یوروپ میں ہمیشہ حقوق نسواں پامال ہوتے رہے:آیت اللہ خامنہ ای

یورپ میں عورت شوہر کے مقابلہ میں اپنی ملکیت کی بھی مالک نہ تھی۔ یعنی جو عورت شادی کے بندھن میں بندھ جاتی تھی پھر اس کی تمام جائیداد شوہر کے حصہ میں چلی جاتی تھی اور وہ خود کوئی حق تصرف نہیں رکھتی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ بیسویں صدی کی ابتداء میں عورتوں کو حق مالکیت دیا گیا اور کام کاج کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔ یعنی اس دور میں عورت کو ان حقوق سے بھی محروم رکھا گیا جو انسانی حقوق کے درمیان ابتدائی حیثیت کے حامل ہیں۔

ولایت پورٹل: یوروپ کی تاریخ میں ایسی عورتیں بھی تھیں جو ملکہ یا بڑے گھرانوں کی ہوا کرتی تھیں۔ مگر واضح رہے کہ کسی خاص خاندان، قبیلہ یا طبقہ کی ایک عورت یا چند عورتوں کا موضوع پوری صنف نسواں کے موضوع سے الگ ہے۔ اس طرح کے امتیازی سلوک ہمیشہ رہے ہیں۔ ایسی عورتیں بھی وجود رکھتی تھیں جو اعلیٰ منصب وعہدہ تک پہنچی تھیں یا کسی ملک کی ملکہ بن جاتی تھیں لیکن یہ امتیازی حیثیت انہیں خاندان اور میراث کے ذریعہ عطا کی جاتی تھی۔ پوری صنف نسواں کو یہ عزت حاصل نہ تھی۔ ادیان کے نظریات کے برخلاف جن میں سب سے محفوظ دین اسلام ہے اور دیگر ادیان بھی یقیناً ایسا ہی عقیدہ پیش کرتے ہیں، معاشرہ میں خواتین کسی طرح کے حق کی حقدار نہ تھیں۔
بیسویں صدی کی ابتداء تک، حقوق نسواں کے حوالے سے کئے گئے تمام دعوے، عجیب و غریب روز افزوں بے پردگی و عریانی اور اس بے لگام جنسی آزادی کے باوجود جسے عورت کی آزادی و احترام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، مغرب کی خاتون کو یہ حق نہ تھا کہ وہ اپنی دولت کا استعمال بھی آزادانہ طور پر کرسکے۔ شوہر کے مقابلہ میں وہ اپنی ملکیت کی بھی مالک نہ تھی۔ یعنی جو عورت شادی کے بندھن میں بندھ جاتی تھی پھر اس کی تمام جائیداد شوہر کے حصہ میں چلی جاتی تھی اور وہ خود کوئی حق تصرف نہیں رکھتی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ بیسویں صدی کی ابتداء میں عورتوں کو حق مالکیت دیا گیا اور کام کاج کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔ یعنی اس دور میں عورت کو ان حقوق سے بھی محروم رکھا گیا جو انسانی حقوق کے درمیان ابتدائی حیثیت کے حامل ہیں۔
 


0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین