ولایت پورٹل: قارئین کرام! کبھی کبھی جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شأن و منزلت اس طرح انسان کے قلب و عقل پر حاوی ہوجاتی ہے کہ اس میں بات کرنے کی سکت باقی نہیں رہتی چونکہ بی بی کا مرتبہ اتنا بلند ہے کہ ہر صاحب نظر کی آنکھیں دیکھ کر خیرہ ہوجاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اگر آیات قرآنی اور احادیث نبوی ہمارے سامنے نہ ہوں تو اس بی بی کی معرفت تک ہماری رسائی ممکن ہی نہ ہو۔
شہزادی کونین(س) کی شأن میں بہت سی قرآن مجید کی آیات نازل ہوئی ہیں نیز اسی طرح بہت سی روایات اس دریائے متلاطم کے ساحل بیکراں تک پہونچنے کے لئے کشتی معرفت بن سکتی ہیں۔
ان دو منابع کے علاوہ تیسرا اہم معرفتی منبع و مدرک خود بی بی سلام اللہ علیہا کی سیرت اور کردار کا بغور مطالعہ کرنا ہے درحقیقت بی بی کی سبق آموز حیات کے مختلف گوشے ایسا آئینہ ہے کہ جس کا نور ہمارے قلب کو نورانی بنا سکتا ہے۔
۱۔ فاطمہ(س) کے گھر کی معنویت
حضرت فاطمہ(س) کی مکمل زندگی نور اور معنویت کا مرقعہ تھی ۔آپ اپنے اس گھر میں تمام تر مشکلات کے باوجود حقیقی عرفان تک پہونچیں اور اس مرتبہ پر فائز ہوئیں کہ جبرئیل امین آپ پر نازل ہوتے تھے۔ آپ کے یہاں ملائکہ کی آمد و رفت تھی۔ جناب صدیقہ طاہرہ عبادت و بندگی پروردگار کی عاشق تھیں۔ آپ اپنے رب کی اطاعت اور تسلیم کے اس مرتبہ پر فائز تھیں کہ عبادت کے واسطہ اپنی جسمانی کمزوری و بیماری کو بھی بھول جایا کرتی تھیں۔ چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام آپ کے شوق عبادت کے سلسلہ میں ارشاد فرماتے ہیں :’’کانت تَقُومُ حَتّی تَورَّمَ قدماها‘‘۔ آپ عبادت کے لئے اتنی کثرت سے کھڑی رہتی تھیں کہ آپ کے پاہائے مبارک پر ورم آجایا کرتی تھی۔
ایک دن رسول اللہ(ص) نے آپ سے فرمایا: بیٹی! اللہ سے کوئی چیز طلب کرو کہ جبرئیل اللہ تعالیٰ کی جانب سے قبولیت و اجابت کی ضمانت لے کر آئے ہیں۔شہزادی(س) نے عرض کیا: توفیق بندگی کے علاوہ کسی اور چیز کی حاجت نہیں ہے میری تمنا یہ ہے کہ میں جمال الہی کی نظارہ گر رہوں اور ہمشیہ اس کے وجہ کریم کی زیارت مجھے نصیب ہوتی رہے ۔چنانچہ خود ایک دعا میں بی بی فرماتی ہیں:’’أسالک لذّة النّظر الی وجهک‘‘۔پروردگار! میں تجھ سے سوال کرتی ہوں کے اپنے چہرے کے دیدار کی لذت عطا فرما۔
آپ(س) کے شوہر نامدار اور بچے سب کے سب اس معبود یکتا کے عاشق تھے۔ یعنی مکمل ایسا گھر جو نماز، عبادت اور قرآن کے نور سے منور تھا۔
حضرت علی(ع) اور حضرت فاطمہ زہرا (س) دونوں کے دونوں ہی خلوص دل سے اللہ کی عبادت و بندگی بجا لاتے تھے ۔اور صرف ایسا نہیں تھا کہ حضرت علی(ع) ہی نماز و بندگی میں غرق رہتے ہوں بلکہ شہزادی کونین(س) بھی اس طرح محرب عبادت میں محو بندگی رہتی کہ خوف خدا سے آپ کی سانسیں پھولنے لگتی تھی۔
آج ہمارے معاشرے کے ہر مرد اور عورت کو چاہیئے کہ اس ملکوتی جوڑے کا اتباع کریں تاکہ قرآن مجید کی بتائی ہوئی حیات طیبہ کا تصور عملی ہوسکے۔
علامہ مجلسی(قدس) علی و فاطمہ(س) کے اس نورانی و ملکوتی گھر کے متعلق انس بن مالک و بریرہ سے نقل کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ(ص) پر یہ آیت:’’فی بیوتٍ اَذِنَ اللّهُ اَن تُرْفَعَ و یُذْکَرَ فیها اسمُهُ یُسَبِّحُ لَهُ فیها بالْغُدُوِّ والآصالِ‘‘۔(۱) ان گھروں کے لئے خدا کا حکم ہے کہ انھیں بلند رکھا جائے اور ان میں اس کے نام کا ذکر کیا جائے کہ ان گھروں میں صبح و شام اس کی تسبیح کرنے والے لوگ رہتے ہیں۔
ایک شخص اٹھا اور عرض کی: یا رسول اللہ(ص) یہ( اس مرتبہ والے) کون سے گھر ہیں؟
آنحضرت(ص) نے فرمایا: تمام انبیاء کے گھر! پھر ابوبکر کھڑے ہوئے اور سوال کیا : کیا یہ گھر( علی و فاطمہ(س) کے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) بھی انھیں گھروں میں سے ہے؟ حضرت(ص) نے فرمایا: ہاں! بلکہ ان سب میں بہتر و برتر ہے۔
ابن عباس کہتے ہیں: میں مسجد النبی(ص) میں تھا مجمع میں موجود ایک قاری نے قرآن مجید کی مذکورہ آیت تلاوت کی، میں نے دریافت کیا: یا رسول اللہ(ص) یہ کون سے گھر ہیں جن کے متعلق اللہ کا اس آیت میں فرمان ہے؟
آنحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا: یہ انبیاء کے گھر ہیں اور پھر اس کے بعد اپنے ہاتھ سے حضرت فاطمہ زہرا(س) کے گھر کی طرف اشارہ کیا۔(۲)
۲۔حضرت فاطمہ(س) کا ایمان
ہمارے پانچویں امام حضرت محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے: ایک دن رسول اللہ(ص) نے سلمان کو کوئی پیغام لیکر حضرت فاطمہ(س) کے گھر بھیجا چنانچہ سلمان کہتے ہیں: میں نے دروازے پر رکا اور سلام کیا حضرت فاطمہ(س) گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کررہی تھیں اور گھر کے آنگن میں چرخہ خود بخود چل رہا تھا مجھے بڑا تعجب ہوا میں نے سرکار(ص) سے آکر سارا ماجرا بیان کردیا۔ آپ کے لبوں پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی اور فرمایا:’’یا سلمانُ اِنَّ ابنَتی فاطمةَ مَلاءَ اللّهُ قَلْبَها و جَوارِحَها الی مشاشِها...‘‘۔(۳) اے سلمان! اللہ تعالیٰ نے میری بیٹی فاطمہ(س) کے قلب اور اعضاء و جوارح کو سر تلک ایمان سے مملو کردیا ہے اور جب وہ عبادت و اطاعت پروردگار میں مشغول ہوتی ہے تو اللہ ’’ زوقابیل‘‘ نامی فرشتہ کو بھیجتا ہے تاکہ وہ اس کے گھر میں آکر چرخہ چلائے۔
۳۔ فاطمہ(س) اور محراب عبادت
رسول اللہ(ص) کا ارشاد ہے: میری بیٹی فاطمہ، اولین و آخرین کی عورتوں کی سردار ہیں جب وہ محراب عبادت میں کھڑی ہوتی ہے تو اللہ کے ستر ہزار مقرب فرشتہ اس پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور جو خدائی پیغام مریم کو سناتے تھے وہی فاطمہ کو بھی دیتے ہیں:’’اِنَّ اللّهَ اصطَفاکِ و طَهَّرَکِ واصْطفاکِ علی نِساءالعالمینَ‘‘۔(۴)
اپنے زمانے کے معروف زاہد حسن بصری کہتے ہیں:لم یَکُنْ فی الاُمّةِ اَزْهَدَ و لا اَعْبَدَ مِنْ فاطِمَةَ...‘‘۔(۵) اس امت میں فاطمہ(س) سے بڑا عابد زاہد کوئی نہیں گذرا۔ وہ اس قدر نماز پڑھتی تھیں کہ آپ کے پیروں پر ورم آجاتی تھی۔
۴۔ فاطمہ(س) اور آسمانی کھانا
حضرت فاطمہ(س) کو نماز سے بہت زیادہ شغف و عشق تھا اور جب بھی آپ کو کوئی حاجت ہوتی تھی آپ مصلیٰ بچھا کر نماز پڑھتی تھیں۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ علی و فاطمہ(س) کے گھر میں کھانے کا ایک لقمہ بھی نہیں تھا اور آپ نے تین دن بغیر کھانا کھائے گذار دیئے تھے۔ علی(ع) گھر میں داخل ہوئے۔رسول اللہ(ص) پہلے سے تشریف فرما تھے اور بی بی نماز پڑھنے میں مشغول تھیں اور ان دونوں کے درمیان ایک بڑا سا برتن ڈھکا ہوا رکھا تھا ۔جب بی بی(س) نماز سے فارغ ہوئیں آپ نے سرپوش کو ہٹایا تو وہ روٹی اور گوشت سے بھرا ہوا تھا۔ علی(ع) نے فرمایا: فاطمہ! یہ آپ کے لئے کہاں سے آیا ہے؟ بی بی(س) نے جواب دیا: یہ میرے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے رزق دیتا ہے۔ اس وقت رسول اللہ(ص) نے فرمایا: کیا میں تمہارے لئے اسی جیسی دوسری نظیر و مثال بیان کروں؟ ان دونوں حضرات نے کہا: ہاں! یا رسول اللہ(ص)!فرمایا: یا علی! تمہاری مثال زکریا کی ہے کہ جب وہ حضرت مریم کے پاس آتے تھے تو وہ مریم کو محراب عبادت میں اور ان کے پاس کھانا رکھا ہوا پاتے تھے۔ جناب زکریا فرماتے تھے: اے مریم! یہ کہاں سے آیا؟ وہ جواب میں کہتی تھیں: اللہ کی جانب سے۔ اللہ جسے چاہتا ہے رزق عطا کرتا ہے۔ اور پھر وہ ایک کھانے کو ایک مہینہ تک کھاتے تھے اور وہ ظرف( جس میں مریم کے لئے کھانا آتا تھا) وہی تھا جس میں ہمارا قائم(عج) کھانا کھائے گا۔(۶)
۵۔ حضرت فاطمہ(س) اور قیامت کا خوف
حضرت فاطمہ زہرا(س) روز قیامت کی سختی اور اس کی شدت سے حد درجہ خوف محسوس کرتی تھیں۔اور اپنے والد ماجد رسول اللہ(ص) سے قیامت کے حالات اور لوگوں کے دوبارہ زندہ ہونے کے متعلق سوال کیا کرتی تھیں۔چنانچہ علامہ مجلسی(قدس) نقل کرتے ہیں: جب یہ آیت:’’و اِنَّ جَهَنَّم لَمَوعِدُهُم اجمعین لها سبعةُ ابوابٍ لِکُلِّ بابٍ مِنهُمْ جُزءٌ مَقْسومٌ‘‘۔(۷) پیغمبر اکرم(ص) پر نازل ہوئی، آپ نے بڑا شدید گریہ کیا اور آپ کے اصحاب بھی آپ ہی کی طرح روئے لیکن کسی کو معلوم نہیں تھا کہ رسول اللہ(ص) کیوں رو رہے ہیں اور جبرئیل ایسا کون سا پیغام لیکر نازل ہوگئے جس کے سبب اللہ کا رسول(ص) اتنی شدت کے ساتھ رویا۔ اور دوسری طرف، بزم میں موجود افراد میں سے کسی کو یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ آگے بڑھ کر سرکار سے گریہ کرنے کی علت ہی دریافت کرلیتا۔بہرحال! اصحاب کو یہ معلوم تھا کہ جب حضرت(ص) کی نظریں فاطمہ(س) پر پڑتی ہیں آپ خوش ہوجاتے ہیں چنانچہ ان لوگوں نے ایک شخص کو فاطمہ(س) کے گھر بھیجا تاکہ آپ کو رسول اللہ(ص) کے حزن اور گریہ سے آگاہ کرسکے۔ یہ خبر سن کر بی بی مضطرب ہوگئیں اور مسجد کا قصد کرکے گھر سے چلیں اور جیسے ہی فاطمہ(س) رسول اللہ(ص) کے سامنے پہونچیں عرض کیا:’’ بابا جان! میں آپ پر قربان! کس چیز نے آپ کو رلادیا؟‘‘۔ فرمایا : اس چیز نے جو جبرئیل لیکر نازل ہوئے۔ چنانچہ سرکار(ص) نے اس آیت کی تلاوت فاطمہ(س) کے لئے بھی کی ۔ بی بی ترس و وحشت کے ساتھ، منھ کے بل زمین پر گرگئیں اور آپ کی زبان مبارک پر یہ فقرہ تھا:’’اَلوَیْلُ وِ ثُمَّ الوَیْلُ لِمَنْ دَخَلَ فِی النّار‘‘۔ وائے ہو وائے ہو اس پر جو جہنم میں داخل ہوگا!
حوالہ جات:
1. نور / 35.
2. فاطمه در کلام اهل سنّت، ص 343.
3. مناقب آل ابی طالب، ج 3، ص 338.
4. آل عمران / 42؛ اَمالی، صدوق، ص 437.
5. ربیع الابرار، ج 2، ص 104.
6. بحارالانوار، ج 42، ص 31.
7. حجر / 44.
حیات فاطمہ(س) ہی حیات طیبہ (۱)
بی بی فرماتی ہیں:’’أسالک لذّة النّظر الی وجهک‘‘۔پروردگار! میں تجھ سے سوال کرتی ہوں کے اپنے چہرے کے دیدار کی لذت عطا فرما۔آپ(س) کے شوہر نامدار اور بچے سب کے سب اس معبود یکتا کے عاشق تھے۔ یعنی مکمل ایسا گھر جو نماز، عبادت اور قرآن کے نور سے منور تھا۔

wilayat.com/p/2902
متعلقہ مواد
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین