ولایت پورٹل: صدر اسلام سے آج تک دین خدا کے دشمنوں کی یہ سازش رہی ہے کہ اس کا دین اور شریعت لوگوں تک پہونچنے نہ پائے۔لہذا اسلام کی شبیہ کو خراب کرنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اور پروپیگنڈے اپنائے جاتے رہے تاکہ دنیا میں اسلام کی حقانیت اور اس کے اعلیٰ رہبروں خاص طور پر پیغمبر اکرم(ص) کی شخصیت کو مجروح کرکے لوگوں کے دلوں میں ان سے نفرت کا جذبہ پیدا کیا جاسکے۔لیکن دشمنان دین کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ یہ کوئی خود ساختہ دین نہیں ہے اور نہ ہی اس میں تحریف ممکن ہے اسے اللہ نے بھیجا اور حفاظت کی ذمہ داری بھی خود اسی نے لی ہے ۔ یہی وہ دین اور شریعت ہے کہ سابقہ انبیاء کی شریعتیں جس کی تمہید اور مقدمہ کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں کسی نبی یا کسی شریعت کو بُرا کہنے کی اجازت نہیں ہے چونکہ وہ شریعتیں اپنے اپنے زمانے میں ایک خاص وقت کے لئے اللہ کا انتخاب تھیں اور ان عظیم ہستیوں نے دین کے نفاذ اور الہی اقدار کو نافذ کرنے کے لئے اپنی پوری قوت صرف کی اور آخر میں ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کو بحیثیت نبی خاتم اور آخری رسول بھیجا گیا۔ اور یہ وعدہ کیا گیا کہ شریعت محمدی(ص) کا پرچم پوری دنیا میں لہرائے گا چاہے کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گذرے۔
ویسے تو بیسویں صدی کے آغاز سے ہی مغربی ممالک نے اپنے تمدن اور تہذیب کو دنیا میں عام کرنے کی خاطر دین اسلام سے دشمنی کو اپنے اصلی پروگرام کا حصہ قرار دے رکھا تھا لیکن ابھی پچھلے ۳۰ ، ۴۰ برسوں میں اس مہم نے بہت زور پکڑا اور میڈیا کا غلط استعمال کرکے بنام آزادی بیان و نظر ،ایسی خیال بافیاں کی گئیں کہ جن سے نہ صرف دیندار بلکہ ہر وہ شخص جس میں ذرہ برابر انسانی غیرت پائی جاتی ہے وہ ان چیزوں کا مشاہدہ کرکے انسانیت کی دہائی دینے لگتا ہے۔
مغربی ممالک نے طول تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں کے آپسی اختلاف اور سادہ لوحی کا فائدہ اٹھایا ہے یہی وجہ ہے کہ جب ایک طرف فرانس میں اسلام فوبیا کو ہوا دی جارہی ہے اور مسلمانوں کے خلاف یورپ کے جوانوں کے افکار کو ورغلانے کی کوشش کی جارہے وہیں دوسری طرف اپنے قتل و کشتار کے تمام وسائل کچھ بیوقوف عرب حکمرانوں کو فروخت کرکے اسلام اور مسلمانوں سے اپنے دیرینہ بغض و حسد کا انتقام لیا جارہا ہے۔ اس طرح کہ قاتل بھی مسلمان ہے اور مقتول بھی مسلمان،مال بھی مسلمانوں کا ہے اور جان بھی مسلمانوں کی برباد ہورہی اور اسے دو ملکوں کی آپسی رنجش قرار دیا جارہا ہے۔اور اس سے بھی بڑا غضب یہ ہے کہ وہ اس اسلام کو اس طرح تروڈ مروڈ کر پیش کر رہے ہیں اور ویسا دنیا کو دکھلا رہے ہیں جیسا وہ چاہتے ہیں چونکہ آج میڈیا ان کا ہے ، سوشل پلیٹ فارم ان کے پاس ہے ۔ اب ظاہر ہے مسلمانوں کو ان سب میدانوں میں کامیابی کے لئے بڑی محنت اور سخت مشقت کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر جتنی مسلم علماء اور دانشوروں کی علمی کاوشیں رنگ لا سکتی ہے اتنی ہی عوام میں بصیرت پیدا ہوسکتی ہے اور وہ دنیا کے سامنے اپنے عمل سے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ اسلام دین رحمت ہے اور مسلمانوں کی تصویر وہ نہیں ہے جو مغرب کے ٹوٹے اور ٹیڑھے آئنہ دکھا رہے ہیں۔
مسلمانوں کو یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ صرف رسول اللہ(ص) کی توہین نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان کی توہین ہے ۔چونکہ جس کے صدقہ میں اللہ نے پوری کائنات کو خلق کیا اگر اس کی حرمت شکنی کی گئی اور اس کے احترام کو مخدوش بنانے کی کوشش کی گئی تو پھر کسی کی عزت و حرمت محفوظ نہیں رہ سکتی۔ مسلمانوں کو امت مرحومہ ہونے کا شرف اسی وجہ سے تو ہے کہ وہ رسول اللہ(ص) کے امتی ہیں اگر رسول کا وقار خطرہ میں ہو تو امت کا وقار خود بخود ختم ہو جائے گا۔
آج صرف چند مظاہرے کرکے اور چند جلوسوں سے کام نہیں چلے گا بلکہ ہر امتی کا فریضہ یہ ہے کہ وہ جس جگہ ہے اور جس سماجی مقام و منصب پر فائز ہے وہ اس کا پورا استعمال کرتے ہوئے رسول اللہ(ص) کے کردار کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش کرے جیسا اللہ کا حکم ہے جیسا قرآن کا فرمان ہے اور جیسا آئمہ(ع) نے ہمیں رسول اللہ(ص) کی سیرت بتلائی ہے۔
جو افراد علمی و قلمی میدان میں ہیں ان کو چاہیئے کہ وہ اپنے علم، بیان و قلم کا استعمال کرتے ہوئے اسلام، رسول(ص) قرآن، اہل بیت(ع) اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والے اعتراض کا مکمل و مدلل جواب دیں۔ آج مسلمانوں میں بڑے بڑے علماء و دانشور حضرات موجود ہیں وہ اپنی بساط کے مطابق بڑا کام کرسکتے ہیں اور سیرت رسول(ص) کی صحیح تفسیر و تشریح کرسکتے ہیں۔اور خاص طور پر وہ علوم جس میں سب لوگوں نظریں مغربی ممالک کی طرف ہیں ان میں کام کریں اور اسلام کے تربیتی و علمی معیار کے مطابق ان کی باز نگری کریں۔
آج مسلمانوں کے پاس متعدد اقتصادی منابع موجود ہیں لہذا بہت سے ایسی چیزوں کی پیداوار کو بڑھایا جاسکتا ہے جن میں ہماری نگاہیں مغربی پروڈکٹ کی طرف ہوتی ہے۔ آج شاید سب سے زیادہ مغربی اشیاء کا استعمال مسلم ممالک میں ہوتا ہے لہذا یہاں بھی ایک مؤثر اقدام کی ضرورت ہے۔ اور اپنے لفظوں کی بندشوں سے آزاد کرکے دنیا کے سامنے غلام محمد(ص) ہونے کا ثبوت عمل سے دینا ہے۔ اور یہ ثابت کرنا ہے جس طرح کل رسول اللہ(ص) کے دشمن ابتر تھے آج بھی ان کی توہین کرنے والے تمام تر وسائل و امکانات کے باوجود قعر ابتری میں دھکیل دیئے جائیں گے۔
تحریر : سجاد ربانی