فتح کربلا میں خواتین اور بچوں کا کردار

اطفال و خواتین کے پاس نہ جنگی اسلحے تھے نہ جنگ کی تاب و توانائی ، لیکن ظلم و بربریت کی آخری امکانی صورت میں انھیں ضرب و شتم، ہتک حرمت اور جذبات واحساسات کی جراحت و آزردگی کا سامنا کرنا پڑا ، چھ مہینے کے بچے نے تشنہ لبی کے عالم میں شط فرات کے قریب شہادت پائی ، کمسن بچی نے اپنے بابا کے پارہ پارہ خون آلود جسم کے پاس طمانچے کھائے، ان کے خیمے جلادیئے گئے و۔۔۔ یہ باتیں پیغام رسانی اور حکومت یزید کی ماہیت کو آشکار کرنے میں اصحاب کی قربانی و شہادت سے کچھ کم نہ تھیں ، اطفال حسین علیہ السلام کی یہی صدائے العطش اور علی اصغرعلیہ السلام کا خون بھرا کُرتہ تھا جس نے کربلا کے جہاد اور قربانیوں کو زندہ رکھا ہے۔

ولایت پورٹل: امام حسین علیہ السلام کے انقلاب کے دو رخ تھے ، اور ان میں سے ہر ایک کی بنیاد پر ایک تقسیم عمل میں آئی ، ایک رخ قربانی ، جانبازی اور شہادت کا تھا اور دوسرا رخ پیغام حسینی کی تبلیغ کا تھا ، البتہ پیغام کی تبلیغ قربانیوں اور جانگداز مصائب و شدائد کے بغیر ممکن نہیں تھی ، خواتین کربلا کی حقیقی منزلت اور کردار دوسرے رخ کو عملی جامہ پہنانے میں ابھر کر سامنے آیا، اگرچہ ان خواتین نے مجاہدوں کی تربیت ، ان کی ہمت افزائی اور دیگر پشت پناہی کے اقدامات میں اپنا کردار ادا کیا لیکن ان کا بنیادی فریضہ ، پیغام رسانی تھا ، انقلاب حسینی اور اسلام کی تبلیغ میں خواتین کے کردار کے متعلق گفتگو کرنے کے لئے پہلے دو مقدمات کا بیان کرنا ضروری ہے:
پہلا مقدمہ: یہ ہے کہ روایات کے مطابق امام حسین علیہ السلام کے تمام اقدامات ، ایک نظام اور ایک اصول کے تحت تھے اور سفر کے خطرات سے آگاہ رہنے کے باوجود اپنے اہل بیت(ع) کو اپنے ہمراہ جانب کوفہ لے جانے کی وجہ یہ تھی کہ عالم معنی سے امام حسین علیہ السلام کو جو الہام ہوا اور عالم رؤیا میں پیغمبر اسلام(ص)نے جو آپ(ع)سے فرمایا: کہ(اللہ کی مشیت یہ ہے کہ وہ مخدرات عصمت وطہارت کو قیدی و اسیری میں دیکھے) اس سے آپ(ع) سمجھ گئے کہ ان کی اسیری مورد رضائے حق ہے ، یعنی آپ(ع) نے اسی کو مصلحت جانا کہ اپنے اہلبیت(ع) کو ساتھ لے جائیں ، در حقیقت امام (ع)نے اپنے اس عمل سے اپنے مبلغوں کو مختلف شہروں میں یہاں تک کہ دشمن کے مرکز میں روانہ کیا اور اپنے پیغام کو ہر ایک تک پہنچادیا۔(۱)
دوسرا مقدمہ:تاریخ میں خواتین کے کردار سے متعلق گفتگو ہے ، پوری تاریخ میں کوئی خواتین کے کردار کا منکر نہیں ہے اور کم سے کم خواتین کے بالواسطہ کردار کو سبھی تسلیم کرتے ہیں اس انداز سے کہ عورت مردساز ہوتی ہے اور مرد تاریخ ساز، اور مرد سازی میں عورت کا جو کردار ہوتا ہے وہ تاریخ سازی میں مرد کے کردار سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
مجموعی طور پر پوری تاریخ میں کردار ادا کرنے یا نہ کرنے کے لحاظ سے خواتین تین دستوں میں منقسم ہیں:
الف: وہ خواتین جو گراں بہا شئے کے مانند تھیں لیکن ان کا کوئی کردار نہیں تھا ، جیسے بہت سے لوگ جن کے لئے عورت ایک گراں بہا شئے (نہ کہ شخص) تھی جسے اپنے حدود میں محفوظ رہنا چاہیئے اور وہ اپنے گراں بہا ہونے کی بناپر مرد پر اثر انداز ہوتی تھی اور کہا جاسکتا ہے کہ ایسے معاشرے کی تعمیر میں صرف صنف مذکر کا ہی کردار ہوا کرتا تھا۔
ب:بعض معاشروں میں عورت ایک شئے ہونے کی حیثیت سے باہر نکل کر اجتماع کے دائرے میں  قدم رکھتی ہے ، لیکن اپنے حدود کو بھلا کر اور ہر جگہ اپنی موجودگی ظاہر کرکے اپنی قدر و قیمت کھو دیتی اور بے اہمیت ہوجاتی ہے ، ایسے معاشرے میں عورت بنفس نفیس موجود تو ہوتی ہے لیکن بے قیمت اور اپنا وقار کھو کر ، بعض انسانی خوبیوں جیسے علم ، ارادہ ، اجتماعی شخصیت ، مختلف کاموں میں سرگرم ہونے وغیرہ میں آگے بڑھنے کے لحاظ سے اسے شخصیت دیتے ہیں اور شئے ہونے سے خارج کرتے ہیں لیکن دوسری طرف سے مرد کے لئے اس کی اہمیت کو ختم کردیتے ہیں ، عورت کی فطرت یہ ہے کہ وہ مرد کے لئے گراں بہا ہو اور اگر یہ چیز اس سے لے لی جائے تو اس کی روح نابود ہوجاتی ہے ایسے معاشرے کی تعمیر میں اگرچہ دونوں صنف (مذکر و مونث )کا کردار ہوتا ہے لیکن عورت کا کردار ایک جنس ارزاں کے مانند ہوتا ہے اور کسی مرد کی نظر میں عورت شایان شان عزت و احترام کے قابل نہیں ہوتی ہے۔
ج:اسلام کی نظر میں عورت ایک قیمتی وجود کی مالک ہوتی ہے یعنی ایک طرف سے عورت کو روحانی و معنوی شخصیت اور انسانی کمالات جیسے علم و ہنر ، قوت ارادی ، شجاعت و شہامت حتی کہ معنوی فضائل کا حامل ہونا چاہیئے اور دوسری طرف سے اسے بے حیا نہیں ہونا چاہیئے، قرآن کریم نے بھی خواتین کو اہمیت و منزلت دی ہے مثلا آدم(ع) کے ساتھ حوا (ع)کو مخاطب قرار دیتے ہوئے دونوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس درخت کے قریب نہ جاؤ۔(۲)
جناب سارہ(ع) بھی حضرت ابراہیم (ع)کی طرح فرشتوں کو دیکھتی اور ان سے گفتگو کرتی ہیں  جناب مریم (ع)خدا کی طرف سے رزق و روزی اس طرح پاتی ہیں کہ حضرت زکریا (ع)غرق تعجب ہوجاتے ہیں ، اور جناب فاطمہ زہراصلواۃ اللہ علیہا کو کوثر (خیر کثیر ) کہا جاتا ہے ، اسلام کی تاریخ میں اس معیار کی عورت کا بہترین نمونہ حضرت فاطمہ زہراصلواۃ اللہ علیہاکی ذات ہے ، وہ جو اس بات سے خوش ہوجاتی ہیں کہ پیغمبر اکرم(ص)نے صرف گھر کے اندر کے کام آپ(س)کے حوالے کئے ہیں وہ جو مسجد میں ایسا خطبہ ارشاد فرماتی ہیں کہ بو علی سینا جیسے افراد بھی توحید کے مسائل سے متعلق ایسا خطبہ انشاء کرنے پر قادر نہیں ہیں ، لیکن پھر بھی آپ(ص) اپنا خطبہ پشت پردہ سے ارشاد فرماتی ہیں ، یعنی مردوں سے اپنے حریم و حدود کی محافظت کرتے ہوئے واضح کردیتی ہیں کہ معاشرہ میں ایک عورت کس قدر اثر انداز ہوسکتی ہے۔
ان دو مقدموں کے بعد کہنا چاہیئے کہ کربلا کی تاریخ دونوں صنفوں کی ایک تاریخ ہے یعنی جس میں مرد اور عورت دونوں کا کردار رہا ہے لیکن اپنے اپنے مرکز پہ رہتے ہوئے اور اپنے حریم و حدود سے باہر نکلے بغیر ۔
واقعۂ کربلا میں مردوں کا کردار واضح ہے لیکن عورتوں کا بالخصوص حضرت زینب صلواۃ اللہ علیہا کاکردار عصر عاشور کے بعد نمایاں ہوتا ہے اور اس کے بعد کی ساری ذمہ داریاں آپ(س) کے حوالے کردی جاتی ہیں، آپ(س) امام حسین علیہ السلام کے جسم مطہر کے روبرو وہ کام انجام دیتی ہیں کہ دوست اور دشمن رونے لگتے ہیں درحقیقت آپ(س)امام حسین علیہ السلام کی پہلی مجلس عزا برپا کرتی ہیں ، امام سجادعلیہ السلام اوردیگر خواتین و اطفال کی تیمارداری کرتی ہیں اور دروازۂ کوفہ کے سامنے شجاعت علی علیہ السلام  اور عفت حیائے فاطمہ کے امتزاج کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام کے بلند خطبات کی یاد دلاتی ہیں اور اہل کوفہ کو ان کے گناہ اور مظالم کے تئیں متنبہ کرتی ہیں ، یہ ہیں وہ خاتون جو اسلام چاہتا ہے ، حیا و عفت اور اپنے حدود و حریم کی پوری پاسداری کرتے ہوئے اجتماع کی ایک بلند و با وقار شخصیت۔(۳)
مذکورہ بیان کی روشنی میں انقلاب عاشورا میں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ اہل حرم کی ہمراہی چند جہت سے قابل اہمیت ہے:
۱۔خواتین اور اطفال تبلیغ اور پیغام رسانی کی قدرت رکھتے ہیں۔
۲۔تبلیغ کی قدرت رکھنے کے علاوہ ، دشمن بھی ان کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہوتے ہیں  کیوں کہ ان کے حریم و حدود کا خیال رکھنا ناگزیر ہوتا ہے اور خواتین و اطفال کے ساتھ زیادتی اور ضرر رسانی کی صورت میں عوام کے جذبات مجروح ہوئے اور رائے عامہ کے نزدیک طول تاریخ میں وہ قابل نفرت و ملامت قرار پاتے ہیں ، چنانچہ واقعۂ کربلا میں دشمن اپنے گھر والوں تک کے نزدیک ذلیل و خوار ہوکر رہ گئے۔
دوسرے یہ کہ عرفانی نقطۂ نظر سے امام حسین علیہ السلام نے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی ساری ہستی کسی نقص اور کمی کے بغیر ظرف اخلاص میں رکھ کر خدا کی بارگاہ میں پیش کردی، اس اخلاص کا ثمرہ یہ قرار پایا کہ انقلاب عاشورا تاریخ کے طول و عرض میں مسلمان اور غیر مسلمانوں دونوں کے لئے موثر ثابت ہوا اور قیامت میں بھی وہ مرتبہ نصیب ہوگا کہ سارے انسانوں کو رشک ہوگا ، اس سلسلہ میں مزید وضاحت کی خاطر چند باتیں قابل ذکر ہیں:
۱۔پیغام رسانی
اسلام کے آئین میں اجتماعی ذمہ داری مردوں سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ مسلمان اور متعہد (دیندار) خواتین بھی حق و باطل اور ولایت و رہبری کے مسئلہ میں ذمہ دار ہوتی ہیں اور ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ حق کی رہبری کا دفاع اور اس کی پیروی کریں فاسد حکومتوں اور نااہل حکمرانوں کو تنقید و اعتراض کا نشانہ بنائیں اور معاشرہ کے مختلف پلیٹ فارموں پر اثرانداز سرگرمی کا مظاہرہ کریں۔
امام معصوم کے دفاع و حمایت اور زمامداروں کے غلط طور طریقوں کو طشت از بام کرنے کے رابطہ میں حضرت زہراصلواۃ اللہ علیہا کی راہ و روش کو آگے بڑھاتے ہوئے انقلاب عاشورا میں خواتین بالخصوص حضرت زینب صلواۃ اللہ علیہا ،امام حسین علیہ السلام  کی برابر کی شریک رہیں ، ہر تحریک اور انقلاب زیادہ تر دو حصہ ’’خون اور پیغام ‘‘ سے تشکیل پاتا ہے ، خون والے حصے سے مراد خونی جنگ اور مسلحانہ تحریک و قیام ہے جو قتل کرنے ، قتل ہونے اور مقدس ہدف کی راہ میں قربانی پیش کرنے کا باعث بنتا ہے اور پیغام والے حصے سے مراد انقلاب کے اہداف و اغراض کی تبلیغ اور اس کے مقاصد کی توضیح و تشریح ہے۔
امام حسین علیہ السلام کے قیام کے مطالعہ سے یہ دو حصے پورے طور پر نمایاں نظر آتے ہیں  اس لئے کہ انقلاب امام حسین علیہ السلام عصر عاشور تک پہلے حصے (یعنی خون و شہادت )کا مظہر تھا اور اس کی رہبری و پرچمداری بھی خود آپ (ع)کے ذمہ تھی ، پھر اس کے بعد دوسرے حصہ کا آغاز امام سجادعلیہ السلام اور حضرت زینب صلواۃ اللہ علیہا کی رہبری میں ہوا ان حضرات نے آتشیں خطبات سے حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کی شہادت سرخ اور انقلاب کا پیغام لوگوں تک پہنچایا اور بنی امیہ کی پلید حکومت کی رسوائی کا اعلان کردیا۔
اس بات کو نظر میں رکھتے ہوئے کہ معاویہ کے زمانے سے ہی اموی حکومت نے اہل بیت (ع)کے خلاف اور خاص طور پر شام کے علاقہ میں وسیع پیمانے پر جو پرپیگنڈے کررکھے تھے یقینا اگر امام حسین علیہ السلام کے اہل حرم حقائق کو اجاگر کرنے اور لوگوں کو بیدار کرنے کا عمل انجام نہ دیتے تو دشمنان اسلام اور ارباب اقتدار کے ایجنٹ ، آپ کے عظیم اور زندہ جاوید انقلاب کو تاریخ میں بے اہمیت اور اس کے چہرہ کو مسخ کرکے پیش کرتے جیسا کہ بعض نے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں تہمت لگاتے ہوئے کہد یا کہ: وہ تو ذات الریہ اور سل کی بیماری کے نتیجہ میں دنیا سے رخصت ہوئے۔
لیکن اسیری کے دوران حضرت امام حسین علیہ السلام کے اہل حرم کی وسیع تبلیغات نے ( جس کی یزید کی احمقانہ کینہ توزی نے ان کے لئے موقع فراہم کیا تھا) دشمنوں کو ایسی تحریف اور زیادتی کرنے کی اجازت نہیں دی ، کربلا میں اہل حرم کا کردار اور ان کی موجودگی کی اہمیت و ضرورت شام میں بنی امیہ کی حکومت کا جائزہ لینے اور مطالعہ کرنے کے بعد اور زیادہ روشن ہوجاتی ہے۔
۲۔بنی امیہ کے پروپیگنڈوں کی ناکام سازی
شام جس دن سے مسلمانوں کے تصرف میں آیا خالد بن ولید اور معاویہ بن ابوسفیان جیسے حکمرانوں کے قبضۂ قدرت میں آگیا، یہاں کے لوگ نہ پیغمبر اکرم(ص)کی حدیثوں سے آشنا تھے نہ اصحاب پیغمبر(ص) کی سیرت و روش سے آگاہ تھے اور نہ ہی اسلام کی کم سے کم جس طرح مدینہ میں رائج تھا معرفت رکھتے تھے ، البتہ ایک سو تیرہ صحابیٔ پیغمبر(ص)یا تو یہاں کی سرزمین کو فتح کرنے میں شریک تھے یا پھر تدریجاً وہاں پر قیام پذیر ہوگئے تھے ، لیکن ان تمام افراد کے زندگی نامہ کا جائزہ لینے سے واضح ہوجاتا ہے چند افراد کو چھوڑ کر بقیہ نے مختصر مدت کے لئے پیغمبر اکرم(ص) کی صحبت پائی تھی اور صرف ایک یا چند حدیث سے زیادہ کی روایت نہیں کی تھی۔
اس کے علاوہ ان افراد میں سے اکثر عمر و عثمان کی خلافت کے دوران ، حکومت معاویہ کے آغاز تک وفات پاگئے اور امام حسین علیہ السلام کے قیام کے وقت صرف ان میں سے گیارہ افراد زندہ تھے اور شام میں زندگی گزار رہے تھے ، یہ حضرات ۷۰ سے ۸۰؍ سال کی عمر کے تھے جو گوشہ نشینی کوسماج میں آنے کی نسبت ترجیح دیتے اور لوگوں کے درمیان اثر و رسوخ بھی نہیں رکھتے تھے ، نتیجہ میں اس وقت کی جوان نسل ، حقیقی اسلام سے بالکل ناواقف تھی ، اور شاید ان کی نظر میں اسلام بھی حکومتی تھا ان افرادکی حکومت کے مانند جو وہاں اسلام پہنچنے سے پہلے حکمرانی کرتے تھے ، دربار معاویہ کی آرائش و زیبائش ، عمومی اموال میں خرد برد ، عالیشان محلوں کی تعمیر اور مخالفین کو جلا وطن کرنا اور مارڈالنا ان کے لئے عام بات تھی ، اس لئے کہ نصف صدی پہلے اس طرح کے نظام کا وہاں سابقہ رہ چکا تھا اور یقینا وہاں ایسے لوگ بھی رہے ہوں گے جو یہ سمجھ رہے ہوں گے کہ عہد پیغمبر(ص)میں مدینہ میں بھی ایسا ہی نظام حاکم رہا ہوگا۔(۴)
معاویہ نے کوئی بیالیس سال شام میں حکومت کی اور اس طولانی مدت میں اس نے شام والوں کی اس طرح سے تربیت کی کہ وہ دینی آگاہی و بصیرت سے بے خبر رہیں ،  اور اس کے ارادہ و منشأ کے سامنے بغیر کسی چون و چرا کے سر تسلیم خم کئے رہیں۔(۵) معاویہ نے اس مدت کے دوران نہ صرف یہ کہ فوجی اور سیاسی لحاظ سے شام والوں کے اپنے زیر نگیں رکھا بلکہ فکری اور مذہبی اعتبار سے بھی وہاں والوں کو اندھا ، بہرا اور گمراہ رکھا ، تاکہ تعلیمات اسلام کے نام پر وہ جو کچھ ان کے سامنے پیش کررہا ہے بغیر کسی اعتراض کے سب اسے مان لیں۔
بنی امیہ کی پلید حکومت نے اپنے زہر آلود اور معاندانہ پرپیگنڈوں سے پیغمبر اکرم(ص) کے اہل بیت(ع) پاک کو شام والوں کی نظر میں قابل نفرت بناکر پیش کیا اور ان کے مقابل میں بنی امیہ کا رسول خدا(ص) کے اعزاء و اقرباء کی حیثیت سے اس طرح تعارف کرایا کہ بنی عباس کی تحریک کی کامیابی اور ابو العباس سفاح کی حکومت قائم ہوجانے کے بعد شام کے دس حکمراں اس کے یہاں گئے اور انہوں نے قسم کھائی کہ ہم آخری اموی خلیفہ مروان کے قتل کے وقت تک نہیں جانتے تھے کہ بنی امیہ کے علاوہ رسول اللہ کے کوئی اعزاء و اقرباء تھے جو آنحضرت(ص) کے وارث ہوں ، یہاں تک کہ آپ خلیفہ بنے۔(۶)لہٰذا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے جو ہم مقاتل میں پڑھتے ہیں کہ جس وقت اسیران کربلا  دمش پہنچے تو ایک شخص امام زین العابدین علیہ السلام کے سامنے کھڑا ہوا اور بولا اس خدا کا شکر جس نے تمہیں قتل کیا اور تمہیں نابود کرکے لوگوں کو تمہارے شر سے راحت دی ، آپ نے تھوڑا توقف کیا یہاں تک کہ جب شامی اپنی ساری بھڑاس نکال چکا تو آپ (ع)نے آیۂ تطہیر:’’اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ لِیُطَھِّرَکُمْ تَطْہِیْراً‘‘۔(۷) وغیرہ کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ آیتیں ہماری شان میں نازل ہوئی ہیں ، پھر کیا تھا وہ آدمی سمجھ گیا کہ میں نے جو کچھ ان اسیروں کے بارے میں سنا ہے وہ صحیح نہیں ہے ، یہ حضرات خارجی نہیں بلکہ آل پیغمبر(ص)ہیں چنانچہ وہ اپنے کہے ہوئے جملہ پر پشیمان ہوا اور توبہ کی۔(۸)
بنابر ایں ، امام حسین علیہ السلام کے اہل حرم کی منزل بہ منزل روانگی اور امام سجادعلیہ السلام و حضرت زینب صلواۃ اللہ علیہاکے خطبات و بیانات سے بنی امیہ کی چند دہائیوں کی ساری تحریفات و تبلیغات (یہاں تک کہ شام میں جو دشمنوں کی خلافت کا مرکز تھا) ناکام ہوگئیں۔
۳۔ظالموں کے چہرے سے نقاب کشائی
کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے اہل حرم کے حاضر ہونے کی علت کا ایک اور پہلو یزید اور اس کی حکومت کے ظالم ، بے رحم اور غیر انسانی چہرے کو اجاگر کرنا تھا، لوگوں کی طرف سے پیغام کی قبولیت میں اور پیغام پہنچانے والوں کی طرف سے تبلیغات کے زیادہ کامیاب ہونے میں جو جو اسباب و عوامل مؤثر ہیں ان میں سے ایک عنصر مظلومیت ہے ، اسی لئے بعض جماعتیں گروہ اور سیاسی پارٹیاں پروپیگنڈے کے دوران لوگوں کے اذہان اور رائے عامہ میں زیادہ جگہ بنانے کے لئے مظلومیت کا اظہار کرتی ہیں ، چوں کہ انسان فطرتاً ظلم اور ظالم سے بیزار و متنفر ہوتا ہے ، اسی طرح مظلوم (لوگوں کی نگاہوں میں ) محبوب اور کم از کم لوگوں کے مثبت جذبات و احساسات سے ہمکنار رہتا ہے ۔
واقعۂ کربلا میں مظلومیت کا مظاہرہ نہیں بلکہ حقیقت مظلومیت ، اہل حرم کی فداکاری کے ساتھ جلوہ گر ہوئی اور انہوں نے حضرت سید الشہدا(ع)ء اور آپ(ع) کے اصحاب کے پیغام کو عالی ترین انداز میں سارے لوگوں تک اس طرح پہنچادیا کہ آج تک ان کی آواز ضمیر بشریت کے کانوں سے ٹکرا رہی ہے ۔
اطفال و خواتین کے پاس نہ جنگی اسلحے تھے نہ جنگ کی تاب و توانائی ، لیکن ظلم و بربریت کی آخری امکانی صورت میں انھیں ضرب و شتم، ہتک حرمت اور جذبات واحساسات کی جراحت و آزردگی کا سامنا کرنا پڑا ، چھ مہینے کے بچے نے تشنہ لبی کے عالم میں شط فرات کے قریب شہادت پائی ، کمسن بچی نے اپنے بابا کے پارہ پارہ خون آلود جسم کے پاس طمانچے کھائے، ان کے خیمے جلادیئے گئے و۔۔۔ یہ باتیں پیغام رسانی اور حکومت یزید کی ماہیت کو آشکار کرنے میں اصحاب کی قربانی و شہادت سے کچھ کم نہ تھیں ، اطفال حسین علیہ السلام کی یہی صدائے العطش اور علی اصغرعلیہ السلام کا خون بھرا کُرتہ تھا جس نے کربلا کے جہاد اور قربانیوں کو زندہ رکھا ہے۔
امام سجادعلیہ السلام نے جب بنی امیہ کے نظام حکومت کو رسوا کرنا چاہا تو فرمایا کہ میرے بابا کا مُثلہ کیا گیا یعنی ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے انھیں شہید کیا گیا، جس طرح قفس کے اندر کسی پرندہ کے بال و پر کو نوچ لیا جائے کہ وہ تڑپ تڑپ کردم توڑ دے۔ اس موقع پر اگر امام سجادعلیہ السلام یہ فرماتے کہ میرے بابا کو شہید کردیا گیا تو شام والوں کی نگاہ میں (جو اہلبیت(ع) کی زیادہ معرفت نہیں رکھتے تھے )زیادہ اہمیت کا حامل نہ ہوتا ، اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ جنگ میں تو افراد مارے ہی جاتے ہیں، انھیں میں سے ایک امام حسین علیہ السلام بھی رہے ہوں گے ۔
امام سجادعلیہ السلام نے فرمایا کہ بالفرض اگر تم قتل کرنا ہی چاہتے تھے تو پھر اس انداز سے کیوں قتل کیا؟ کیوں ایک پرندہ کی طرح ان کے بدن کو پارہ پارہ کیا ؟ کیوں دریا کے قریب انھیں پیاسا قتل کیا ؟ انھیں دفن کیوں نہیں کیا ؟ ان کے خیموں پہ کیوں حملہ کیا؟کیوں ان کے بچوں کو شہید کیا ؟ یہ کلمات تمام افراد کے نزدیک اس قدر ناقابل تردید تھے کہ شام میں ایک طوفان برپا کردیا اور اموی نظام حکومت کے خلاف فکری اور ثقافتی ہلچل مچادی ۔
اس سلسلہ کی آخری بات یہ ہے کہ یزید چاہتا تھا کہ مردوں کو قتل کرکے اور خاندان اہل بیت(ع) کو اسیر بناکے وجود میں آنے سے پہلے ہی تمام تحریکوں کا گلااس طرح گھونٹ دے کہ سبھی ایسے انجام سے خوفزدہ اور لرزہ بر اندام ہوجائیں اور خود تخت اقتدار پر قابض رہے ، لیکن امام حسین علیہ السلام کے بلند مرتبہ قیام و انقلاب اور آپ(ع) کے اہل بیت(ع) کی مظلومیت اور حقیقت بیانی سے معمور پیغام رسانی نے امام حسین علیہ السلام کے خون کا انتقام لینے اور بنی امیہ کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے کے لئے سر زمین اسلامی کے مختلف خطوں (علاقہ) میں ظلم کا مقابلہ کرنے والی ہستیاں اور جیالے پیدا کردیئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔’’اِنَّ اللّٰہَ شاءَ اَنْ یَرَاھُنَّ سَبَایَا‘‘۔بحار الانوار ، ج۴۴، ص ۳۶۴۔
۲۔مسیحیت کی اس غلط فکر کے بارے میں کہ آدم (مرد)اصل اور حوا(عورت )فرع ہے نیز اس فکر کے ساتھ قرآن کی مخالفت سے متعلق استاد مطہری نے تفصیلی بحث کی ہے ،رجوع کریں حماسۂ حسینی ، ج۱، ص ۴۰۶،۴۰۴کی طرف۔
۳۔حماسہ حسینی ، ج:۱، ص:۴۱۱و ۳۹۷و ج:۲ ، ص: ۲۳۶و ۲۳۱۔
۴۔ شہیدی ، سید جعفر ، قیام امام حسین علیہ السلام،ص: ۱۸۵۔
۵۔ آیتی ، محمد ابراہیم ، بررسی تاریخ عاشورا ، ص ۴۷۔
۶۔ابن ابی الحدید ، شرح نہج البلاغہ ، ج۷، ص ۱۵۹۔
۷۔سورۂ احزاب(۳۳) آیت: ۳۳(بیشک خدا چاہتا ہے کہ ہر طرح کی کثافت و پلیدی تم اہلبیت(ع) سے دور رکھے اور تم کو اس طرح پاک رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے )
۸۔اخطب خوارزمی ، مقتل الحسین ، ج۲، ص ۶۱، اللہوف ، ص ۷۴۔

0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین