شہداء زندہ ہیں

مرد مجاہد، سردار اسلام جنرل شہید قاسم سلیمانی اور مجاہد اسلام شہید ابو مہدی المہندس انھیں مردان خدا میں تھے جنھوں نے دفاع حق اور باطل سے مقابلہ کے لیے موت سے بے خوف ہوکر علی الاعلان دنیا کے بڑے بڑے دہشت گردوں، دشمنان انسانیت اورامریکہ و اسرائیل جیسی ہر ظالم و استعماری طاقت کے سامنے جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں سیسہ پلائی دیوار بن کر اورہر باطل منصوبے کو خاک میں ملاکر یہ ثابت کردیا کہ جس کے دل میں انسانیت کا درد ہوتا ہے ، جو ظلم و بربریت اور ناانصافی سے نفرت کرتا اور راہ حق میں شوق شہادت رکھتا ہے وہ کسی طاقت سے نہیں ڈرتا بلکہ اپنے کو سپر پاور کہنے والی طاقتیں اس کے آگے گھٹنے ٹیکتی ہیں

بسم رب الشھداء

شہداء زندہ ہیں

شہید قاسم سلیمانی و شہید ابومہدی المہندس(


تحریر: حجہ الاسلام و المسلمین مولانا حسنین باقری صاحب


راہ خدا میں ،حق کے لئے، باطل کے مقابلہ میں ، انسانیت و حق کی حفا ظت اور باطل کو اس کے مشن میں ناکام کرنے کے لئے قربانی کو شہادت کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے شہید کو زندہ کہہ کر نہ صرف اس کی حیات کی گواہی دی ہے بلکہ شہید کو مردہ گمان کرنے یا مردہ کہنے سے بھی منع کیا ہے جس سے شہادت کی عظمت و اہمیت اور شہید کے عظیم درجہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ارشاد ہوتا ہے:

’’وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ ﴿١٦٩﴾‘‘

’’اور خبردار راہِ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں‘‘(سورہ آل عمران، آیت۱۶۹)۔

دوسری جگہ حکم دیا ہے:’’وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ ﴿١٥٤﴾

 ’’اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہوجاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے۔(سورہ بقرہ، آیت۱۵۴)۔

ایک جگہ راہ خدا میں جان دینے کو مغفرت و رحمت خدا کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ:

 ’’وَلَئِن قُتِلْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرَحْمَةٌ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ﴿١٥٧﴾‘‘۔

 ’’ اگر تم راہِ خدا میں مرگئے یا قتل ہوگئے تو خدا کی طرف سے مغفرت اور رحمت ان چیزوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے جنہیں یہ جمع کررہے ہیں (سورہ آل عمران، آیت۱۵۷)۔

سورہ توبہ میں راہ خدا میں جان دینے کو جنت کی ضمانت اور عظیم کامیابی بتاتے ہوئے ارشاد ہوا ہے:

’’إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّـهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١١١﴾‘‘۔

 ’’بیشک اللہ نے صاحبانِ ایمان سے ان کے جان و مال کو جنّت کے عوض خریدلیا ہے کہ یہ لوگ راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر خود بھی قتل ہوجاتے ہیں یہ وعدۂ برحق توریت ,انجیل اور قرآن ہر جگہ ذکر ہوا ہے اور خدا سے زیادہ اپنے عہد کا پورا کرنے والا کون ہوگا تو اب تم لوگ اپنی اس تجارت پر خوشیاں مناؤ جو تم نے خدا سے کی ہے کہ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے‘‘ (سورہ توبہ ، ۱۱۱)۔

معصومین علیہم السلام نے شہادت کی عظمت اور شہدا کے فضائل کو کثرت سے بیان کیا ہے:

رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’فَوقُ كُلِّ ذِی‌بِرّ‍ٍ بِرٌّ حتّی یُقتلَ الرّجُلُ شهیداً فی سبیلِ الله‘‘۔

’’ہر نیکی کے اوپر نیکی ہے لیکن جب راہ خدا میں قتل ہوجائے تو اس سے اوپر کوئی نیکی نہیں ہے‘‘(وسائل الشیعہ، ج11، ص10، حدیث 21)۔ 

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ’’لَیسَ عَنِ الـمَوْتِ مَحیدٌ وَ لا مَحیصٌ. مَن لَم یُقتَلْ ماتَ، إنّ اَفضَلَ الموتِ اَلقَتلُ.و الذی نفس ابن ابی ابیطالب بیده لالف ضربه بالسیف اهون علی من میته علی الفراش.‘‘۔

 ’’اے لوگو! موت سے کسی کو فرار نہیں جو طبعی موت نہیں مرے گا قتل کیا جائے گا۔ اور بہترین موت راہ خدا میں قتل ہونا ہے، اور اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تلوار کی ہزار ضربیں میرے لیے بستر پر مرنے سے انتہائی آسان ہیں‘‘۔(وسائل الشیعہ، ج11، ص8، حدیث12)۔

ائمہ معصومینؑ نے تو خدا سے دعاؤں میں بھی شہادت کی موت ،حضرت پیغمبرؐ کے پرچم تلے شہادت ، بدترین لوگوں کے ہاتھوں مارا جانا اور شرافت مند ترین موت کی دعا کی ہے.بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ ’’شہید کا شمار قیامت کے دن شفاعت کرنے والوں میں ہوگا‘‘، ’’شہید بغیر حساب و کتاب کے بہشت میں جائے گا’’، ’’قیامت کے دن جو سب سے پہلے بہشت میں داخل ہو گا وہ شہید ہے‘‘۔ ایک حدیث میں رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’ جو اپنی ذات سے ظلم و ستم دفع کرنے کی راہ میں قتل کردیا جائے وہ شہید ہے‘‘۔ (میزان الحکمۃ)

اہل بیت علیہم السلام نے صرف فضیلت ہی بیان نہیں کی بلکہ راہ خدا میں جام شہادت نوش کرکے تمام حق پسندوں کو عملی راستہ بھی دکھا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام حق پسند و حق پرست افراد احقاق حق و ابطال باطل کے لیے، حق کی حفاظت اور باطل سے مقابلے میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں آجاتے ہیں اور امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے اس قول کی عملی تفسیر بن جاتے ہیں کہ ’’ لا أبالي سقطت على الموت أو سقط الموت علي‘‘دفاع حق و خوشنودیٔ خدا کے لیے ’’مجھے موت کی کوئی پرواہ نہیں کہ میں موت پر جا پڑوں یا موت مجھ پر آپڑے‘‘۔ یہ لوگ موت سے ڈرتے نہیں بلکہ موت ان سے ڈرتی ہے۔ ان افراد کی زندگی موت کی تمنا میں گزرتی ہے۔ راہ خدا میں موت کو گلے لگانے کے لیے ہر وقت آمادہ و تیار رہتے ہیں۔

مرد مجاہد، سردار اسلام جنرل شہید قاسم سلیمانی اور مجاہد اسلام شہید ابو مہدی المہندس انھیں مردان خدا میں تھے جنھوں نے دفاع حق اور باطل سے مقابلہ کے لیے موت سے بے خوف ہوکر علی الاعلان دنیا کے بڑے بڑے دہشت گردوں، دشمنان انسانیت اورامریکہ و اسرائیل جیسی ہر ظالم و استعماری طاقت کے سامنے جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں سیسہ پلائی دیوار بن کر اورہر باطل منصوبے کو خاک میں ملاکر یہ ثابت کردیا کہ جس کے دل میں انسانیت کا درد ہوتا ہے ، جو ظلم و بربریت اور ناانصافی سے نفرت کرتا اور راہ حق میں شوق شہادت رکھتا ہے وہ کسی طاقت سے نہیں ڈرتا بلکہ اپنے کو سپر پاور کہنے والی طاقتیں اس کے آگے گھٹنے ٹیکتی ہیں۔

۱۹۵۷ء میں کرمان(ایران) میں دنیا میں قدم رکھنے والےجنرل قاسم سلیمانی ان لوگوںمیں تھے جنھوں نے پوری زندگی خدمت خلق میں گزاری، اور اپنے ایمانی جذبہ اور کربلائی درس کو سامنے رکھ کر امریکہ و اسرائیل جیسی ظالم طاقتوں کے انسان مخالف منصوبوں پر پانی پھیرتے رہے۔ اپنی تدبیروں، صلاحیتوں اور ایمانی جذبے کی وجہ سے جنرل قاسم سلیمانی نے اپنی چالیس سالہ مجاہدانہ زندگی میں میدان جہاد میں عملی طور پر ہر استعماری طاقت کا مقابلہ کیا، ایران عراق کی آٹھ سالہ جنگ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے بعد افغانستان، لبنان، شام اور عراق وغیرہ میں دہشت گردوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ چاہے وہ اسرائیل کے خلاف ۳۳ روزہ جنگ میں حزب اللہ کی کامیابی ہو یا شام و عراق میں امریکہ و اسرائیل اور آل سعود کے پروردہ داعشی دہشت گرد وں کو شکست دینا ہو ، قاسم سلیمانی نے ان محاذوں پر باطل کو شکست فاش دیکر استعمار کو نہ صرف ذلیل و رسوا کیا بلکہ ان کے بہت سے ظالمانہ منصوبوں پر بھی پانی پھر دیا۔

اسی طرح ۱۹۵۴ء میں بصرہ (عراق) میں آنکھ کھولنے والے جمال جعفر ابراہیم جو ابومہدی المہندس کے نام سے مشہور ہوئے انھوں نے بھی اپنی پوری زندگی قوم و ملت کے لئے اور ظالم و باطل سے مقابلے میں وقف کردی۔ صدام سے لیکر ٹرمپ و نتن یاہو تک ہر ظالم و جابر سے برسرپیکار رہے ۔ ایران، کویت اور عراق میں پوری عمر راہ خدا میں جہاد میں گزاردی۔ صدام کے بعد عراق میں ملک و قوم کی حفاظت و ترقی اور دہشت گردوں سے مقابلے کے لیے میدان عمل میں قدم رکھا۔ 

شہید سلیمانی نے لبنان میں حزب اللہ کی عسکری قوت و تربیت، جنوبی لبنان سے اسرائیل کی پسپائی، بالخصوص اسرائیل سے ۳۳ روزہ جنگ، جنگ افغانستان، صدام کے بعد عراق میں سیاسی اور سفارتی فضا کی تشکیل نو، شام کی خانہ جنگی اور عراق و شام میں امریکہ و اسرائیل کے پروردہ داعش سے مقابلے میں اہم کردار ادا کیا۔ داعش سے مقابلے سے پہلے وہ منظر عام پر آنے سے گریز کرتے تھے؛ لیکن ان کی عراق میں موجودگی اور داعش سے نبرد آزمائی کے دوران حکومت ایران نے متعدد بار ان کی عسکری کامیابیوں کی تصاویر کو شائع کیا جس سے ان کی شناخت لوگوں کو ہوئی اور لوگ نہ صرف یہ کہ ان سے متعارف ہوئے بلکہ انہیں چہرے سے پہچاننے لگے۔ یہیں سے ان کی ہردلعزیزی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ میڈیا میں وہ عموماً (Shadow commander) کے لقب سے مشہور تھے۔ شہید سلیمانی واشنگٹن کی نظر میں ایسی شخصیت تھے جن سے امریکی افواج بھی خوف زدہ رہتے تھے۔ جبکہ ایران میں ان کی مقبولیت کی وجہ ان کا مجاہدانہ کردار، خدمت خلق، ایران کے خلاف امریکی پابندیوں اور دباؤ کے امریکا مخالف اقدامات تھے۔

آپ نے اپنی تدبیر اور دور اندیشی پر مشتمل فیصلوں کے سبب، ایران اور اس کے باہر بہت سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی ، صدام کی فوج کے قبضہ سے ایرانی زمینوں کو آزاد کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔اس وقت خود کرمان صوبہ کو آپ کی اشد ضرورت تھی چونکہ یہ صوبہ افغانستان سے ملتا ہے کہ جہاں بہت عرصہ سے منشیات کی کھیتی ہوتی ہے جس کے ایران میں آنے کے خطرات بہت زیادہ تھے اور پھر اسی علاقہ سے منشیات کا یہ سامان بڑے بڑے دلالوں کے ہاتھوں سے گذرتا ہوا ترکی اور یورپ اسمگلنگ کیا جاتا تھا لیکن آپ نے اس غیر قانونی اسمگلنگ کو پوری طرح روکنے کے کامیاب اقدامات کئے اور اس کام کے بعد لوگوں کی نگاہوں میں آپ کی عزت مزید بڑھ گئی۔

آپ کی شجاعت و بہادری اور دہشتگردوں کے مقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ کر کھڑے رہنا اور دشمن کے بیچ جا کر ان کے منصوبوں کا ناکام کرنے کا ہنر اور راہ خدا میں شوق شہادت کو دیکھ کر رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای نے آپ کو ’’ زندہ شہید ‘‘ کے اعزاز سے نوازا تھا ۔اسی طرح عراق میں جنرل سلیمانی کے شانہ بشانہ جہاد میں شریک رہنے والے مجاہد شہید ابو مہدی مہندس سے ایک ملاقات فرمایا تھا کہ میں ہر شب تمہارا نام لیکر دعا کرتا ہوں۔ 

جنرل قاسم سلیمانی کو انکی بے پناہ صلاحیتوں اور دشمن کے مقابلے کامیابیوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کے سب سے تجربہ کار جنرل کے طور پر پہچانا جاتا تھا اور ایسا ہوتا بھی کیوں نہ، کیونکہ آپ کی بصیرت ، شجاعت ، بے باکی ، حق و انصاف کے لئے آواز اٹھانے کے ارادے اور مظلومان عالم کی مدد کرنے کے جذبہ نے داعش جیسی خونخوار دہشتگرد تنظیم کو اس خطہ سے نکال باہر کیا ۔ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ داعش(ISI) پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ کرنے کے منصوبہ سے امریکہ، اسرائیل اور آل سعود کے ذریعہ بنائی گئی تھی اور جس کی حمایت مذکورہ ممالک کے علاوہ تمام سامراجی ممالک کھلے عام کررہے تھے۔ جنرل قاسم سلیمانی نے اپنی جان پر کھیل کر شام و عراق سے اس دہشت گرد گروہ کا خاتمہ کرکے نہ صرف اس علاقے بلکہ تمام انسانوں اور تمام ممالک کو اس خونخوار دہشت گروہ سے نجات دلائی۔ اس راہ میں شہید انجینئر ابومہدی کی جانفشانیاں بھی ناقابل فراموش ہیں۔ 

یہ بات تو پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ داعش اور اس سے پہلے اس طرح کی تمام دہشت گرد تنظیموں کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کا ہاتھ رہا ہے ، ان تنظیموں کے پاس سے امریکہ کے بنے ہتھیاروں کا برآمد ہونا بتاتا ہے کہ پوری دنیا میں دہشت کا ماحول اور لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کےپیچھے انہیں سامراجی طاقتوں کا ہاتھ ہے اور یہی وجہ ہے جب امریکہ نے خود کو اپنے ہی سازشی جال میں پھنستا ہوا پایا تو اس نے میجر جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس جیسے مجاہدان راہ حق پر ہی دہشتگردی کا الزام لگادیا اور ان پر بہت ساری ناجائز پابندیاں عائد کردیں ۔

ان تمام امریکی بے بنیاد الزامات کے باوجود دونوں نے انسانیت کی خدمت اور دنیا کے سامنے دہشتگردوں کا اصلی چہرہ جو امریکہ، اسرائیل اور سامراجی طاقتیں ہیں، انہیں بے نقاب کرنے کو اپنی سب سے اہم ذمہ داری سمجھا اور اسی راستہ پر چلتے رہے۔

شہید قاسم سلیمانی کی اسی لگن اور انسانیت کی خدمت اور اسلام و ولایت کی اطاعت اور نائب امام و رہبر معظم کی پیروی کو دیکھتے ہوئے آپ کو ’’عصر حاضر کا مالک اشتر‘‘ کہا جاتا تھا جس طرح مالک اشترؓ نے خود کو انسانیت کے لئے وقف کردیا تھا جس طرح مالک نے اپنی پوری زندگی حق کے دفاع، انسانیت کی خدمت اور دین کے دشمنوں کے ساتھ جنگ میں گذار دی تھی اسی طرح ان کی سیرت کا اتباع کرنے والے اس مجاہد نے اپنی زندگی کا نصب العین پرچم اسلام کی سربلندی اور انسانیت کی خدمت کو قرار دیا تھا۔شہید قاسم سلیمانی کی انسانی ہمدردی اور خدمت خلق کے گواہ ایران کے علاوہ عراق و شام اور افغانستان وغیرہ بھی ہیں جہاں وہ عوامی خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے اور ہر ضرورت کے وقت عوام کی خدمت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ، صرف یہی نہیں بلکہ راہ حق اور حضرت زینبؑ کے روضے اور دیگر روضہ ہائے مقدسہ کی حفاظت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کے یتیم بچوں کے ساتھ بھی قاسم سلیمانی کا رویہ رحم دل باپ کی طرح تھا۔ ہر یتیم بچہ کو اپنی اولاد سے بڑھ کر پیار دیتے اور ایک جنرل ہوکر بھی انتہائی رحم دلی کا مظاہرہ کرتے اور یہ بچے بھی انکو باپ کی طرح سمجھتے تھے جس کے سیکڑوں واقعات زبان زد خاص و عام ہیں۔

شہید سلیمانی کی شجاعت و بہادری اور دشمن کی نگاہ میں رعب و دبدبہ کا عالم یہ تھا کہ بقول مسعود بارزانی جب اربیل (عراق) میں داعشی داخل ہوئے اور شہر ہاتھ سے جانے لگا اس وقت جب تمام ممالک نے مدد طلب کرنے کے باوجود انکار کردیا تو میں نے ایران سے رابطہ کیا ان سے مدد مانگنے پر جنرل سلیمانی اس شہر میں آئے انکے آتے ہی نقشہ بدل گیا۔ داعش پسپا ہوئے۔ جب داعش کے ایک گرفتار شدہ کمانڈر سے پوچھا گیا کہ تم لوگ تو کامیاب ہورہے تھے کیا ہوا کہ اچانک شکست سے دوچار ہوگئے؟ اس نے جواب دیا کہ جب ہم کو معلوم ہوا کہ جنرل سلیمانی یہاں آگئے ہیں تو ہمارے حوصلے پست ہوگئے ہم ان کے خوف کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے۔

ان کی روحانیت و معنویت کی طرف توجہ کا ایک نمونہ اپنے بیٹے کے نام نصیحتیں ہیں۔ جو آج کے ہر نوجوان کے لیے بھی مشعل راہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں

’’مہدی جان! (۱): جتنے لوگ کمال کے درجے تک پہنچے ہیں بالخصوص معنوی کمالات جو خود دنیوی کمالات کی بنیاد اور سبب بھی ہوتا، ان تمام کامیابیوں اور کمالات کا سبب وقت ’’سحر‘‘ ہے۔ وقت سحر کو حاصل کرو۔ تمہاری عمر میں نماز شب کے عجیب و غریب اثرات ہیں۔ اگر چند دفعہ اس کا رغبت کے ساتھ تجربہ کرو تو اس کی لذت سبب بنے گی کہ اس سے تمسک کروگے۔(۲): تمام برائیوں و خرابیوں کی جڑ جھوٹ ہے۔ (۳): بڑوں بزرگوں بالخصوص ماں باپ کے احترام کی عادت ڈالو۔ بغیر شرم محسوس کیے ماں باپ کے ہاتھ چومو۔ یہ کام انکی خوشی کا سبب بھی ہوگا نیز اس کے وضعی اثرات تم پر مرتب ہونگے‘ ‘۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر میجرجنرل قاسم سلیمانی اور انجینئر ابو مہدی جیسے جیالے نہ ہوتے تو آج ہمارے سامنے کئی جنت البقیع ہوتیں ، اس لئے کہ کربلا و نجف میں روضوں سے داعش کی دوری صرف کچھ ہی کیلومٹر رہ گئی تھی۔جبکہ شام و سامرہ میں روضوں کو گھیر لیا تھا۔ یہ رہبر معظم انقلاب اور آیۃاللہ سیستانی کی دور اندیشی، سیاسی بصیرت و راہنمائی اور قاسم سلیمانی اور ابو مہدی جیسے مجاہد تھے جنھوں نے جان کی پرواہ کئے بغیر ان روضوں کو ناپاک ہاتھوں سے محفوط رکھا۔اس لئے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ میجر جنرل قاسم سلیمانی اور انجینئر ابو مہدی جیسوں کے بارے میں خود بھی معلومات حاصل کریں اور اپنے بچوں کو بھی بتائیں تاکہ ہمارے اندر بھی انسانیت کی خدمت ، دین کی مدد اور ظلم و دہشتگردی کے خلاف شجاعت کے ساتھ کھڑے رہنے کا حوصلہ و جذبہ پیدا ہوسکے۔

ساتھ ہی یہ پہلو بھی مد نظر رہے کہ داعش کے خلاف عظیم کامیابی کے بعد جب شہید سلیمانی کی عظمت و منزلت دنیا کے سامنے ظاہر ہوئی تو ایک شخص نے ان کے والد حسن سلیمانی سے سوال کیا کہ آپ نے اپنے بیٹے کی کس طرح تربیت کی کہ آج یہ کارنامے انجام دے رہا ہے؟ انھوں نے جواب دیاکہ میں نے ابتدا ہی سے کوشش کی کہ بچوں کے شکم میں حرام غذا نہ جانے پائے۔ بقول ان کے یہ حلال غذا کا اثر بھی ہے جو آج سلیمانی یہاں تک پہنچے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ شہید سلیمانی وہ مرد مومن تھے کہ شام کو داعش کے چنگل سے آزاد کرانے کے بعد انھوں نے بعض اہل سنت کو خطوط لکھے کہ تم جب اپنے گھروں کو چھوڑ کر جاچکے تھے میں نے کارروائی کے دوران تمہارے گھروں میں بغیر تمہاری اجازت کے قیام کیا اور نمازیں پڑھی ہیں لہذا مجھے حلال کردو۔ کیا اس طرح کی نظیر اہل بیتؑ کے بعد انکے حقیقی چاہنے والوں کے علاوہ کہیں اور مل سکتی ہے؟۔

ایسے مردان خدا اور مجاہدان فی سبیل اللہ ، دنیا کے خونخوار دہشت گردوں کو انکی حیثیت پہچنواکر، ٹرمپ کے حکم سے امریکی فوجوں کے ہاتھوں شب جمعہ ۳ جنوری ۲۰۲۰ء کو بغداد ایرپورٹ سے نکلتے ہی اپنے ساتھیوں  حسین جعفری نیا، شھرود مظفری، ھادی طارمی ،وحید زمانیان، سامر عبداللہ، محمد رضا الجابری، حسن عبدالہادی اور محمد شیبانی کے ہمراہ بزدلانہ حملے میں شہید کردئے گئے۔شنبہ ۴؍ جنوری کی صبح عراق میں امام موسی کاظم و امام محمد تقی علیہما السلام کی روضے کاظمین سے تاریخی تشییع جنازہ کا ٓغاز ہوا۔ بغداد، کربلا اور نجف میں لاکھوں افراد کی موجودگی میں تشییع جنازہ ہوئی۔۵؍جنوری کو شہیدقاسم سلیمانی ، دیگر ایرانی شہدا اور شہید ابومہدی المہندس کے جنازے ایران پہنچے اسی دن اہواز خوزستان اور مشہد مقدس اور ۶ جنوری کو تہران، قم مقدسہ و جمکران میں دسیوں لاکھ افراد نے تشییع جنازہ میں شرکت کی۔ تہران میں ایک رپورٹ کے مطابق تقریبا ستر سے اسی لاکھ افراد نے رہبر معظم آیۃاللہ خامنہ ای کی اقتدا میں نماز جنازہ پڑھی۔ ۷ جنوری کو شہید ابو مہدی کا جنازہ ایران کے دیگر شہروں میں تشییع ہوتا ہوا عراق کے لیے روانہ ہوگیا جہاں ۸ جنوری کو نجف اشرف میں جوار امیرالمومنینؑ وادی السلام میں سپرد خاک ہوئے۔ اور شہید قاسم سلیمانی کی میت مرقد امامؒ و شاہ عبدالعظیمؑ ہوتے ہوئے آبائی وطن کرمان کے لیے روانہ ہوئی جہاں دسیوں لاکھ افراد نے جنازہ میں شرکت کی ۔ مجمع کی کثرت کی وجہ سے تقریبا ۵۶ افراد جاں بحق بھی ہوگئے۔ ۸؍ جنوری کو علی الصبح کرمان کے گلزار شہداء میں آسودۂ لحد ہوئے۔

عاشا سعیدا و ماتا سعیدا۔


2
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین