ولایت پورٹل: قارئین کرام ! ہمارے ادارے کی دیگر گرانقدر مساعی میں سے ایک شیعہ علماء اور دانشوروں کی زندگی اور کارناموں سے اپنے جوانوں کو آگاہ کرنا بھی ہے۔ اور اس امر کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ہمارے جوان اگر مستقبل میں کسی شاہ راہ پر چلنا چاہتے ہیں تو ان کے سامنے اپنے بزرگوں اور تاریخ کی ان عظیم ہستیوں کا کردار رہے جن کے نظریات سے آج تک دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے چونکہ جب ہمارے جوانوں کے سامنے ایسے کردار ہونگے تو ان میں محنت، مشقت اور لگن کا جذبہ پروان چڑھے گا اور انہیں اپنی زندگی با مقصد نظر آنے لگے گی۔ آئیے آج بات کرتے ہیں عالم اسلام کے مایہ ناز مفکر، فیلسوف، منجم اور ریاضی داں خواجہ نصیر الدین طوسی کی۔
علامہ ابو جعفر محمد بن محمد بن حسن الطوسی کہ جو ’’خواجہ نصیرالدین“ اور “محقق طوسی“ وغیرہ القاب سے مشہور ہیں۔ساتویں صدی ہجری کے شروع میں طوس، ایران میں پیدا ہوئے اور بغداد میں اسی صدی کے آخر میں وفات پائی، اسلام کے بڑے سائنسدانوں میں شمار ہوتے ہیں، مختلف ادوار میں خلفاء نے ان کا اکرام کیا، ان کی مجالس میں وزراء اور امرا شامل ہوتے تھے جس سے بعض لوگ حسد کا شکار ہوگئے اور ان پر کچھ جھوٹے الزامات لگادئے جس کے نتیجہ میں انہیں کسی قلعہ میں قید کردیا گیا۔ لیکن خواجہ عالم اسلام کی ان بلند پایہ شخصیات میں سے تھے جنہیں مشکلات اور پابندیوں کے سنگین و دشوار اوقات کو فرصت میں تبدیل کرنے کا ہنر آتا تھا لہذا انہوں نے اس قیدخانہ کو اپنی علمی فعالیت کا مرکز بنادیا اور ریاضی سے متعلق آپ کی بیشتر تصانیف اسی قیدخانہ میں لکھیں اور جو تصانیف بعد میں ان کی عالمی شہرت کا سبب بنیں ۔خواجہ کی زندگی ہمیں یہ بتلاتی ہے کہ وہی لوگ اپنی قوم اور مذہب کی خدمت کرسکتے ہیں جن میں مشکلات کے اوقات کو فرصت میں تبدیل کرنے کا ہنر آتا ہو۔
جب ہلاکو خان نے بغداد پر قبضہ کیا تو انہیں آزاد کردیا اور ان کا اکرام کرکے اپنے دربار میں موجودعلماء میں شامل کر لیا، پھر انہیں ہلاکو خان کے اوقاف کا امین بنادیا گیا، انہوں نے اپنے اکرام میں پیش کی جانے والی دولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک لائبریری بنائی جس میں انہوں نے دو لاکھ سے زائد کتب جمع کیں، انہوں نے ایک فلکیاتی رصد گاہ بھی بنائی اور اس وقت کے نامور سائنسدانوں کو اس رصد گاہ میں کام کرنے کے لئے اپنے ساتھ شامل کیا جن میں المؤید العرضی جو دمشق سے آئے تھے، الفخر المراغلی الموصلی، النجم دبیران القزوینی اور محیی الدین المغربی الحلبی شامل وغیرہ سر فہرست تھے۔
انہوں نے بہت ساری تصانیف چھوڑیں جن میں سب سے اہم کتاب “شکل القطاع” ہے، یہ پہلی کتاب تھی جس نے مثلثات کے حساب کو علمِ فلک سے الگ کیا، انہوں نے جغرافیہ، حکمت، موسیقی، فلکی کیلینڈر، منطق، اخلاق اور ریاضی پر بیش قیمت کتابیں لکھیں جو ان کی علمی مصروفیت کی دلیل ہیں، انہوں بعض کتبِ یونان کا بھی ترجمہ کیا اور ان کی تشریح وتنقید کی، اپنی رصد گاہ میں انہوں نے فلکیاتی ٹیبل (زیچ) بنائے جن سے اسلامی ممالک تو فائدہ نہ اٹھا سکے لیکن یورپ نے ان سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
انہوں نے بہت سارے فلکیاتی مسائل حل کئے اور بطلیموس سے زیادہ آسان کائناتی ماڈل پیش کیا، ان کے تجربات نے بعد میں کوپرنیکس کو زمین کو کائنات کے مرکز کی بجائے سورج کو نظام شمسی کا مرکز قرار دینے میں مدد دی، اس سے پہلے زمین کو کائنات کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔
انہوں نے آج کے جدید علمِ فلک کی ترقی کی راہ ہموار کی، اس کے علاوہ انہوں نے جبر اور ہندسہ کے بہت سارے نظریات میں نئے انداز کے طریقے شامل کئے ساتھ ہی ریاضی کے بہت سارے مسائل کو نئے براہین سے حل کیا، سارٹن ان کے بارے میں کہتے ہیں: “طوسی اسلام کے سب سے عظیم سائنسدان اور ان کے سب سے بڑے ریاضی دان تھے”۔ “ریگومونٹینوس” نے اپنی کتاب “المثلثات” کی تصنیف میں طوسی کی کتب سے خوب استفادہ کیا۔
شہرۂ آفاق آبزرویٹری کے موجد، فلکیات کے ماہر، مولانا جلال الدین رومی کے ہم عصر ،اخلاق ناصری کے مؤلف، نصیر الدین طوسی کے زور قلم سے علم کے کئی دریا بہے۔علمِ نجوم،علمِ بصریات Optics، ریاضیات، معدنیات، اخلاقیات، ادب، منطق، فلسفہ، طب، اقلیدس، کیمیا، تاریخ، جغرافیہ وغیرہ جیسے علوم کو انہوں نے اپنی بصیرت اور تجسس سے مالا مال کر دیا۔لیکن علم ہیئت Astronomyکے گویا وہ دیوانے تھے۔ بمقام مراغہ، نزدیک ایشیائے کوچک ،انہوں نے دنیا کی اولین اور بہترین آبزرویٹری بنائی اور ایسے تجربات کئے جو بعد میں دوسروں کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔ ریاضیات میں اس وقت تک جتنی بھی کتابیں لکھی گئی تھیں ان کو پھر سے مرتب کیا اور ان کی تعداد صرف سولہ بتائی۔ اس خزانہ میں خواجہ طوسی نے مزید چار اور کتابوں کا اضافہ کیا۔ اقلیدس کی ایک شاخTrigonometryکی بنیاد ڈالی اور اس شعبہ میں تجدید کی کئی راہیں تلاش کیں۔ خواجہ کو ان کی فلکیاتی تحقیقات کی بنا پر شہرت حاصل ہوئی۔ بارہ سال کی مسلسل کوشش کے بعد انہوں نے نظام شمسی کا ایک نقشہ مرتب کیا۔ فلکیات پر کئی کتابوں میں ’’کتاب التذکرۃ الناصریہ‘‘ جس کا دوسرا نام ’’تذکرہ فی علم نسخ‘‘بہت مشہور ہے۔ علمِ نجوم پر متاخرین کے لئے یہ اساس بن گئی۔ کئی محققوں نے اس پر شرح لکھی ہے۔ اس کتاب کے چار اہم حصے ہیں پہلا کائنات کے نظام میں حرکت کی اہمیت دوسرا فلکیاتی تغیرات، چاند کی گردش اور اس کا حساب ،تیسرا کرۂ ارض پر فلکیاتی اثر، مد و جزر، کوہ، صحرا،سمندر اور ہوائیں اور چوتھا نظام شمسی میں ستاروں کے فاصلے وغیرہ ۔ ظاہر ہے کہ یہ کتاب بہت مقبول و دلچسپ ثابت ہوئی۔ اس کتاب میں خواجہ نے بطلیموس Ptolemyکے بعض خیالات کی تردید کی ہے اور اس کی کوتاہیوں کی نشان دہی کی ہے۔ اس کتاب کی بنیاد پر یورپ کے مشہور منجم کوپر نیکس نے اپنے نظریات قائم کئے جو صحیح ثابت ہوئے۔ یعنی کوپرنکس کی تحقیقات کی بنیاد خواجہ کے وضع کردہ اصول تھے۔ خواجہ نے فلکیات پر دیگر کتابیں بھی لکھی ہیں مثلاً ضبط الٰہیہ،کتاب التحصیل فی نجوم، زیج ایلخانی،اظہر الماجستی وغیرہ۔ اس کے علاوہ مریخ پر، سورج کے طلوع و غروب پر، زمین کی گردش پر، سورج اور چاند کے فاصلہ پر،سیاروں کی نوعیت پر، رات اور دن کے ظہور پر اوراس کرۂ ارض کے جائے وقوع پر تفصیلی کتابیں لکھی ہیں جس کی وجہ سے ان کو علم فلکیات کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ مراغہ کی آبز رویٹری طوسی کی تحقیقات کے لئے بہت مفید ثابت ہوئی۔
خواجہ نصیرالدین طوسی کی حیات پُر برکت کے چند اہم گوشے
پر کچھ جھوٹے الزامات لگادئے جس کے نتیجہ میں انہیں کسی قلعہ میں قید کردیا گیا۔ لیکن خواجہ عالم اسلام کی ان بلند پایہ شخصیات میں سے تھے جنہیں مشکلات اور پابندیوں کے سنگین و دشوار اوقات کو فرصت میں تبدیل کرنے کا ہنر آتا تھا لہذا انہوں نے اس قیدخانہ کو اپنی علمی فعالیت کا مرکز بنادیا اور ریاضی سے متعلق آپ کی بیشتر تصانیف اسی قیدخانہ میں لکھیں اور جو تصانیف بعد میں ان کی عالمی شہرت کا سبب بنیں ۔خواجہ کی زندگی ہمیں یہ بتلاتی ہے کہ وہی لوگ اپنی قوم اور مذہب کی خدمت کرسکتے ہیں جن میں مشکلات کے اوقات کو فرصت میں تبدیل کرنے کا ہنر آتا ہو۔

wilayat.com/p/3132
متعلقہ مواد
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین