کسی مسلمان کو قرض دینے کی فضیلت

پس قرض حسنہ کی اکثر روایات سے یہ حکمت سمجھ آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس اہم سنت کو اس لئے وضع کیا ہے تاکہ معاشرے کے ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری ہوسکیں اور انسان کو اس وقت ہی قرض لینے کی فکر کرنی چاہیئے کہ جب وہ خود سے اس ضرورت اور مشکل کے حل کا راستہ تلاش نہ کر پائے۔

ولایت پورٹل: کسی مجبور کو قرض الحسنہ دے کر اس کے اٹکے ہوئے کاموں میں اس کی مدد کرنا رضائے خدا کا ایک بہترین ذریعہ ہے ۔ اس کام کے ذریعہ کسی مغموم دل کو شاد کیا جاسکتا ہے اور بہتی ہوئی کسی آنکھ سے آنسو صاف کئے جاسکتے ہیں۔کسی ضرورت مند کو وقت پر قرض دیدینا ایسا ہے جیسے خود اس مجبور کو کچھ نہ دے کر ،خالق کائنات کو قرضہ دیا گیا ہو جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:”‌مَّن ذَا الَّذِی یقْرِض‌ُ اللَّه‌َ قَرْضًا حَسَنًا فَیضَـَاعِفَه‌ُ لَه‌ُ أَضْعَافًا کَثِیرَة‌ً وَاللَّه‌ُ یقْبِض‌ُ وَیبْصُـطُ وَ إِلَیه‌ِ تُرْجَعُون‌َ”۔(۱)
ہے کوئی ایسا جو خدا کو قرض حسنہ دے تاکہ خدا اسے کئی گُنا کرکے واپس کرے۔ خدا ہی تنگی کرتا ہے اور وہی کشادگی دیتا ہے۔ اور (تم سب) اسی کی طرف پلٹائے جاؤگے۔
ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا:’’وَ أَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً …”۔(۲)
اور اللہ کو قرضۂ حسنہ دو ۔ ۔ ۔  ۔
اگرچہ مذکورہ دونوں آیات میں قرض حسنہ سے مراد ،صرف یہ اصطلاحی اور عرف عام میں رائج قرض ہی نہیں ہے بلکہ انفاق کرنا، صدقہ دینا اور اپنے برادران دینی کی کسی بھی اعتبار سے مدد کرنے وغیرہ سب کو شامل ہے۔ اور قرض اس آیت کا ایک مصداق جلی ہے۔
اسلامی احادیث میں اپنے ان دینی بھائیوں کو قرض دینا کہ جن کے مالی حالات اچھے نہیں ہیں ایک اسلامی و دینی سنت ہے کہ جس سے فرار کرنے والے کی بہت شدید مذمت کی گئی ہے۔چنانچہ پیغمبر اکرم(ص) نے ان افراد کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو کسی کو قرضہ دینے کی حالت میں ہیں لیکن پھر بھی کسی سبب اجتناب کرتے ہیں:’’ جو صاحب حیثیت شخص اور اپنے کسی نادار مؤمن بھائی کو قرض دینے سے انکار کردے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت سے محروم کردے گا‘‘۔(۳)
ایک دوسری حدیث میں سرکار ختمی مرتبت(ص) نے فرمایا:’’جو اپنے کسی مسلمان بھائی کو قرض دے تو اسے اللہ کی طرف سے ہر درہم کے عوض کوہ احد کے برابر ثواب دیا جائے گا اور اگر قرض کی وصول کے وقت صبر و تحمل سے کام لے تو وہ پل صراط سے برق رفتاری کے ساتھ بغیر حساب و کتاب کے گذر جائے گا‘‘۔(۴)
مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں اپنے کسی مؤمن بھائی کی کسی مشکل کو آسان کرنا اور کسی ضرورت کے وقت قرض دے کر اس کی مدد کرنا ایک قابل تحسین عمل ہے۔
البتہ یہ بھی خیال رہے کہ جہاں ایک طرف قرض دینے کے اتنے سب فضائل و ثواب بیان ہوئے ہیں وہیں دسری طرف حتی الامکان یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ شدید ضرورت کے علاوہ قرض لینے سے پرہیز و گریز کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ احادیث میں بے جا قرض لینے کو ایک فضول عمل سے تعبیر کیا گیا ہے اور انسان کو روکا گیا ہے کہ فقط مجبوری کی حالت میں ہی اس حلیت کا فائدہ اٹھائیں ورنہ یہ بات واضح ہے کہ جو شخص قرضہ لیتا ہے وہ ایک طرح ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے اسی وجہ سے امام علی علیہ السلام نے رسول اللہ(ص) سے یہ دعا مسلسل نقل فرمائی ہے:’’‌اَللَّهُمّ‌اِنّی اَعُوذُ بِکَ مِنْ غَلَبةِ الدَّین”‌‌۔(۵) پروردگار میں قرض کے بوجھ تلے دب جانے سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
پس قرض حسنہ کی اکثر روایات سے یہ حکمت سمجھ آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس اہم سنت کو اس لئے وضع کیا ہے تاکہ معاشرے کے ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری ہوسکیں اور انسان کو اس وقت ہی قرض لینے کی فکر کرنی چاہیئے کہ جب وہ خود سے اس ضرورت اور مشکل کے حل کا راستہ تلاش نہ کر پائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱۔سورہ بقره: 245۔
۲۔سورہ مزمل:20۔
۳۔حر عاملی، وسائل الشیعة، ج 16، ص 389۔
۴۔شیخ صدوق، ثواب الاعمال و عقاب‌ها، ص 414۔
۵۔مستدرک الوسائل، ج 13، ص 387۔
 


0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین