شہید قاسم سلیمانی کا وصیت نامہ

خدا وندا تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے ایک صلب سےدوسرے صلب میں، ایک صدی سےدوسری صدی، ایک رحم سے دوسرےرحم میں منتقل کیا یہاں تک کہ ایک ایسے زمانے میں میرے وجود کو اذن ظہور عطا فرمایا کہ میرے لئے یہ امکان میسر ہوا کہ تیرے برحق اولیاء میں شمار ہونے والے ایک ولی، جو معصومین علیہم السلام سے سب سے زیادہ نزدیک ہے یعنی تیرے عبد صالح امام خمینی کو پا سکوں اور اس کی رکاب میں ایک سپاہی بن سکوں 

ہم لوگ کیسے اس منحوس صبح کو بھول سکتے ہیں جب نماز کے اٹھے تو خبر ملی کہ شہید سلیمانی کو عراق کے بغداد ائرپورٹ پر بزدلانہ حملے میں شہید کر دیا گیا ہے آج سے ایک سال قبل3جنوری 2020ءبروز جمعہ بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی قریب امریکی ڈرون حملے میں اسلا م کے ایسے جانباز سپاہی کو شہید کر دیا گیا جس سے پورے خطے فتنہ گر کانپتے تھے تو دنیا کے بڑے بڑے ظالم گھبراتے تھے جسے امریکن جریدے فارن پالیسی نے دنیا کے سو عظیم ترین دفاعی و عسکری مفکرین میں قرار دیا تھا ۔

 ایک سال پہلے ہونے والے اس حملے میں شہید سلیمانی کے علاوہ عراق کی حشد الشعبی فورسز کے کمانڈر ابو مہدی المہندس اور حشدالشعبی سے متعلق دس دیگر افراد بھی شہید ہو گئے ۔امریکی وزارت دفاع کے مطابق اس فضائی حملے کا حکم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا تھا۔ شہید سلیمانی کے برسی کے موقع پر جہاں ہم سب کے لئے لازم ہے کہ امریکہ کی اس بزدلانہ کاروائی کا نشانہ بننے والے شہدا کی یاد کو زندہ رکھیں وہیں شہید سلیمانی جیسی تاریخ ساز شخصیتوں کے مقاصد پر بھی ایک نظر ڈالیں کہ کس مقصد و ہدف کی خاطر آپ نے ایسی مجاہدانہ زندگی گزاری جو ہمیشہ دشمن کو کھٹکتی رہی کیوں دشمن آپ کو شہید کرنے کے درپے تھا ، اگر ہم اس بات پر غور کریں گے تو ہمیں اسکا جواب تاریخ میں ملے گا ، تاریخ اسلام کی جتنی بھی عظیم شخصتیں ہیں خاص کر ہمارے ائمہ معصومین علیھم السلام اگر ہم انکی حیات طیبہ کو دیکھیں تو نظر آئے گا ہمارا تمام ائمہ کو یا تلوار سے یا زہر دغا سے شہید کیا گیا ہے ، وجہ صرف ایک ہے کہ انکی زندگی کا رخ ہی ایسا تھا کہ نظام ظلم و ستم انکے وجود کو اپنے لئے بربادی سے عبارت جانتا تھا کیونکہ وہ صرف اور صرف اللہ کے لئے جیتے تھے انکی موت حیات معبود حقیقی سے وابستہ تھی ، یہی چیز انکے حقیقی شیعوں میں بھی منتقل ہوئی ، شہید قاسم سلیمانی جیسی شخصیتیں یو ں آسانی سے وجود میں نہیں آتیں ہیں ، بلکہ زمانہ کو بڑا انتظار کرنا پڑتا ہے ایسی شخصیتوں کے لئے جنکا وجود قوم کے لئے ایک ڈھارس ہوتا ہے ، جو دردمندی میں اپنی مثال آپ ہوتی ہیں ، شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت کیا تھی اس کے اوپر مختلف انداز سے روشنی ڈالی جا سکتی ہیں ہم یہاں پر انکے وصیت نامے کے کچھ حصوں کو پیش کریں گے تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ انہوں نے کس مقصد کی خاطر زندگی گزاری اور انکا ہم سے مطالبہ کیا ہے 

شہید قاسم سلیمانی کا وصیت نامہ : 

توحید و رسالت کی گواہی : 

آپ اپنے وصیت نامہ[1] میں  فرماتے ہیں : 

اشهد أن لا اله االا الله و اشهد أ ا ن محمدًا رسول الله و اشهد أ ا ن امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب و اولاده المعصومین اثنی عشر ائمتنا و معصومیننا حجج الله.

میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد ﷺ خدا کے رسول ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ امیر المومنین علی ؑ ابن ابی طالب علیہم السلام اور ان کی اولاد معصوم بارہ آئمہ ،خدا کی حجتیں ہیں۔ 

قیامت کی حقانیت کی گواہی : 

میں گواہی دیتا ہوں کہ قیامت حق ہے، قرآن حق ہے، جنت و جہنم حق ہیں، قبر و آخرت کے سوال جواب حق ہیں، قیامت، عدل ، امامت و بنوّت حق ہے۔

خدا کے حضور شکر وا متنان :

 آپ اپنے وصیت نامہ میں فرماتے ہیں :

خدا وندا تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے ایک صلب سےدوسرے صلب میں، ایک صدی سےدوسری صدی، ایک رحم سے دوسرےرحم میں منتقل کیا یہاں تک کہ ایک ایسے زمانے میں میرے وجود کو اذن ظہور عطا فرمایا کہ میرے لئے یہ امکان میسر ہوا کہ تیرے برحق اولیاء میں شمار ہونے والے ایک ولی، جو معصومین علیہم السلام سے سب سے زیادہ نزدیک ہے یعنی تیرے عبد صالح امام خمینی کو پا سکوں اور اس کی رکاب میں ایک سپاہی بن سکوں ۔۔

 اسکے بعد آپ کہتے ہیں اے معبود میں تیرا شکر گذار ہوں کہ تو نے اپنے عبد صالح امام خمینی کے بعد مجھے اپنے ایک اور عبد صالح سے ملحق کر دیا کہ جس کی مظلومیت  اسکی صالحیت سے زیادہ بڑ ی ہے ،ایسا مرد جو اس زمانے میں اسلام، شیعت، ایران اور اسلام کی سیاسی دنیا کا حکیم و مدبر ہے یعنی محترم و عزیز ، خامنہ ای میری جان ان پر فدا ہو۔

یہاں پر ہم سب کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ شہید سلیمانی نے امام خمینی رضوان اللہ تعالی کے جہاں سپاہی ہونے پر فخر کیا ہے وہیں رہبر انقلاب اسلامی کی مدبرانہ رہبری پر خدا کا شکر ادا کیا ہے اور اس بات کا اظہار کیا ہے کہ یہ وہ شخصیت ہے جسکی مظلومیت اس کہ صالح ہونے پر غلبہ رکھتی ہے  یعنی یہ وہ شخصیت ہے جسکے اندر عالم اسلام کی قیادت و رہبری کے تمام شرائط موجود ہیں اسکے اندر تمام تر صلاحیتیں پائی جاتی ہیں تمام تر صلاحیتوں کے باجود اس شخصیت کی مظلومیت ان سب چیزوں سے بڑی ہے کہ ، اس انداز سے شہید قاسم سلیمانی نے ہمیں رہبر انقلاب اسلامی کی شخصیت سے آشنا کرانے کی کوشش کی ہے اور ہم سب کے لئے قابل غور ہے کہ ملک و سماج میں ان عناصر کو پہچانیں جو اس عظیم شخصیت کے بارے میں جو دل میں آتا ہے بول دیتے ہیں اور یہ بات سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ اس قحط الرجال میں دوسری کونسی ایسی شخصیت ہے جس کے ہاتھو ں میں پورے عالم اسلام کی کمان دی جا سکے ۔ 

شہیدا کی معیت پر افتخار: 

 شہید سلیمانی ایک اور مقام پر وصیت میں فرماتے ہیں : 

اے کردگار تیرا شکریہ کہ تو نے مجھے اپنے بہترین بندوں کے ساتھ ملحق رکھا اور مجھے یہ توفیق دی کہ میں ان کے بہشتی رخساروں کے بوسے لے سکوں اور عطر الٰہی کی مہک کو سونگھ سکوں یعنی تو نے مجھے شہداء اور مجاہدین کی صحبت نصیب کی"۔شہید سلیمانی کے یہ جملے ہمیں یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ ظاہری پھولوں کی خوشبو اپنی جگہ لیکن معنویت کی خوشبو اپنی جگہ ہوتی ہے عطر الہی کی مہک کے آگے ساری خوشبویں پھینکی ہیں ، یوں تو دنیا بڑے بڑے لوگوں کی معیت کو تلاش کرتی ہے لیکن شہید قاسم سلیمانی جیسی شخصیت اگر خدا کا شکر ادا کرتی ہے تو اس بات پر کہ خدا نے شہدا و مجاہدین کے ساتھ انہیں قرار دیا ۔ 

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور انکے فرزندوں پر گریہ اور ان سے محبت : 

 وصیت نامے کے ایک حصہ میں آپ فرماتے ہیں " اے خدائےقادر و توانا ، اے رحمان و رزاق، میں اپنی پیشانی بصد شکر ترے آستانے پر رکھتا ہوں کہ تو نے مجھے راہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا اور ان کے فرزندوں کی راہ میں مذہب تشیع جو اسلام کا حقیقی چہرہ ہے، میں قرار دیا اور مجھے علی ابن ابی طالب کے فرزندوں پر گریہ کرنے کی توفیق مرحمت فرمائی جو بلا شبہ تیری عظیم اور گرانبہا نعمتوں میں سے ہے، ایسی نعمت جو نورانیت اور معنونیت کی حامل ہے، ایسی بے قراری جس میں سب سے بڑھ کر قرار ہے، ایسا غم کہ جس میں سکون اور روحانیت ہے ۔" ان جملوں پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شہید قاسم سلیمانی کے لئے ایک بڑی بات یہ تھی مقام فخر یہ تھا کہ خدا نے انہیں راہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور انکے مکتب پر قرار دیا اور اسے شہید ایک گرانبہا نعمت کے طور پر دیکھتے ہیں  ایسی نعمت جو معنویت کی حامل ہے اب ایسے میں ہم سب کو سوچنے کی ضرور ت ہے کہ محبت اہلبیت اطہار علیھم السلام اور بی بی دو عالم کی محبت کو ہم کتنا قیمتی سمجھتے ہیں ، شہزادی کونین اور انکے فرزندوں کے غم کو ہم کس انداز سے لیتے ہیں ، اس غم کو اپنا سرمایہ حیات سمجھتے ہیں یا محض رسم کے طور پرغم مناتے ہیں اگر سرمایہ حیات سمجھتے ہیں تو اس غم سے ہمارے وجود میں کیا نکھار پیدا ہو رہا ہے یہ قابل غور بات ہے 

غریب و دیندار گھرانے میں پرورش: 

 وصیت کے ایک مقام پر آپ اپنے گھر کے سلسلہ سے فرماتے ہیں : خدایا تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے غریب مگردیندار اور اہل بیت علیہم السلام کے متوالے والدین عنایت کئے جو ہمیشہ پاکیزہ راستے پر چلے۔ میں تجھ سے کمال عاجزی کے ساتھ دعا گو ہوں کہ ان دونوں کو جنت میں اپنے اولیاء کا جوار نصیب فرما مجھے آخرت میں ان کے قرب سے مشرف فرما۔" اس مقام پر ہمیں ماں باپ کے احترام اور انکے مرتبہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ انسان غریب ہو لیکن محبت اہلبیت اطہار علیھم السلام اس کے دل میں ہو تو یہ غربت نہیں ہے بلکہ انسان کے پاس بڑا سرمایہ ہے ، اور ایک باظرف انسان پر لازم ہے کہ اگر اسے ایسا گھر نصیب ہوا ہے جہاں غربت کے باوجود عشق اہلبیت اطہار علیھم السلام کی دولت ہے تو اسے شکر ادا کرنا چاہیے کہ مالک تونے مجھے اتنی بڑی دولت سے نوازا کے میں اسکا شکر ادا بھی کرنا چاہوں تو نہیں کر سکتا ، ایسےمیں کتنا خوبصورت ہے کہ انسان اہلبیت اطہار علیھم السلام کا عشق رکھنے والے اپنے والدین کے سلسلہ سے دعائے مغفرت کرے کہ انہیں کی وجہ سے اسے ایسا ماحول میسر ہوا جہاں عشق اہلبیت اطہار علیھم السلام کی خوشبو ہے ۔

خدا سے امید مغفرت و بخشش : 

"خدایا میں تیری عفو و بخشش کا امید وار ہوں اے خداوند عزیز اور اے لا شریک خالق حکیم! میں تہی دست ہوں، میری جھولی خالی ہے، میرے پاس زاد سفر نہیں  صرف تیری بخشش و عفو کے بھروسے پر تیرے حضور آتا ہوں۔ میں نے اس جہان سے کچھ نہیں لیا کیونکہ فقیر شاہوں کے پاس جائے تو کسی برگ و بار کی کیا حاجت؟!میری جھولی  تیرے فضل و کرم کی امید سے پر ہے، آنکھیں موندیں تیرے پاس آتا ہوں۔ تمام تر گناہوں اور ناپاکیوں کے باوجود ان آنکھوں میں ایک قیمتی سرمایہ ہے، ایک خزانہ ہے اور وہ ہے امام حسین ابن فاطمہ علیہما السلام پر بہائے ہوئے اشک، اہل بیت اطہار علیہم السلام پر بہائے ہوئے آنسوؤں کے موتی، مظلوموں، یتیموں اور ظالموں کے ہاتھوں اسیر بے دفاعوں کے دفاع میں بہائے ہوئے اشکوں کے گوہر"۔ ان مذکورہ جملوں میں شہید سلیمانی اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے وہ ہرگز ایسا نہیں جس پر خدا سے کوئی امید لگائی جائے بلکہ اپنے سب سے قیمتی سرمایہ کو اشک اہلبیت اطہار علیھم السلام سے تعبیر کرتے ہوئے خدا کے فضل سے امید لگاتے ہیں ،ہم سب پر لازم ہے کہ ہرگز اپنے کسی عمل کے بعد نہ سوچیں ہم نے یہ کیا ہم نے وہ کیا جب شہید قاسم سلیمانی جیسی شخصیت اپنے کسی کام کو لائق اعتنا نہیں جانتی تو ہماری کیا بساط ہے ہمیں بھی خدا کے حضور بس اس کے فضل و کرم سے ہی امید رکھنا ہے اور راہ بندگی پر مسلسل چلتے رہنا ہے یقینا وہی ہماری مدد کرنے والا ہے ۔

میرے پاس کچھ بھی نہیں : 

آپ اپنے وصیت نامے میں ایک مقام پر فرماتے ہیں :

"خدایا میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ میرے ہاتھوں میں پیش کرنے کو کچھ ہے نہ ہی اپنے دفاع کی طاقت ہے۔ بس ایک ہی چیز میں نے ذخیرہ کی ہے اور اسی ذخیرہ سے میری امید وابستہ ہے اور وہ ہے ہمیشہ تیری جانب سفر کی حالت۔ یعنی جب میں نے ان کو تیری بارگاہ میں دراز کیا، جب میں نے ان کو تیری خاطر زمین یا اپنے زانوؤں پر رکھا، جب تیرے دین کے دفاع کے لئے ان سے اسلحہ اٹھایا یہ سب میرا ان ہاتھوں کا سرمایہ ہے جس کے لئے میں امید کرتا ہوں کہ تو نے اس کو قبول کیا ہوگا۔ خدا یا میرے پیر بھی سست ہیں، ان میں جان نہیں ہے۔ان میں پل صراط کو عبور کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ عام پلوں پر میرے پیر لرز اٹھتے تھے تو وائے ہے مجھ پر کہ پل صراط تو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے۔ مگر ایک امید ایک آس مجھے مژدہ سناتی ہے کہ شاید میرے قدم نہ ڈگمگائیں، ممکن ہے کہ میں نجات پا جاؤں اور وہ یہ کہ میں نے ان پیروں سے تیرے حرم میں داخل ہوا ہوں اور تیرے گھر کا طواف کیا ہے، تیرے اولیا کے حرموں میں، بین الحرمین یعنی تیرے حسین اور عباس کے حرم کے درمیان برہنہ پا سعی کی ہے۔ میں نے ان پیروں کو طویل مورچوں پر خم کیا ہے اور تیرے دین کے دفاع کے لئے ان پیروں سے دوڑدھوپ کی ہے۔ تیرے دین کے لئے تگ و دو کی ہے، رویا ہوں اور رلایا ہے، ہنسا ہوں اور ہنسایا ہے، گرا بھی ہوں اٹھا بھی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ تودوڑدھوپ اور تگ و دو کے طفیل اور ان حرموں کی حرمت کی خاطر میرے پیروں پر رحم فرمائے گا۔خدایا میرا سر، میری عقل، میرے لب، میری قوت شامہ، میرے کان، میرا دل، میرے تمام اعضاء جوارح تیرے فضل و کرم سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔ یا ارحم الراحمین! مجھے قبول کرلے، پاکیزہ بنا کر قبول کر لے، اس طرح سے مجھے اپنا لے کہ تیرے دیدار کے قابل ہو جاؤں۔ میں تیرے دیدار کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا، اے اللہ، میری جنت تیرا جوار ہے" ۔اے خدا میں اپنے دوستوں کے قافلہ سے پیچھے رہ گیا ہوں اے خدائے توانا۔ عرصہ ہوا کہ میں اس کاروان سے پیچھے رہ گیا ہوں جس کی طرف مسلسل دوسروں کو روانہ کر رہا ہوں۔ لیکن تو اس سے بخوبی آگاہ ہے کہ میں نے ان دوستوں کے ناموں کو ہمیشہ یاد رکھا ہے۔ صرف ذہن میں ہی نہیں بلکہ اپنے دل اور آنکھوں میں ان کی یاد بسائے رکھی ہے اور انہیں آنسوں اور آہوں کے ساتھ یاد رکھا ہے۔

اے جان جاں!میرا جسم بیمار ہو رہاہے۔ کس طرح ممکن ہے کہ جو چالیس سال سےتیرے آستانے پر پڑا ہو تو اس کو قبول نہ کرے؟ میرے خالق، میرے محبوب، میرے معشوق ، میں نے ہمیشہ تجھ سے یہی چاہا ہے کہ میرے وجود کو اپنے عشق کی آتش سے پر کردے، اپنے فراق کی آگ میں مجھے جلا کر میری جان لے لے۔میرے عزیز!میں قافلہ عشق سے پیچھے رہ جانے کی رسوائی کے سبب اور اس قافلہ سے ملحق ہونے کی بے قراری میں بیابانوں کی خاک چھان رہا ہوں۔ ایک امید ایک آس پر اس شہر سے اس شہر، اس صحرا سے اس صحرا، سردیوں اور گرمیوں میں محو سفر ہوں۔ اے کریم ، اے حبیب، میں نے تیرے کرم سے لو لگائی ہے، تو خود جانتا ہے کہ میں تیرا عاشق ہوں۔ تو بہتر جانتا ہے کہ تیرے سوا کسی کو نہیں چاہتا پس مجھے اپنا وصال نصیب فرما۔خدایا ایک وحشت نے میرے وجود پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ میں اپنے نفس کو مہار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اے خدا مجھے رسوا نہ کرنا۔ اس ہستیوں کی خاطر جن کی حرمت کو تو نے خود پر واجب کر لیا ہے، اس حرمت کے زائل ہونے سے قبل جو ان کے حرمہائے مطہر پر حرف آنے کا سبب بنے، مجھے اس قافلہ سے ملا دے جو تیری جانب آیا ہے۔میرے معبود، میرے عشق و معشوق، میں تیرا عاشق ہوں۔ میں نے بارہا تجھے دیکھا ہے، تجھے محسوس کیا ہے، مجھ میں تجھ سے جدا رہنے کی تاب نہیں ہے۔ بہت ہو چکا ، بس اب مجھے قبول کرلے مگر اس طرح کہ میں تیرے لائق رہوں"۔ ان جملوں میں جو عبد و معبود کے درمیان عشق چھلک رہا ہے وہ ناقابل بیان ہے کس طرح تمام تر کوششوں کے بعد دن رات کی انتھک کوشش کے بعد یہ عظیم شخصیت کہتی ہے مالک میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے میرا پورا وجود تجھ سے آس لگائے بیٹھا ہے کہ تو قبول کر لے ، حق ہے ایسے عظیم انسان کو کہ پروردگار بہترین انداز میں اسے لباس شہادت عطا فرمائے اور اس شخصیت کی محبت کو دلوں میں راسخ کردے جسکی بہترین مثال اس شخصیت کی تشیع جنازہ ہے جو تاریخ میں بے نظیر تھی 

اسلامی مرکز کا دفاع ضروری : 

 شہید سلیمانی نے صرف اپنے ہی بارے میں گفتگو نہیں کی ہے بلکہ دنیا کے تمام مجاہدین کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے : اس عالم میں میرےمجاہد بہن بھائیوں، اے وہ افراد جنہوں نے اپنے سر خدا کی راہ میں دے دئیے ہیں اور اپنی جانیں اپنی ہتھیلیوں پر رکھے بازار عشق میں بیچنے چلے آئے ہیں، توجہ فرمائیں۔ اسلامی جمہوریہ، اسلام اور تشیع کا مرکز ہے۔اس وقت امام حسین علیہ السلام کا میدان، ایران ہے۔ جان لیجئے کہ اسلامی جمہوریہ ایک حرم ہے، اگر یہ حرم محفوظ ہے دوسرے حرم بھی باقی ہیں۔ اگر دشمن اس حرم کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوجائے تو کوئی حرم باقی نہ بچے گا۔ نہ حرم ابراہیمی، نہ حرم محمدیﷺ۔" وصیت کے ان جملوں میں شہید سلیمانی نے اس بات کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ آج دشمن کی نظریں ایران پر ٹکی ہیں لہذا ہم سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تمام تر نقائص و مشکلات کے باوجود اس وقت جو عالم اسلام کا دل ہے وہ ایران کا اسلامی نظام ہے اسکی حفاظت کرنا اسکے پایوں کو مستحکم کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے اس لئے کہ دشمن کے اہداف میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی اسلامی نظام ہے چنانچہ ہم سب پر لازم ہے کہ شہید کی برسی کے اس موقع پر شہید کے اس وصیت نامے کو پیش نظر رکھتے ہوئے انکی قربانیوں کو یاد کریں اور عہد کریں کہ ہرگز ہم شہید کے مقاصد کو پامال نہیں ہونے دیں گے اور جن باتوں کی طرف شہید نے اپنے وصیت نامے کے ذریعہ ہمیں متوجہ کیا ہے ہم انکی طرف پوری توجہ کرتے ہوئے اپنی خون کے آخری قطرے تک ان مقاصد کے لئے لڑتے رہیں گے جنکے لئے لڑتے لڑتے شہید نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ۔ 

 ۔ https://www.mehrnews.com/news/4898554/%D9%86%D8%A7%D9%85%D9%87-%D8%A7%DB%8C-%DA%A9%D9%87-%D8%B4%D9%87%DB%8C%D8%AF-%D8%AD%D8%A7%D8%AC-%D9%82%D8%A7%D8%B3%D9%85-%D8%B3%D9%84%DB%8C%D9%85%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%88%D8%B5%DB%8C%D8%AA-%DA%A9%D8%B1%D8%AF-%D8%AF%D8%B1-%DA%A9%D9%81%D9%86%D8%B4-%D8%A8%DA%AF%D8%B0%D8%A7%D8%B1%D9%86%D8%AF

[1] 

1
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین