ولایت پورٹل: قارئین کرام! رمضان المبارک ، یہ اللہ کا مقدس مہینہ اپنے آخری ایام میں داخل ہوچکا ہے لہذا اب وقت آن پہونچا ہے کہ ہم اس مہینہ کے جاتے جاتے اپنے گناہوں کی بخشش کرا لیں اللہ کے حضور سچے دل سے توبہ کرلیں اور استغفار کرکے اپنے کو جہنم کی آگ سے نجات دے سکتے ہیں۔
توبہ ہی ایک ایسا دروازہ ہے جو کبھی بند نہیں ہوتا چنانچہ اللہ کے رسول (ص) ارشاد فرماتے ہیں:’’بابُ التّوبَةِ مَفتُوحٌ‘‘۔(الشهاب فی الحِکم و الآداب،ص١٨)اے لوگوں کبھی توبہ کرنے سے اور اپنے معبود کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرنے اور استغفار کرنے سے مت تھکنا چونکہ توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔
جب انسان سچے دل سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنے ماضی پر شرمندگی کا اظہار کرتا ہے اپنے گذشتہ گناہوں کی معافی مانگتا ہے تو اللہ بھی رحمٰن و رحیم اور غفور ہے وہ اپنے گنہگار بندے کو بخش دیتا ہے اب یہ بندہ بالکل پاک صاف ایسا ہوجاتا ہے جیسے اس کے نامہ اعمال میں کبھی کوئی گناہ لکھا ہی نہ ہو،چنانچہ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم(ص) کا ارشاد گرامی ہے:’’اَلتّائِبُ مِنَ الذّنبِ كَمَن لاذَنْبَ لَهُ‘‘۔(الشهاب في الحِکم و لآداب،ص١٨) جو شخص اپنے گناہ سے معافی مانگ لیتا ہے وہ مکمل طور پر پاک و صاف ہوجاتا ہے جیسے اس نے کبھی کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو۔
قارئین کرام! کبھی کبھی انسان اپنے رب کے حضور اپنے گناہ کی معافی کے لئے تیار تو ہوتا ہے لیکن اسے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ میں اپنے پروردگار کی بارگاہ میں اظہار ندامت بھی کروں لیکن ممکن ہے میری توبہ قبول نہ ہو تو مجھے کیسے معلوم ہوسکے گا کہ میری توبہ قبول ہوئی ہے یا نہیں؟
دیکھئے یہ محال ہے کہ انسان صدق دل سے توبہ کرے اور وہ قبول نہ ہو اور وہ بخشا نہ جائے۔ نیز یہ بھی محال ہے کہ توبہ اپنے تمام شرائط کے ساتھ کی گئی ہو اور وہ قبول نہ ہو۔لہذا توبہ کرنے سے پہلے توبہ کے شرائط اور اس کے ارکان سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک حدیث میں امیرالمؤمنین(ع) توبہ کے شرائط و ارکان کے بارے میں اس طرح وضاحت فرماتے ہیں:’’التّوبَةُ نَدَمٌ بِالْقَلْبِ وَ اسْتِغْفارٌ بِاللِّسانِ وَ تَرْكٌ بِالْجَوارِحِ، وَ اِضمارٌ أنْ لايَعُودَ‘‘۔(فهرست غرر،ص٣٩)توبہ، دل سے پشیمان ہونے،زبان سے استغفار کرنے،عملاً گناہ کو ترک کرنے اور دوبارہ گناہ نہ کرنے کا مصمم اردہ کرنے کا نام ہے۔
پس صرف زبان سے استغفر اللہ کہہ دینا اور دیگر شرائط توبہ نہ ہونے سے حقیقی توبہ محقق نہیں ہوسکتی بلکہ ان چاروں ارکان کو باہم انجام دے تو پھر یقیناً توبہ قبول ہوگی اور جب انسان صدق دل سے توبہ کرتا ہے تو اللہ بھی قرآن مجید میں توبہ کی قبولیت کی ضمانت لیتا ہے:’’وَهُوَ الَّذِى یَقْبَلُ التَّوْبَهَ عَنْ عِبَادِهِ وَ یَعْفُواْ عَنِ السَّیِّاتِ وَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُون‘‘۔(سوره شوری:۲۵) اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کے گناہوں سے درگذر کرتا ہے اور جو کچھ وہ انجام دیتے ہیں ان سب سے آگاہ بھی ہے۔
نیز ایک دوسری آیہ کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے:’’وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَىٰ‘‘۔( سوره طه :۸۲)
اور جو کوئی توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے اور پھر راہِ راست پر قائم رہے تو میں اس کو بہت ہی بخشنے والا ہوں۔
قارئین کرام! یہ رمضان المبارک توبہ و استغفار کا مہینہ ہے اگر انسان اس مہینہ میں بھی بخشا نہ جائے تو پھر اس کے لئے سال کے دیگر مہینے و ایام مفید نہیں ہوسکتے۔اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے جس طرح فاسد غذا کھانے سے ہمارا جسم مریض ہوجاتا ہے تو ہمیں اس کے علاج کے لئے طبیب یا ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے اسی طرح گناہ کرکے انسان کی روح اور اس کا ضمیر زخمی ہوجاتا ہے لہذا استغفار کے ذریعہ اپنی بیماری کا علاج اور توبہ کے ذریعہ اپنے زخموں کا مداوا کرنا ہر بیمار کی ذمہ داری ہے چنانچہ اسی حقیقت کی طرف امام جعفر صادق علیہ السلام ان الفاظ و کلمات میں اشارہ کرتے ہیں:’’لِكُلِّ داءٍ دَواءٌ وَ دَواءُ الذَّنبِ اَلاِستِغفارُ‘‘۔(ثوابالاعمال،ص۳۶۵) ہر ایک درد و مرض کے لئے ایک علاج و دوا ہوتی ہے، گناہ کی دوا بخشش طلب کرنا اور اللہ کی بارگاہ میں استغفار کرنا ہے۔
رمضان المبارک کے آخری ایام اور توبہ
یہ رمضان المبارک توبہ و استغفار کا مہینہ ہے اگر انسان اس مہینہ میں بھی بخشا نہ جائے تو پھر اس کے لئے سال کے دیگر مہینے و ایام مفید نہیں ہوسکتے۔اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے جس طرح فاسد غذا کھانے سے ہمارا جسم مریض ہوجاتا ہے تو ہمیں اس کے علاج کے لئے طبیب یا ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے اسی طرح گناہ کرکے انسان کی روح اور اس کا ضمیر زخمی ہوجاتا ہے لہذا استغفار کے ذریعہ اپنی بیماری کا علاج اور توبہ کے ذریعہ اپنے زخموں کا مداوا کرنا ہر بیمار کی ذمہ داری ہے۔

wilayat.com/p/1501
متعلقہ مواد
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین