جنگ بدر

ماہ رمضان کی صبح کو ،جنگ کا آغاز ہوا۔شروع میں حمزہ ،عبیدہ اور علی(ع) نے شیبہ عتبہ اور ولید بن عتبہ سے الگ الگ جنگ کی اور اپنے مد مقابل کو قتل کیا۔ اور یہ سرداران قریش کے حوصلہ پر سخت چوٹ تھی لہٰذا اسی وقت عمومی جنگ شروع ہوگئی۔لشکر اسلام اتنی تیزی کے ساتھ کامیاب ہوا کہ ظہر کے وقت جنگ، دشمن کی شکست اور عقب نشینی پر تمام ہوگئی مشرکین میں۷۰ افراد مارے گئے۔اور ستر(۷۰) افراد اسیر ہوئےاور مسلمانوں میں سے صرف چودہ (۱۴) افراد شہید ہوئے۔

ولایت پورٹل: یہ جنگ،پیغمبر اکرم(ص) کی فوجی مشقوں ،اور شام کی طرف قریش کے تجارتی راستہ کی دھمکی کے بعد ہوئی اور یہ مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان پہلی بڑی جنگ تھی جیسا کہ معلوم ہے پیغمبر اسلام(ص)نے جمادی الآخر کے مہینہ میں قریش کے قافلہ کا جو ابو سفیان کی سربراہی میں شام کی طرف جارہا تھا ،سرزمین ’’ذات العُشَیرہ‘‘ تک تعاقب کیا لیکن ان تک پہنچ نہ سکے۔اس وجہ سے شام کے علاقہ میں سراغ رساں سپاہیوں کو بھیجا جن کے ذریعہ کفار قریش کے قافلہ کے پلٹنے کی خبر ملی۔(واقدی ،ج۱،ص۲۰)
مال و اسباب کے لحاظ سے قافلہ بہت بڑا تھا۔ان کے اونٹوں کی تعداد ایک ہزار تھی اور ان کا سرمایہ ۵۰ ہزار دینار نقل ہواہے کہ جس میں تمام قریش شریک تھے۔(واقدی،ص۲۷،مجلسی،بحارالانوارج۱۹، ص ۲۴۸، ۲۴۵)
قافلوں کا قدرتی راستہ ،بدر کے علاقہ سے شروع ہوتا تھا۔پیغمبر اسلام(ص) نے قافلہ کو ضبط کرنےکے لئے تین سو تیرہ افراد اور بہت کم امکانات کے ساتھ، بدر کی طرف روانہ کردئیے۔ ابو سفیان شام سے پلٹتے وقت پیغمبر(ص) کے ارادہ سے آگاہ ہوگیا۔لہٰذا ایک طرف مکہ میں اپنا تیز رفتار نمائندہ بھیج کر قریش سے مدد مانگی اور دوسری جانب سے قافلہ کے راستہ کو داہنی طرف (بحر احمر کے ساحل کی طرف) موڑ دیا اور قافلہ کو تیزی کے ساتھ خطرے کے مقام سے دور کردیا۔
ابو سفیان کی درخواست پر نوسو پچاس جنگجو مکہ سے قافلہ کی نجات کے لئے مدینہ کی طرف آگئے ۔جبکہ مشرکین راستے میں ہی قافلے کی نجات سے آگاہ ہوگئے تھے لیکن ابوجہل کی لجاجت اور ہٹ دھرمی نے ان کو ٹکراؤ پر مجبور کر دیا۔ابھی مسلمان قافلہ کی جستجو میں تھے کہ پیغمبر(ص) کو خبر ملی کہ لشکر قریش بدر کے علاقہ کے قریب پہنچ چکا ہے۔لہٰذا ایسے موقع پر کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا تھا۔کیونکہ تھوڑے سے سپاہیوں اور اسلحوں کے ساتھ قافلہ کے افراد کو گرفتار کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے نہ کہ ایسی فوج سے جنگ کرنے کے لئے آئے تھے جن کے سپاہیوں کی تعداد ان کے سپاہیوں کے تین برابر ہو۔ اگر (بالفرض) عقب نشینی بھی کرنا چاہتے تو فوجی مشقوں کے پروپیگنڈہ کا اثر ختم ہوجاتا اور ممکن تھا کہ دشمن ان کا پیچھا کرکے مدینہ پر حملہ کر دیتے ۔لہٰذا فوراً ایک فوجی کمیٹی تشکیل پانے کے بعد ،پیغمبراکرم(ص)نے مسلمانوں(خاص طور سے انصار) کی رائے اور مشورہ سے اور مقداد اور سعد بن عبادہ کی پر جوش تقریر کے بعد دشمن سے جنگ کا ارادہ کرلیا۔
اس معرکہ میں مسلمانوں کے پاس ستر (۷۰)اونٹ تھے اور چند افراد ایک اونٹ پر سوار ہوتے تھے(واقدی، ایضاً، ص۲۶،ابن ہشام ، ایضاً،ص۲۶۳) اور صرف ایک گھوڑا (شیخ مفید ، الارشاد،ص۷۳، ابنشہر آشوب، مناقب آل ابی طالبؑ،ج۱،ص۱۸۷،مجلسی،بحارالانوار،ج۱۹،ص۳۲۳)۔
۱۷ ماہ رمضان   کی صبح کو ،جنگ کا آغاز ہوا۔شروع میں حمزہ ،عبیدہ اور علی(ع) نے شیبہ عتبہ اور ولید بن عتبہ سے الگ الگ جنگ کی اور اپنے مد مقابل کو قتل کیا۔ اور یہ سرداران قریش کے حوصلہ پر سخت چوٹ تھی لہٰذا اسی وقت عمومی جنگ شروع ہوگئی۔لشکر اسلام اتنی تیزی کے ساتھ کامیاب ہوا کہ ظہر کے وقت جنگ، دشمن کی شکست اور عقب نشینی پر تمام ہوگئی مشرکین میں۷۰ افراد مارے گئے۔اور ستر(۷۰) افراد اسیر ہوئےاور مسلمانوں میں سے صرف چودہ (۱۴) افراد شہید ہوئے۔(؎  طبقات ابن سعد ،ص ۱۷،تاریخ یعقوبی،ج۲،ص۳۷،ابن شہرآشوب ، ص۱۸۹)
پیغمبر اسلام کی موافقت سے قیدی خون بہا دے کر آزاد ہوگئے اور جن کے پاس پیسہ نہ تھا لیکن پڑھے لکھے تھے ان کے بارے میں رسول اسلام(ص) نے حکم دیا کہ انصار کے دس جوانوں کو پڑھنا لکھنا سکھائیں پھر آزاد ہوجائیں اور بقیہ اسیر پیغمبر اکرمؐ کے احسان پر آزاد ہوئے۔( طبقات ابن سعد ،ص۱۸)

جاری ہے۔۔۔۔۔



0
شیئر کیجئے:
متعلقہ مواد
۱۷ رمضان،فتح بدر کے موقع پر مبارکباد عرض ہے:جنگ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی کے اسباب
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین