امام حسین(ع) پر بہائے گئے اشکوں کا مرتبہ

امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:آنسو کے علاوہ کائنات کی ہرچیز کا ایک اندازہ اور وزن ہوتا ہے۔(لیکن کوئی آنسو کا وزن نہیں بتا سکتا) چونکہ آنسو کا ایک قطرہ آگ کے دریا کو خاموش کردیتا ہے، جب آنکھ اپنے آنسو میں غرق ہوجائے تو کسی بھی فقر و ذلت کی گرد اس کے چہرے پر نہیں بیٹھ سکتی اور جب اشک آنکھوں سے بہنے لگیں تو اللہ تعالٰی اس چہرے پر دوزخ کی آگ کو حرام کردیتا ہے اور اگر کسی امت میں کوئی ایک رونے والا ہو تو اس پوری امت اللہ کے رحم و کرم کے حصار میں داخل ہوجاتی ہے۔

ولایت پورٹل: آنسو، اشک اور گریہ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں میں سے ہےکہ جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی۔آنسو بہانے اور گریہ کرنے کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں جیسا کہ کسی چیز سے محرومیت ،مقصد تک پہونچنے میں ناکامی ،کسی چیز کو طلب کرنا اور اس کے حصول کا اشتیاق۔غرض ہر وہ چیز جس تک انسان پہونچنا چاہتا ہو اور نہ پہونچ پائے اس کے لئے عام طور پر آنکھوں سے اشک بہنے لگتے ہیں۔
اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آنسو کے جہاں بہت سے معنوی آثار و فوائد ہیں وہیں اس کے بہت سے ظاہری اور مادی فوائد بھی ہیں جیسا کہ گریہ کرنے اور اشک بہانے سے انسان کے ذہن کا توازن قائم رہتا ہے اور یہ انسان کو بہت سی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔
آنسو ایک الہی نعمت
امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث میں وارد ہوا ہے:’’گریہ ایک الہی عطیہ ہے کہ اس کے سبب انسان کے مغز کی رطوبت ۔ جو بہت سے درد کا سبب بنتی ہے۔ ختم ہوجاتی ہیں اور انسان کو اندھے پن سے نجات دیتے ہیں بدن کو سالم و تندرست رکھتے ہیں اور انجام کار انسان کی روح پرنشاط بناتا ہے‘‘۔(1)
گریہ کرنے والے موجودات
گریہ کرنا اور آنسو بہانا صرف انسان کا ہی خاصہ نہیں ہے بلکہ قرآن مجید دوسری چیزوں کے لئے  بھی بھی گریہ کو ثابت کرتا ہے چنانچہ ایک آیت میں ارشاد ہوتا ہے:’’ فَمَا بَکَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ وَمَا کَانُوا مُنْظَرِینَ‘‘۔(2)
ترجمہ: پس ان کی بربادی پر نہ آسمان رویا اور نہ زمین اور نہ ہی ان کو مہلت دی گئی۔
اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے کہا ہے کہ: اس میں آسمان و زمین کے گریہ نہ کرنے کو کنایۃ بیان کیا گیا ہے کہ جب فرعون اور اس کے ساتھ موسیٰ (ع) کا تعاقب کرتے ہوئے دریائے نیل میں ہلاک ہوگئے  تو ان کی ہلاکت سے اس عالم کے نظام میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوا(چونکہ وہ معصیت کار اور گنگار ٹولہ تھا ان کے ہلاک ہونے سے زمین کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی) لیکن اس آیت کے ظاہر سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کائنات کے ذرہ ذرہ میں شعور و احساس پایا جاتا ہے اسی وجہ سے زمین و آسمان بھی بعض حوادث پر محو گریہ ہوتے ہیں۔(3)
اس آیت کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ گریہ صرف انسان ہی نہیں کرتے بلکہ غیر انسان کے یہاں بھی شعور احساس پایا جاتا ہے۔
روایات میں گریہ کرنے کی اہمیت
کچھ روایات میں آنسو بہانے اور گریہ کرنے کو خاص اہمیت دی گئی چنانچہ امام سجاد علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:’’مَا مِن قَطرَةٍ أحَبَّ إلَی اللّهِ عَزَّوَجلَّ مِن قَطرَتَینِ، قَطرَةُ دَمٍ فِی سَبیلِ اللّهِ، وَ قَطرَةُ دَمعَةٍ فِی سَوادِ اللَّیلِ لَا یرِیدُ بِها العَبدُ إلاّ اللّهَ عَزَّوَجلَّ‘‘۔(4) اللہ تعالیٰ  نزدیک کوئی قطرہ بھی ان دو قطروں  سے بہتر نہیں ہے:
1۔خون کا وہ قطرہ جو راہ خدا میں بہے۔
2۔رات کے سناٹے میں آنکھ سے آنسو کا وہ قطرہ جو خوف خدا میں نکلے۔
آنسو، بندگی و عبودیت کی علامت
امیرالمؤمنین(ع) نے مؤمنین کی اشک ریزی کو بندگی کی اہم علامت قرار دیتے ہوئے فرمایا:’’ العبودیه خمسۃ اشیاء: خلاء البطن، و قراءه القرآن، و قیام اللیل، والتضرع عند الصبح، والبکاء من خشیه الله‘‘۔(5) بندگی 5 چیزوں میں خلاصہ ہوتی ہے:شکم کو خالی رکھنا،قرآن پڑھنا،شب زندہ داری،صبح کے وقت تضرع و زاری کرنا اور اللہ کے خوف سے گریہ کرنا۔
جیسا کہ ہم نے گذشتہ دو روایات میں پڑھا کہ گریہ کرنا ایک محبوب عمل اور بندگی کی علامت ہے۔
امام حسین(ع) پر گریہ کرنے کی فضیلت
اولیاء الہی، خاصان خدا اور خاص طور پر سرکار سید الشہداء(ع) کے غم میں رونے اور اشک بہانے کی اہمیت و فضیلت پر بے شمار احادیث موجود ہیں جن سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مولا(ع) پر گریہ کرنے کی اہمیت و فضیلت کتنی ہے۔چنانچہ امام جعفر صادق(ع) کا ارشاد ہے:’’مَنْ ذُکِرْنَا عِنْدَهُ فَفَاضَتْ عَیْنَاهُ وَ لَوْ مِثْلَ جَنَاحِ بَعُوضَهٍ [الذُّبَابِ‌] غُفِرَ لَهُ ذُنُوبُهُ وَ لَوْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ‘‘۔(6) وہ شخص جس کے سامنے ہم اہل بیت(ع) کا نام لیا جائے اور اس کی آنکھوں سے اشک جاری ہوجائے اگرچہ وہ (آنسو) مچھر کے پر کے برابر ہی کیوں نہ ہو تو اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں چاہے وہ گناہ دریاؤں پر موجود جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔
البتہ بعض احادیث میں یہ تعبیر صرف امام حسین علیہ السلام پر رونے سے متعلق ہے جیسا کہ خود صادق آل محمد سے منقول ہے:’’مَنْ ذُکِرَ الْحُسَیْنُ علیه‌السلام عِنْدَهُ، فَخَرَجَ مِنْ عَیْنِهِ [عَیْنَیْهِ‌] مِنَ الدُّمُوعِ مِقْدَارُ جَنَاحِ ذُبَابٍ کَانَ ثَوَابُهُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ لَمْ یَرْضَ لَهُ بِدُونِ الْجَنَّهِ‘‘۔(7) جس شخص کے سامنے امام حسین(ع) کا تذکرہ ہو اور اس کی آنکھوں سے مچھر کے پر کے برابر آنسو نکل جائے اس کا اجر صرف اللہ ہی دے سکتا ہے اور اللہ اس کے لئے جنت سے کم اجر پر راضی نہیں ہوتا۔
قارئین کرام! ممکن ہے اس مقام پر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ:کیا امام حسین علیہ السلام پر رونے والے ہر شخص کو یہ ثواب ملے گا چاہے اس کی نیت کچھ بھی اور اس کا عمل جیسا بھی ہو؟
تو سوال کا جواب یہ ہے کہ:امام حسین(ع) پر رونے سے پہلے یہ یقین کرلینا چاہیئے کہ جس طرح دین کے بتائے ہوئی دیگر عبادات  اور اعمال قصد قربت اور بغیر حُسن نیت کے قبول نہیں ہیں ویسے ہی امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنا بھی قربۃً الی اللہ کا قصد کئے بغیر بے معنٰی و بے سود ہے لہذا یہ گریہ صرف اللہ کے لئے ہونا چاہیئے دوسری بات یہ کہ امام حسین(ع) کا نام سن کر ہماری آنکھوں سے جو آنسو نکلتے ہیں وہ صرف جذبات کی بنیاد پر نہ ہوں بلکہ معرفت اور شعور کی تہہ سے نکلے جذبات کے آنسو ہوں لہذا اگر امام حسین(ع) پر اس طرح گریہ کیا جائے تو یہ قبول بھی ہوتے ہیں اور ان پر عظیم اجر سے بھی نوازا جاتا ہے۔
اسی طرح اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان آنسؤوں کو قبول نہیں کرتا جو ریاکاری اور دکھاوے کے لئے آنکھوں سے بہائے جائیں اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ امام حسین(ع) پر رونے میں ریاکاری اور دکھاوے کو استثناء کیا گیا ہے تو یہ صرف ان کا گمان ہے بلکہ ’’تباکی‘‘ کا مطلب خود کو گریہ کرنے پر وادار و آمادہ کرنا ہے اور اگر یہ کام خلوص اور معرفت کے ساتھ انجام پائے تو یقیناً یہ ایک بڑا عمل ہے جس کے سبب انسان ثواب عظیم کا حقدار قرار پاتا ہے۔
کبھی کبھی کچھ معاندین کی طرف سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ:کس طرح ایک چھوٹا سا آنسو انسان کی سعادت مندی اور جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ بن سکتا ہے؟
اس سوال کا جواب شہید مطہری کچھ اس طرح سے دیتے ہیں:’’ شہید پر گریہ کرنا درحقیقت اس کے حماسہ اور تحریک میں شریک ہونے اور اس کی روح اور اس کی تحریک  کی موافقت کرنے کے مترادف ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی بلند پایہ شخصیت، اور آپ کی فاتحانہ اور مظلومانہ شہادت کے سبب کروڑں لوگوں کے احساسات کی گرمی اور دلوں کی دھڑکن آپ کے لئے ہے۔ اور وہ افراد جو لوگوں کے ان عظیم احساسات کے مخزن کے نگراں ہوتے ہیں(علماء،خطباء اور نوحہ خواں حضرات) اگر ان احساسات کو روح حسینی(ع) سے متصل و ہماہنگ کرسکیں اور لوگوں کے ان آنسوؤں کا صحیح استفادہ کرسکیں تو اس عمل کے سبب پورے عالم کی اصلاح ہوسکتی ہے۔(8)
ایک روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے:’’ما مِن شیءٍ إلاّ ولَهُ کَیْلٌ أو وَزنٌ إلاّ الدُّموعَ، فإنّ القَطرةَ مِنها تُطْفِئُ بِحارا مِن نارٍ، وإذا اغْرَوْرَقَتِ العَینُ بمائها لَم یَرْهَقْ وَجهَهُ قَتَرٌ ولا ذِلَّةٌ، فإذا فاضَتْ حَرَّمَهُ اللّه‌ على النّارِ، ولَو أنّ باکیا بکى فی اُمَّةٍ لَرُحِموا‘‘۔(9)
آنسو کے علاوہ کائنات کی ہرچیز کا ایک اندازہ اور وزن ہوتا ہے۔(لیکن کوئی آنسو کا وزن نہیں بتا سکتا) چونکہ آنسو کا ایک قطرہ  آگ کے دریا کو خاموش کردیتا ہے، جب آنکھ اپنے آنسو میں غرق ہوجائے تو کسی بھی فقر و ذلت کی گرد اس کے چہرے پر نہیں بیٹھ سکتی اور جب اشک آنکھوں سے بہنے لگیں تو اللہ تعالٰی اس چہرے پر دوزخ کی آگ کو حرام کردیتا ہے اور اگر کسی امت میں کوئی ایک رونے والا ہو تو اس پوری امت اللہ کے رحم و کرم کے حصار میں داخل ہوجاتی ہے۔
مذکورہ بالا روایات کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام پر رونے اور گریہ کرنے کی اہمیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔توحید مفضل، ترجمه مرحوم ملا محمد باقر مجلسی، ص 62۔
2۔سوره دخان:29
3۔تفسیر نور، سورہ دخان کی 29 ویں آیت کے ذیل میں۔
4۔مجلسی، بحارالأنوار، ج 16، ص10۔
5۔جامع الاخبار، ص 505، ح 1397۔
6۔البرقی، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، قم، دارالکتب الاسلامیه، 1371 ق، ج 1، ص 63، ابن قولویه، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، نجف اشرف، دار المرتضویه، چاپ اول، 1356 ش، ص 103، ح 8۔
7۔ابن قولویه، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، نجف اشرف، دار المرتضویه، چاپ اول، 1356 ش، ص 101، ح 3. شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، قم، موسسه آل البیت (علیهم‌السلام)، 1409 ق، ج 14، ص 507، ح 14۔
8۔مطهری، مرتضی، قیام و انقلاب مهدی به ضمیمه شهید، ص 121 ۔ 122 ۔
9۔بحارالأنوار، ج93، ص331 ۔


1
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین