ایک لمحہ کی فکر برسوں کی عبادت سے بہتر کیوں؟

آپ ملاحظہ کیجئے کہ کس طرح ۷۰ برس تک کفر،ضلالت اور شرک کی حالت میں زندگی گذارنے والا ایک لمحہ میں سچا مؤمن بن گیا چونکہ اس کا ایمان فکر کا نتیجہ تھا اگر وہ فکر نہ کرتا کبھی اسے یہ سعادت نصیب نہ ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ معصومین علیہم السلام سے ہم تک پہونچے والی احادیث میں غور و فکر ،تدبر اور تفکر کو ۷۰ برس کی بے معرفت عبادت سے بہتر قرار دیا گیا ہے لہذا ہر کام کرنے سے پہلے اگر کچھ لمحات اس کے بارے میں اور اس کے انجام و نتیجہ کے متعلق فکر کرلی جائے تو انسان کبھی اپنی زندگی میں پشیمانی اور افسوس کا منھ نہیں دیکھے گا۔

ولایت پورٹل: قارئین کرام! خلیل خدا، شیخ الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت طیبہ میں ملتا ہے کہ آپ بہت مہمان نواز تھے اور آپ کا طریقہ یہ تھا کہ جب تک آپ کے یہاں کوئی مہمان نہیں آتا تھا آپ کھانا تناول نہیں فرمایا کرتے تھے چنانچہ ایک وہ وقت بھی آیا کہ مکمل ایک رات اور دن گذر گیا اور کوئی مہمان آپ کے یہاں نہیں آیا آپ گھر سے باہر تشریف لائے اور مہمان کی تلاش میں بیٹھ گئے کہ کوئی جلدی سے آئے تو آپ اس کے ساتھ کھانا تناول فرما سکیں۔
اسی اثناء میں آپ کی نظریں ایک بوڑھے شخص پر پڑی، آپ نے اس سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو اس کی باتوں سے آپ سمجھ گئے کہ یہ بوڑھا بت پرست ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس سے کہا: کہ اگر تم بت پرست نہ ہوتے تو آج میرے مہمان ہوتے اور میرے ساتھ کھانا کھاسکتے تھے۔
یہ سن کر وہ بوڑھا، اگرچہ بھوکا تھا لیکن اپنے راستے کو چل دیا ابھی کچھ دیر ہی گذری تھی کہ حضرت جبریل علیہ السلام جناب ابراہیم علیہ السلام  پر نازل ہوئے اور بڑے سخت لہجہ میں اللہ تعالٰی کا پیغام کہہ سنایا:
اے  خلیل خدا! آپ کا محبوب فرماتا ہے کہ اس بوڑھے آدمی کی ساری زندگی  بت پرستی اور شرک میں گذر گئی اور یہ ۷۰ برس سے مسلسل بتوں کی پرستش کررہا ہے لیکن ہم نے کبھی اس کو رزق دینے سے منع نہیں کیا اور صرف یہ کہ ایک وقت کا اس کا رزق آپ کے  حوالہ کیا کیا کہ آپ نے تو اس کے بت پرست ہونے کی بنیاد پر اسے اپنے یہاں سے چلتا کیا اور اسے کھانا دینے سے منع کردیا۔
خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام جبریل امین سے یہ پیغام پاکر پشیمان ہوئے اور اس بوڑھے کی جستجو میں نکل پڑے۔ بڑی مشکل میں جاکر اسے  تلاش کیا اور بڑے اصرار کے بعد اسے اپنے گھر لے آئے ۔بوڑھے مرد کو بڑا تعجب ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ پہلے تو اس جوان نے مجھے کھانا کھلانے سے انکار کردیا تھا اور اب اپنے گھر لے جانے کے لئے منت سماجت کررہا ہے آخر اس نے پوچھ ہی لیا:اے جوان یہ بتاؤ! تم نے مجھے پہلی مرتبہ اپنے یہاں سے کیوں واپس کیا اور اب اصرار کرکے اپنے گھر کیوں لے آئے ہو۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل ہونے والے پیغام کے بارے میں اس شخص کو مطلع کیا۔جب اس شخص نے یہ سنا تو وہ گہری فکر میں ڈوب گیا اور اس نے اپنے آپ سے کہا:کیا ایسے عظیم اور مہربان خدا کی نافرمانی مروت و جواں مردی سے دور نہیں ہے۔ جو میری نافرمانی اور عصیان مسلسل کے سبب بھی میرے رزق کو قطع نہیں کرتا ۔لہذا اس فکر نے اسے ضلالت سے نکال کر نجات اور کفر سے نکال کر ایمان کے ساحل تک پہونچا دیا پس اس نے کلمہ توحید اپنی زبان پر جاری کیا اور جناب ابراہیم علیہ السلام کا سچا پیروکار بن گیا۔(المحجة البيضاء، ج ۷ ، ص ۲۶۶)
قارئین کرام! آپ نے ملاحظہ کیا کہ کس طرح ۷۰ برس تک کفر،ضلالت اور شرک کی حالت میں زندگی گذارنے والا ایک لمحہ میں سچا مؤمن بن گیا چونکہ اس کا ایمان فکر کا نتیجہ تھا اگر وہ فکر نہ کرتا کبھی اسے یہ سعادت نصیب نہ ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ معصومین علیہم السلام سے ہم تک پہونچے والی احادیث میں غور و فکر  ،تدبر اور تفکر کو ۷۰ برس کی بے معرفت عبادت سے بہتر قرار دیا گیا ہے لہذا ہر کام کرنے سے پہلے اگر کچھ لمحات اس کے بارے میں اور اس کے انجام و نتیجہ کے متعلق فکر کرلی جائے تو انسان کبھی اپنی زندگی میں پشیمانی اور افسوس کا منھ نہیں دیکھے گا۔


1
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین