ولایت پورٹل:گزشتہ جمعہ سے غزہ کی پٹی پر صیہونی حکومت کے حملے شروع ہوئے جو اتوار کی شام ساڑھے گیارہ بجے تک جاری رہے اس کے بعد اس حکومت اور فلسطینی جہاد اسلامی تحریک نے جنگ بندی کا اعلان کیا، تاہم ان حملوں میں متعدد بچوں سمیت کم از کم 43 فلسطینی شہید ہوئے، واضح رہے کہ غزہ کی پٹی جہاں 2 لاکھ 300 ہزار سے زائد فلسطینی آباد ہیں، پر صیہونی حکومت کے حملوں کے بعد عراق، قطر، شام، پاکستان، ترکی، ایران، افغانستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں صیہونیوں کے خلاف نفرت کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے غزہ پر صیہونی حکومت کے حملے کی مذمت کی۔
اگرچہ صیہونی حکومت کے فضائی حملوں نے جہاد اسلامی کی تحریک کے فوری اور شدید ردعمل کا سامنا کیا اور صیہونی حکومت کی بستیوں پر راکٹوں کی بارش ہوئی، لیکن اس نے ایک بار پھر دنیا کی توجہ فلسطینی شہریوں بالخصوص بچوں کے قتل کی طرف مبذول کرادیم وہ واقعات جو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور انسانی حقوق کی حمایت کے دعویداروں کے طور پر مغربی حکومتوں بالخصوص امریکہ کی خاموشی کے درمیان ہمیشہ دہرائے جاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج فلسطینی بچوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے اور 9/28/2000 کو الاقصیٰ احتجاج کے آغاز سے لے کر اکتوبر 2019 کے اختتام تک صیہوںیوں کے ہاتھوں تین ہزار سے زائد بچے شہید اور دسیوں ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، اس کے علاوہ گرفتاریاں، قید، تشدد اور تذلیل انسانی حقوق کی دوسری خلاف ورزیاں ہیں جو فلسطینی بچوں کے ساتھ کی جاتی ہیں۔
فلسطینی بچوں کی قاتل صیہونی حکومت
غزہ کی پٹی پر ہونے والے ہر حملے میں صیہونی حکومت عام شہریوں اور بچوں کے قتل کو ترجیح دیتی ہے، اس لیے سنہ 2000 میں مسجد اقصیٰ کی انتفاضہ کے بعد دو دہائیوں میں تین ہزار سے زائد بچے شہید ہو چکے ہیں۔

wilayat.com/p/8851
متعلقہ مواد
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین