ولایت پورٹل: حجاز پر آل سعود کی حکومت وہابیت کی سرپرستی اور سامراجی طاقتوں کی غلامی کے سبب قائم ہے۔جبکہ تکفیریت اور دہشتگردی ، وہابیت کی کوکھ سے ہی پیدا ہوئے ہیں۔
اس کا مطلب صاف ہے کہ جب سے وہابیت عرصہ وجود میں آئی ہے اسی وقت سے دنیا میں دہشتگردی اور تکفیری ٹولے ظاہر وہے ہیں اور اگر وہابیت سے تکفیریت کو نکال دیا جائے تو وہابیت کی پہچان ہی ختم ہوجائے گی۔یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کی حکومت خود کو باقی رکھنے کے لئے تکفیریت اور دہشت کو فروغ دیتی ہے۔اور اگر سعودی حکومت ان دونوں چیزوں کو چھوڑ دے تو اس کی حکومت پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے گے یہی وجہ ہے کہ آل سعود اپنی خاندانی آمریت کو باقی رکھنے کے لئے ہمیشہ ظلم و بربریت پر کمر کسے رکھتے ہیں اور سامراجی طاقتوں کی غلامی کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ دینی اقدار اور انسانی کرامت و حمیت کو الوداع کہہ چکے ہیں۔
آل سعود کی تاریخ کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ ہمیشہ اس خاندان نے جہاں تکفیریت و دہشتگردی کو فروغ دیا ہے وہیں اس نے ہر دور کے سامراج کی غلامی کا حق ادا کرتے ہوئے امت اسلامی کی پیٹھ میں منافقت و فرقہ واریت کا چھرا بھی گھونپا ہے۔ اور اس چیز کے پیچھے آل سعود کے دو معاہدے ہیں جس میں ایک معاہدہ تو وہ ہے جو انہوں نے وہابیت کے بانی محمد بن عبدالوہاب کے ساتھ کیا اور دوسرے کہنہ مشق سامراجی طاقت برطانیہ کے ساتھ انجام دیا تھا چنانچہ اس مقالہ میں ہم تفصیل سے ان دونوں معاہدوں پر روشنی ڈالیں گے۔
آل سعود اور محمد بن عبد الوہاب کے درمیان معاہدہ
محمد بن عبد الوہاب نے سن 1160 ہجری میں آل سعود کے مورث اعلیٰ اور درعیہ کے حاکم محمد بن سعود کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس میں یہ طئے پایا تھا کہ نجد اور اس کے اطراف کے علاقہ جات آل سعود کی حکومت کا حصہ ہونگے اور وہاں کے باشندے اس کی رعیت۔نیز یہ لوگ محمد بن سعود کے دیگر علاقہ جات سے زیادہ ٹیکس ادا کریں گے جس کے بدلے میں حکومت اسے(محمد بن عبدالوہاب) کو ان علاقوں میں اپنے منحرف نظریات و عقائد پھیلانے کی پوری آزادی دے گی۔لہذا محمد بن سعود نے محمد بن عبد الوہاب کے ہاتھ پر بیعت کی اور کہا کہ میں تمہارے ہاتھ پر بیعت کرنے اور توحید کے مخالفین کے خلاف جنگ کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن میری بھی یہ دو شرطیں ہیں:
1۔ اگر ہم تمہاری حمایت کریں اور تمہارا ساتھ دیں اور اللہ ہمیں کامیابی عطا کردے تو مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں تم ہمیں چھوڑ کر کسی اور کے پاس نہ چلے جاؤ۔چنانچہ شیخ محمد بن عبد الوہاب نے محمد بن سعود کو یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ آخری دم تک اس کی حمایت کرتا رہے گا۔
2۔اگر ہم درعیہ کے لوگوں سے بھاری ٹیکس وصول کرنے کا دباؤ ڈالیں تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم انہیں منع نہ کردو ۔ چنانچہ محمد بن عبد الوہاب نے اس کی یہ شرط بھی منظور کرلی۔
قارئین کرام! وہابیت کی حقیقت کو مزید جاننے کے لئے ہمیں خلاصۃً ایک نظر محمد ابن عبدالوہاب کی زندگی کے نشیب و فراز پر بھی کرنا ہوگی تاکہ بات مکمل طور پر واضح ہوسکے۔
محمد بن عبدالوہاب سن 1111 یا 1115 ہجری میں پیدا ہوا اور 1207 میں فوت ہوا۔90 برس کے قریب زندہ رہا،عینیہ کے علاقہ میں پروان چڑھا اور جوان ہوا اور حنبلی علماء سے ابتدائی تعلیم حاصل کر مدینہ منورہ چلا گیا۔
عرب کے مشہور و معروف مؤلف احمد امین کے مطابق وہ 4 برس بصرہ ،5 برس بغداد،1 سال کردستان،2 سال ہمدان میں اور اس کے بعد کچھ عرصہ ایران کے شہر اصفہان میں رہا اور اس عرصہ میں اپنی ایجاد کردہ بدعات کو پھیلاتا رہا۔
اس کے اپنے بھائی شیخ سلیمان نے اس کی ایجاد کئی ہوئی بدعتوں اور اس کے باطل عقائد کے خلاف ایک کتاب لکھی جس نام’’الصواعق الالھیۃ فی رد الوھابیۃ‘‘ رکھا۔ محمد بن عبد الوہاب نبوت کا جھوٹا دعوا کرنے والے لوگوں جیسے مسیلمہ کذاب ،طلیحہ اسدی وغیرہ کی تعلیمات اور ان کی کتابوں کو بہت شوق سے پڑھتا تھا جیسا کہ اس کے دور کے ایک بڑے عالم میرزا ابوطالب اصفہانی کا اس کے متعلق کہنا ہے کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ میرے اوپر وحی بھی نازل ہوتی ہے۔
شافعی مذہب کے فقیہ اور اہل سنت کے بزرگ عالم احمد زینی دحلان نے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے محمد بن عبدالوہاب سے پوچھا کہ جن عقائد و نظریات کو تم پھیلا رہے ہو ان کا سلسلہ تمہارے اساتذہ میں سے کسی سے ملتا ہے یا یہ سب تمہارے خود کے افکار ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میرے استاد اور ان کے استاد 600 برس کے عرصہ میں سب سب مشرک تھے۔ تو انہوں نے دریافت کیا کہ پھر تمہارا یہ دین کہاں سے آیا؟ محمد بن عبد الوہاب نے جواب دیا کہ حضرت خضر کی طرح وحی اور الہام کے ذریعہ میں نے یہ سب کچھ حاصل کیا ہے۔
محمد بن عبدالوہاب نے لکھا کہ میں تمہیں اپنی طرف سے خبر دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ اور اللہ کی طرف سے آنے والی خبر(جو کہ اللہ کا مجھ پر بڑا احسان ہے) سے پہلے میں لا الہ الا اللہ کا مطلب بھی نہیں جانتا تھا اور اسلام کی مجھے کوئی معلومات نہیں تھی اور اسی طرح میرے سبھی استادوں میں کوئی بھی اسلام کی جانکاری نہیں رکھتا تھا۔
کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر محمد بن عبد الوہاب کے ذریعہ ابن تیمیہ کے افکار و عقائد پھیلائے اور شائع نہ کئے جاتے تو ابن تیمیہ اور اس کے شاگرد ابن قیم جوزی کی موت کے بعد ان کے سارے نظریات و افکار زمیں دوز ہوجاتے اور اور روئے زمین پر وہابیت نام کی کسی چیز کا وجود نہ ہوتا۔
محمد بن سعود نے اپنے بیٹے عبدالعزیز کی شادی محمد بن عبد الوباب سے کی جس سے ان دونوں کے درمیان روابط مزید گہرے ہوگئے اور یہی وجہ ہے کہ آج تک وہ معاہدہ دونوں کی نسل میں جاری ہے۔ جب محمد بن عبدالوہاب نے اس معاہدہ کے تئیں اطمئنان حاصل کرلیا تو اس نے اپنی پیروی کرنے والوں کو اکھٹا کرکے انہیں جہاد کرنے پر وادار کیا اور پڑوس کے شہروں کے لوگوں کو خطوط لکھ کر اپنے افکار کو قبول کرنے اور اپنی رہبری کو ماننے کا دباؤ ڈالنا شروع کیا۔چنانچہ وہ آس پاس کے شہروں سے نقد پیسوں اور دوسری چیزوں کا دسواں حصہ وصول کرتا تھا اور اگر کوئی مخالفت کرتا تھا تو اس پر حملہ کرکے اسے تہہ تیغ کردیا جاتا تھا۔ اور اس کے مال و اسباب کو لوٹ لیا جاتا اور اس کی بیوی بچوں کو قیدی بنا لیا جاتا تھا اور اس کا نعرہ یہ تھا کہ وہابیت کو قبول کرو ورنہ قتل کردیئے جاؤگے اور تمہاری عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوجائیں گے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔