حیات فاطمہ(س) ہی حیات طیبہ (۲)

حضرت فاطمہ زہرا(س) قرآن مجید کو اتنی اہمیت دیتی تھیں کہ آپ نے علی(ع) کو وصیت کی تھی کہ آپ ان کی قبر پر پہلی رات قرآن مجید کی تلاوت کریں چنانچہ حسب وصیت حضرت امیر علیہ السلام نے آپ کی قبر پر تلاوت فرمائی۔آپ کے گھر کا پورا ماحول ہی قرآنی تھا اس طرح کہ صرف آپ ہی نہیں بلکہ آپ کی خادمہ فضہ نے ۲۰ برس تک قرآن مجید کے بغیر بات بھی نہیں کی۔

ولایت پورٹل: قارئین کرام! ہم نے گذشتہ مقالہ میں یہ گذارش کرنے کی کوشش کی تھی کہ بی بی دوعالم حضرت صدیقہ طاہرہ(س) کی زندگی کا ہر پہلو اتباع کے لائق ہےلہذا ہم آج اس قسط میں کچھ دیگر چیزوں کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔قارئین اس مقابلہ کو شروع سے پڑھنے کے لئے اس لنک کو کلک کیجئے!
حیات فاطمہ(س) ہی حیات طیبہ (۱)
گذشتہ سے پیوستہ:

 قرآن مجید سے فاطمہ(س) کی انسیت
6.حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی اس آسمانی کتاب سے انسیت اس درجہ تھی کہ اگر ہم قرآن مجید سے متعلق شہزادی کے اقوال کا مطالعہ کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ سیرت سیدہ(س) کی اتباع کرنے والوں کو کس درجہ قرآن مجید سے انس رکھنا چاہیئے چنانچہ ایک حدیث میں آپ فرماتی ہیں:’’حُبِّبَ اِلیَّ مِنْ دنیاکُمْ ثلاث، تِلاوَتُ کتاب اللّهِ، والنَّظَرُ فی وجه رسول اللّهِ وَالإِنفاقُ فی سبیل اللّه‘‘۔ (۱)مجھے تمہاری اس دنیا سے تین چیزیں، سب سے زیادہ پسند ہیں:
۱۔ قرآن مجید کی تلاوت
۲۔رسول اللہ(ص) کے چہرے کی زیارت
۳۔راہ خدا میں انفاق۔
حضرت فاطمہ(س) قرآن سے اس درجہ مأنوس تھیں کہ آپ کے چھوٹے سے گھر سے ہمیشہ قرآن مجید کی تلاوت کی آواز آتی رہتی تھی۔اور اصحاب پیغمبر اکرم(ص) کی زبانی نقل ہونے والی حکایات اس کی سب سے بڑی دلیلیں ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا(س) قرآن مجید کو اتنی اہمیت دیتی تھیں کہ آپ نے علی(ع) کو وصیت کی تھی کہ آپ ان کی قبر پر پہلی رات قرآن مجید کی تلاوت کریں چنانچہ حسب وصیت حضرت امیر علیہ السلام نے آپ کی قبر پر تلاوت فرمائی۔آپ کے گھر کا پورا ماحول ہی قرآنی تھا اس طرح کہ صرف آپ ہی نہیں بلکہ آپ کی خادمہ فضہ نے ۲۰ برس تک قرآن مجید کے بغیر بات بھی نہیں کی۔
۷۔ دوسروں کے لئے دعا کرنا
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے اللہ کے ساتھ مناجات کرنے اور اس کے حضور دعا کرنے کے سلیقہ کو آنی والی نسلوں کو سکھایا ہے اور آپ اپنے حق میں دعا کرنے سے پہلے دوسروں کےلئے دعا فرمایا کرتی تھیں چنانچہ امام حسن علیہ السلام سے منقول ہے:
میں نے اپنی والدہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو دیکھا کہ شب جمعہ میں مسلسل رکوع و سجود بجا لارہی تھیں یہاں تک کہ صبح طلوع ہوگئی اور میں نے سنا کہ آپ مؤمنین کا نام لیکر دعا کررہی ہیں اور میں نے یہ نہیں دیکھا کہ آپ نے اپنے لئے دعا کی ہو مجھے بڑا تعجب ہوا میں نے سوال کیا: مادر گرامی! کیوں آپ نے اپنے لئے دعا نہیں کی! اور اپنے لئے خدا سے کچھ طلب نہیں کیا؟ آپ نے جواد دیا:’’یا بُنیَّ! اَلْجار ثُمّ الدّار‘‘۔(۲)میرے بیٹے! پہلے پڑوسی پھر اپنے گھر والے۔
۸۔رسول اللہ(ص) کا احترام
جس وقت یہ آئیہ کریمہ نازل ہوئی:’’لا تَجْعَلُوا دُعاءَ الرَّسُولِ بَیْنَکُمْ کَدُعاءِ بَعْضِکُمْ بَعْضاً‘‘۔(۳)۔شہزادی نے اپنے والد کو (رسول اللہ) کہہ کر خطاب کیا ۔ چنانچہ امام حسین(ع) اپنی والدہ ماجدہ سے نقل کرتے ہیں: جس دن سے یہ آیت نازل ہوئی آنحضرت(ص) کی ہیبت مانع ہوئی اور بی بی نے آپ کو (بابا ) کہکر خطاب نہیں کیا۔ لہذا جب پیغمبر اکرم(ص) نے یہ دیکھا تو فرمایا:میری بیٹی! یہ آیت تمہارے اور تمہارے بچوں کے بارے میں نازل نہیں ہوئی ہے چونکہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہو! تم مجھے بابا کہہ کر ہی پکارو۔ بیٹی یہ آیت ان لوگوں کے لئے نازل ہوئی ہے جو میرے احترام کا خیال نہیں کرتے۔ تیری زبان سے بابا سن کر میرے دل کو سکون پہونچتا ہے اور یہ پروردگار عالم کی رضا سے زیادہ قریب تر ہے۔ پھر اس کے بعد رسول اللہ(ص) نے میری پیشانی کا بوسہ لیا اور اپنے لعاب دہن کو میرے چہرے پر لگایا کہ اس کے بعد سے مجھے کسی طرح کی خوشبو و عطر کی حاجت نہ رہی۔(۴)
ادب ہر انسان کی شخصیت کی عظمت کا عکاس اور بشریت کا عظیم سرمایہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ علی(ع) کا فرمان ہے:’’ لامیراث کَالأَدَب‘‘ ادب جیسی کوئی میراث اور سرمایہ نہیں ہے۔
لہذا ان دونوں باپ بیٹی کے درمیان کی رعایت اس درجہ تھی کہ جب رسول اللہ(ص) فاطمہ(س) کے یہاں آتے وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوجاتی اور بابا کا بوسہ لیتی اور اپنی جگہ بٹھاتی تھیں اور جب فاطمہ(س) باب کے پاس جاتیں تو سرکار احترام فاطمہ کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے۔ چونکہ فاطمہ(س) ہی کوثر پیغمبر تھیں۔
۹۔ سلام کرنے میں سبقت کرنا
حضرت فاطمہ(س) اپنے بابا رسول اللہ(ص) کی تأسی میں سلام کرنے میں سبقت کرنے کو بہت اہمیت دیتی تھیں۔ چنانچہ ایک روای کہتا ہے کہ میں فاطمہ(س) کے پاس آیا جیسے ہی بی بی نے مجھے دیکھا مجھے سلام کیا اور اس نیک کام میں مجھ پر سبقت لے گئیں اور اس کے بعد فرمایا: تم کس کام کے لئے یہاں آئے ہو؟میں نے عرض کیا: شہزادی میں تو خیر و برکت کے حصول کے واسطہ آپ کی خدمت میں مشرف ہوا! بی بی(س) نے فرمایا: میرے بابا نے مجھے بتلایا ہے کہ جو شخص تین دن آکر مجھے یا میرے بابا کو سلام کرے اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو واجب کردیتا ہے۔(۵)
۱۰۔ سختیاں برداشت کرنا
جب مدینہ میں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیا مسلمان سخت پریشانی میں تھے۔ بہت سے مہاجرین و انصار تنگدستی میں اپنے گذر اوقات کررہے تھے اور اس وقت علی(ع) بھی دوسروں کی طرح سختیوں میں تھے چونکہ آپ دوسروں کی ضرورتوں کو اپنی ضروریات پر ترجیح دیا کرتے تھے لہذا کئی برس اسی طرح گذرے اور علی و فاطمہ(س) کے گھر میں بستر کے لئے صرف ایک گوسفند کی کھال کے کچھ اور نہیں تھی۔شہزادی نے صبر کیا اور اللہ کی رضا اور اپنے بابا و شوہر کی خوشی کی خاطر ان سب سختیوں کو برداشت کیا۔ رسول اللہ(ص) اپنی بیٹی اور داماد کی سختیوں سے بھری زندگی کے باوجود آپ کو صبر کی نصیحت و وصیت فرمایا کرتے تھے۔
انس نقل کرتے ہیں:ایک دن فاطمہ(س) اپنے بابا کی خدمت میں آئیں اور عرض کیا:یا رسول اللہ(ص)!ہمارے گھر میں بستر کے طور پر بچھانے کے لئے ایک بھیڑ کی کھال کے کچھ نہیں ہے ہم جسے رات میں بچھاتے ہیں اور دن میں اونٹ اس پر چارہ کھاتا ہے پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:میری بیٹی! صبر کرو! چونکہ موسیٰ بن عمران نے بھی دس برس اسی طرح بسر کئے اور ان کے پاس ایک عطوانی عبا کے کچھ اور کپڑا نہیں تھا۔(۶)
حضرت فاطمہ(س) سختیوں میں فرمایا کرتی تھیں: یا رسول اللہ(ص) ! میں اللہ کی نعمتوں کے مقابل اس کی حمد و ثنا کرتی ہوں اور اس کی ظاہری نعمتوں کے مقابل شکر بجا لاتی ہوں۔(۷)
بی بی کی زندگی بڑی سادہ تھی اور آپ زندگی کی مشکلات کے مقابل صبر اور برداشت سے کبھی نہیں کتراتی تھیں تاکہ آخرت میں اس کا پھل مل سکے۔بی بی کا مہریہ بہت مختصر سا تھا اور آپ گھر کی دیکھ بھال شوہر کی خدمت اور بچوں کی تربیت کا خاص خیال رکھتی تھیں۔اور آپ حقیقی طور میں اپنے شوہر کی شریک حیات تھیں ۔چونکہ جب گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا تو بی بی کبھی علی سے شکایت نہیں کرتی تھیں ۔ چونکہ آپ کو حیا محسوس ہوتی تھی کہ اگر علی سے کسی چیز کا مطالبہ کریں اور علی(ع) پور انہ کرپائیں اور انہیں شرمندگی ہو۔اور جب علی(ع) بی بی سے کہتے کہ آپ نے ہم سے کیوں نہ بتلایا تو فرماتی تھیں:علی! مجھے اپنے خدا سے شرم آتی ہے کہ آپ کو کسی ایسی چیز کے لئے کہوں جسے آپ مہیا نہ کرسکیں!
ہاں، قارئین! حضرت فاطمہ زہرا(س) ہر پہلو سے نمونہ ہیں چونکہ آپ گھر میں ہمیشہ اپنے شوہر اور بچوں کی ہمدم اور غمخوار تھیں۔یہی تو وجہ تھی علی فرماتے تھے: جب میں گھر آتا ہوں اور زہرا کے چہرہ انور کو دیکھتا ہوں تو میرے سارے غم دور ہوجاتے ہیں۔اور میں نے کبھی ایسا کام نہیں کیا جس سے فاطمہ مجھ پر برہم ہوجائیں اور اسی طرح انہوں نے کبھی کوئی ایسا کام نہ کیا جو میری ناراضگی کا سبب ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔اخلاق حضرت فاطمه(س)، ص 17.
۲علل الشرایع، ص 215.
۳۔نور، / 63.
۴۔بحارالانوار، ج 43، ص 93.
۵۔اخلاق حضرت فاطمه(س)، ص 63.
۶۔احقاق الحق، ج 10، ص 400.
۷۔سفینة البحار، ج 1، ص 571.


1
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین