیادہ تاکید کرتے رہے وہ اتحاد اسلامی، مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور چھوٹے بہانوں کو بڑا نہ کرنے پر مبنی بات تھی اور آج ہم مشاہدہ کررہے ہیں کہ وہ ہدایتیں اور نصیحتیں بہت ہی عاقلانہ اور صحیح تھیں۔
ایک خطاب سے اقتباس
آج امت کو اپنی بقاء، نجات اور پرچم اسلام سربلند رکھنے کے لئے اتحاد کی ضرورت ہے: رہبر انقلاب
آج امت اسلامیہ کو اپنی بقاء، سربلندی، نجات اور پرچم اسلام کو برافراشتہ رکھنے کے لئے اتحاد کی ضرورت ہے۔ پھر اس طرح کے مسائل کے سامنے کون سی منطق استقامت دکھا سکتی ہے کہ اختلاف وجود میں آجائے؟سبھی ضرورتوں پر اتحاد کے مسئلہ کو برتری حاصل ہے۔ ہم مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی ضرورت کو سمجھتے کیوں نہیں ہیں؟ ہمارے کاندھوں پر بڑی بھاری ذمہ داری ہے اور یہ زمانہ بڑا ہی حساس ہے، کیونکہ اگر دشمنوں نے بزور طاقت اس علاقہ پر قبضہ جما لیا تو عالم اسلام سامراجیت کے دور کی مانند سو برس پیچھے چلا جائے گا اور صنعتی اور ترقی یافتہ دنیا سے امت اسلامیہ سو برس اور پیچھے رہ جائے گی۔

wilayat.com/p/3842
متعلقہ مواد
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین