ولایت پورٹل: شہید ایسا لفظ ہے جسے سن کر سماعتیں شجاعت،ہمت،مسلمانوں کی نصرت اور آخر میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے جذبہ رکھنے والے جیالے کی طرف منتقل ہوجاتی ہیں۔ چونکہ شہید آگاہانہ اور دانستہ طور پر ان صفات کو اپنے اندر پروان چڑھاتا ہے اور اپنے کو شیطانی فتنوں اور وسوسوں کی آماجگاہ بننے نہیں دیتا اسی وجہ سے لفظ شہید کو سن کر دل و دماغ پر ایک عجیب جلالت و عظمت طاری ہوجاتی ہے۔
اسلامی تعلیمات کی رو سے شہید ایک ایسا مقدس کلمہ ہے جو صدر اسلام سے آج تک بشری تاریخ کے افق پر آفتاب عالمتاب کی مانند چمک رہا ہے اور مرور زمانہ سے اس کی ضوفشانی کی شعاعیں مدھم نہیں پڑیں بلکہ ہر روز پہلے سے زیادہ اور شدید انداز میں تاباں ہیں۔
شہداء کی پوری زندگی آئمہ اطہار(ع) کی اتباع و پیروی کا مرقع ہوتی ہے چونکہ انہوں نے ان ذوات مقدسہ سے یہ سیکھ لیا ہے کہ اللہ کی راہ میں عشق کے ساتھ کیسے چلنا ہوتا ہے؟ اور یہی الہی عشق کا جذبہ انہیں شیطانی وسوسوں سے امان دیتا ہے اور آئمہ ہدیٰ(ع) کی پیروی نے انہیں سکھلادیا ہے کہ یہ دنیا چند دن کا مسافر خانہ ہے جس طرح تارکین وطن پرندے ہر موسم میں اپنے لئے الگ ٹھکانا ڈھونڈتے ہیں شہداء بھی اس دار فانی سے کوچ کا سامان جمع کرکے رکھتے ہیں کہ نہ جانے کب اللہ کی جانب سے بلاوا آجائے اور کب کاروان کوچ کر بیٹھے؟
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ قرآن مجید شہداء کے مقام ، مرتبے اور فضیلت کے لئے کیا کہتا ہے؟
اگر قرآنی آیات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس آسمانی کتاب نے شہداء کے مرتبہ کو کس انداز میں بیان فرمایا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:’’ وَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْیاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یرْزَقُونَ* فَرِحِینَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ یسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِینَ لَمْ یلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَیهِمْ وَ لا هُمْ یحْزَنُونَ* یسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَ فَضْلٍ وَ أَنَّ اللَّهَ لا یضِیعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِینَ‘‘۔(آل عمران: 69۔ 71)
ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے پروردگار کے یہاں رزق پا رہے ہیں۔ اللہ نے اپنے فضل و کرم سے انہیں جو کچھ دیا ہے وہ اس پر خوش و خرم ہیں۔ اور اپنے ان پسماندہ گان کے بارے میں بھی جو ہنوز ان کے پاس نہیں پہنچے خوش اور مطمئن ہیں کہ انہیں کوئی خوف نہیں ہے۔ اور نہ کوئی حزن و ملال ہے۔وہ اللہ کے فضل و انعام پر خوش اور شاداں ہیں اور اس بات پر فرحاں ہیں کہ اللہ اہل ایمان کے اجر و ثواب کو ضائع و برباد نہیں کرتا۔
اللہ تعالیٰ شہداء کو اس وجہ سے زندہ رکھتا ہے اور ان کا تذکرہ لوگوں کے درمیان کرواتا ہے چونکہ انہوں نے صرف اپنے رب سے معاملہ کیا ہے اور صرف اسی سے جزا کے خواہاں ہوتے ہیں چونکہ انہوں نے خدا سے نعمات و لذات کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ ان کی راز و نیاز کا ماحصل و مقصد خود اللہ سے ملاقات تھا اور جسے خود حضرت حق مل جائے تو اس کے پاس تمام نعمتیں خود بخود آجاتی ہیں۔ چونکہ شہید یہ بات جانتا ہے کہ تمام کمال اللہ تعالٰی کی ذات پر جاکر منتھی ہوتے ہیں لہذا ان کمالات کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب اپنی جان کو اس کے فرمان پر نچھاور کردے۔
اور چونکہ شہید اپنے وجود کی سب سے پیاری چیز یعنی حیات کو اللہ کے سامنے خالصانہ طور پر رکھ دیتا ہے تو اللہ ان سے بڑی بھاری قیمت پر خرید لیتا ہے اور ان کے لئے جنت کے دروازے کھول دیتا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:’’ إِنَّ اللَّهَ اشْتَری مِنَ الْمُؤْمِنِینَ أَنْفُسَهُمْ وَ أَمْوالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ یقاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ فَیقْتُلُونَ وَ یقْتَلُونَ وَعْداً عَلَیهِ حَقًّا فِی التَّوْراةِ وَ الْإِنْجِیلِ وَ الْقُرْآنِ وَ مَنْ أَوْفی بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَیعِکمُ الَّذِی بایعْتُمْ بِهِ وَ ذلِک هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ‘‘۔(سورہ توبہ:111)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ نے مؤمنین سے ان کی جانیں خرید لی ہیں اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے بہشت ہے وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں پس وہ مارتے بھی ہیں اور خود بھی مارے جاتے ہیں (ان سے) یہ وعدہ اس (اللہ تعالیٰ) کے ذمہ ہے تورات، انجیل اور قرآن (سب) میں اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنے وعدہ کا پورا کرنے والا ہے؟ پس اے مسلمانو! تم اس سودے پر جو تم نے خدا سے کیا ہے خوشیاں مناؤ۔ یہی تو بڑی کامیابی ہے۔
قارئین کرام! کلمہ شہید قرآن مجید میں 30 مرتبہ ذکر ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی راہ اور اس کے مقصد میں کام آنے اور قتل ہونے والوں کا مرتبہ بہت بلند ہے جس کا اندازہ صرف قرآن مجید کی آیات کا علم رکھنے والے ہی بیان کرسکتے ہیں۔
قرآن مجید کی روشنی میں شہید کی عظمت
اسلامی تعلیمات کی رو سے شہید ایک ایسا مقدس کلمہ ہے جو صدر اسلام سے آج تک بشری تاریخ کے افق پر آفتاب عالمتاب کی مانند چمک رہا ہے اور مرور زمانہ سے اس کی ضوفشانی کی شعاعیں مدھم نہیں پڑیں بلکہ ہر روز پہلے سے زیادہ اور شدید انداز میں تاباں ہیں۔شہداء کی پوری زندگی آئمہ اطہار(ع) کی اتباع و پیروی کا مرقع ہوتی ہے چونکہ انہوں نے ان ذوات مقدسہ سے یہ سیکھ لیا ہے کہ اللہ کی راہ میں عشق کے ساتھ کیسے چلا جاتا ہے؟

wilayat.com/p/2196
متعلقہ مواد
فکر قرآنی:صاحبان ایمان کے متعلق جناب نوح(ع) کا فیصلہ
فکر قرآنی:تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب
فکر قرآنی:خوشگوار زندگی کے 3 اہم قرآنی اصول
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین