امام سجاد(ع) نے اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر ظالم کے سامنے حق کو آشکار کیا: رہبر انقلاب

امام زین العابدین (ع)نے فرمایا:میں علی بن الحسین(ع) ہوں۔ابن زیاد نے آپ(ع)کو قتل کی دھمکی دی۔اس موقع پر آپ(ع)کی امامت، معنویت و رہبری کا اولین جلوہ آشکار ہوا جہاں آپ نے فرمایا:’’أَبِالْقَتْلِ تُھَدِّدُنِیْ‘‘۔کیا تو مجھے قتل سے ڈراتا ہے حالانکہ شہادت ہمارا افتخار ہے۔راہِ خدا میں شہید ہونے کو ہم باعث فخر سمجھتے ہیں، ہم مرنے سے نہیں ڈرتے۔ عبیداللہ بن زیادکی حکومت، امام کے سامنے اورآپ کی صلابت و استقامت کے مقابلہ میں پسپا ہوگئی۔

ولایت پورٹل: واقعہ عاشورا کے بعد شیعوں اور آئمہ(ع) کی امامت کے معتقد لوگوں کی حالت عجیب تھی اموی مزدوروں اور زرخیریدوں نے اہل بیت رسول(ص) کے ساتھ کربلا، کوفہ اور شام میں وحشیانہ سلوک کیا، عقیدۂ امامت کے معتقد لوگوں کو خوفزدہ کیا۔ البتہ آپ حضرات جانتے ہیں کہ امام حسین(ع) کے برگزیدہ و منتخب اصحاب عاشور اور توابین کی شورش میں شہید ہوگئے تھے اور جو لوگ باقی بچے تھے ان میں اتنی ہمت و جرأت باقی نہیں بچی تھی کہ وہ یزید اور مروان جیسے ظالم و جابر حاکم کے خلاف حق کی آوازبلند کرتے۔ ہاں کچھ پراگندہ بکھرے ہوئے، بے سروسامان، خوف زدہ درحقیقت عملی طور پر راہِ امامت سے منحرف ہونے والے شیعہ امام زین العابدین(ع) کے لئے باقی رہ گئے تھے، ایک طرف شدید گھٹن کا ماحول ہے اور دوسری طرف معاون طاقت کمزور ہے، اسی میں امام زین العابدین(ع) کو واقعی و مکتبی اور حقیقی اسلام کی تحریک کے لئے ایک جہاد کرنا ہے اور ان بکھرے ہوئے شیعوں کو جمع کرنا ہے اور انہیں علوی حکومت یعنی درحقیقت سچی اسلامی حکومت سے قریب کرنا ہے چنانچہ چونتیس سال تک اسی ماحول میں امام زین العابدین(ع) نے یہ کام انجام دیا۔ یہاں میں آپ کے سامنے امام زین العابدین(ع) کی زندگی کے کچھ نمایاں پہلوؤں کو بیان کررہا ہوں:
چوتھے امام(ع) کی زندگی کا اولین پرافتخار زمانہ آپ(ع)کی اسیری کا زمانہ ہے البتہ امام(ع) کو دومرتبہ اسیر کیا گیا اور شام لے جایا گیا ہے۔ پہلی مرتبہ کربلا سے اور دوسری مرتبہ عبدالملک بن مروان کے زمانہ میں مدینہ سے اسیر ہوئے ہیں۔ جب کربلا سے امام زین العابدین(ع) کو حسینی کارواں کے اسیروں کے ساتھ شام لے جایا گیا تو آپ قرآن و اسلام کا مجسمہ تھے۔ جس وقت شہداء خاک و خون میں غلطاں ہوگئے ہیں اس وقت سے امام زین العابدین(ع) کے جہاد کا آغاز ہوا ہے، چھوٹے چھوٹے بچے، بچیاں، بے کس و بے نوا عورتیں، آپ کے گرد جمع ہیں، اس کارواں میں اور کوئی مرد نہیں ہے۔ امام زین العابدین(ع) اس کے سالار و رہبر ہیں، آپنے ان سب کو جمع کیا اور ملک شام پہنچنے تک پورے راستے ان کو جو کہ ایمان کے رشتہ کے ساتھ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، تردید و تزلزل سے محفوظ رکھا۔ یہ قافلہ کوفہ میں داخل ہوا، عبیداللہ ابن زیاد پہلے ہی حکم دے چکا تھا کہ ان کے مردوں کو قتل کردیا جائے، اس نے دیکھا کہ اسیروں کے کارواں میں ایک مرد ہے۔اس نے پوچھا: تم کون ہو؟
امام(ع)نے فرمایا:میں علی بن الحسین(ع) ہوں۔ابن زیاد نے آپ(ع)کو قتل کی دھمکی دی۔اس موقع پر آپ(ع)کی امامت، معنویت و رہبری کا اولین جلوہ آشکار ہوا جہاں آپ نے فرمایا:’’أَبِالْقَتْلِ تُھَدِّدُنِیْ‘‘۔(بحارالانوار، ج۴۵ص۱۱۸)کیا تو مجھے قتل سے ڈراتا ہے حالانکہ شہادت ہمارا افتخار ہے۔
راہِ خدا میں شہید ہونے کو ہم باعث فخر سمجھتے ہیں، ہم مرنے سے نہیں ڈرتے۔ عبیداللہ بن زیادکی حکومت، امام کے سامنے اورآپ کی صلابت و استقامت کے مقابلہ میں پسپا ہوگئی۔
قیدِ شام میں تمام اسیروں کے ساتھ امام زین العابدین(ع) بھی بے سروسامانی اور ناگفتہ بہ حالت میں (یعنی مکمل اسیری کی) زندگی گزارتے رہے کہ ایک دن یزید نے یہ سوچا کہ آپ کو اپنے ساتھ مسجد لے جائے اور لوگوں کے سامنے امام زین العابدین کو روحی اورنفسیاتی لحاظ سے کمزور ثابت کرے اور ایسا کام کرے کہ کہیں اس کے مخالفوں اور امام کے ہرجگہ پھیلے ہوئے طرفداروں کے پروپیگنڈوں کا حکومت پرکوئی اثرنہ پڑے۔ امام زین العابدین(ع) نے بھرے مجمع میں یزید کی طرف رخ کیا اور فرمایا: اگر اجازت ہو تو میں بھی منبر پر جاؤں اور لوگوں کے سامنے کچھ بیان کروں۔ یزید یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ فرزند رسول(ص(ص) ایک اسیر جوان جو بیمار ہے اور روحی لحاظ سے اس مدت میں کافی کمزور ہوگیا ہے وہ یزیدی حکومت کے لئے کوئی خطرہ ثابت ہوگا۔ یزید نے اجازت دی۔ امام زین العابدین(ع) منبر پر تشریف لے گئے اور اس حکومت کے مرکز میں فلسفۂ امامت و ماجرائے شہادت اور اموی حکومت کی طاغوتی تحریک کو برملا طور پر بیان کیا۔ ایسا کارنامہ انجام دیا کہ جس سے اہل شام نے شورش کردی۔ یعنی امام زین العابدین(ع) کی وہ شخصیت ہے کہ جس نے عبیداللہ بن زیاد کے سامنے، اموی حکومت کے پائے تخت میں شام کے فریب خوردہ لوگوں کے سامنے، یزید کے کارندوں اور حاکموں کے روبرو بلا جھجھک خطبہ دیا حرف حق کو آشکار کیا، (اس وقت گویا) حضرت کی نظر میں زندگی کی کوئی حیثیت و حقیقت نہیں تھی۔
۵ دسمبر ۱۹۸۰ کو دیئے گئے ایک خطبہ سے اقتباس


0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین