اہل بیت(ع) کی محبت کا تقاضہ

اہل بیت(ع) کی محبت، دوستی اور کراہت کا معیار اللہ کی اطاعت اور اس کی معصیت ہے۔ چونکہ جب اہل بیت(ع) یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان کے شیعہ ، ان کے نام لیوا ، ان کے چاہنے والے وہ اعمال بجا لارہے ہیں جن سے اللہ خوش ہوتا ہے تو وہ خوش ہوجاتے ہیں اور ایسے افراد کو اپنی دعاؤں میں شریک کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان کا کوئی شیعہ اور چاہنے والا اللہ کی معصیت کررہا ہے ، اس کے ممنوعہ حدود کی خلاف ورزی کررہا ہے تو یہی چیزیں ان حضرات(ع) کی ناراضگی کا سبب قرار پاتی ہیں۔

ولایت پورٹل: کسی بھی ذات اور ہستی سے محبت اور عشق کے اپنے کچھ خاص تقاضے اور شرائط ہوتے ہیں۔ عشق حقیقی کی عمارت بہت مضبوط ہوتی ہے لہذا اس میں جو مٹیریل استمعال ہو وہ با کیفیت ہونا چاہیئے۔ اللہ کے بعد، عالم امکان میں اہل بیت(ع) ہی وہ ذوات ہیں جن سے اللہ نے محبت و مودت رکھنے اور ان کی اتباع کرنے کا حکم دیا ہے۔عاشق کی نگاہیں ہمیشہ اپنے معشوق کی طرف رہتی ہیں کہ خدانخواستہ ہم سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہوجائے جس سے اس کے ماتھے پر شکن آجائے۔
حضرت امام زمانہ(عج) نے شیخ مفید(عج) کے نام لکھی اپنی ایک توقیع(خط) میں یہ گرانقدر جملہ ارشاد فرمایا:’’فَلْيَعْمَلْ كُلُّ امْرِء مِنْكُمْ بِما يَقْرُبُ بِهِ مِنْ مَحَبَّتِنا، وَيَتَجَنَّبُ ما يُدْنيهِ مِنْ كَراهَتِنا وَسَخَطِنا۔( احتجاج، ج2، ص323و324 ; بحارالأنوار، ج53، ص176، ح7)
پس تم میں سے ہر ایک وہ کام کرنا چاہیئے کہ جو اسے ہماری محبت اور دوستی سے نزدیک و قریب کردے۔ اور ان اعمال سے بچنا چاہیئے جو ہمیں پسند نہیں ہیں اور جو ہماری ناراضگی کا سبب قرار پاتے ہیں۔
ظاہر سی بات ہے کہ اہل بیت(ع) کی محبت، دوستی اور کراہت کا معیار اللہ کی اطاعت اور اس کی معصیت ہے۔ چونکہ جب اہل بیت(ع) یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان کے شیعہ ، ان کے نام لیوا ، ان کے چاہنے والے وہ اعمال بجا لارہے ہیں جن سے اللہ خوش ہوتا ہے تو وہ خوش ہوجاتے ہیں اور ایسے افراد کو اپنی دعاؤں میں شریک کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان کا کوئی شیعہ اور چاہنے والا اللہ کی معصیت کررہا ہے ، اس کے ممنوعہ حدود کی خلاف ورزی کررہا ہے تو یہی چیزیں ان حضرات(ع) کی ناراضگی کا سبب قرار پاتی ہیں۔
چنانچہ جب ہم اس پوری توقیع پر جو امام زمانہ(عج) نے شیخ مفید(رح) کو لکھی تھی غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ اگر کوئی شخص، اہل بیت(ع) کی اتباع کرتا ہے تو وہ اس سے کتنا خوش ہوتے ہیں اور اسے کتنی دعائیں دیتے ہیں اور اس کے لئے کیسی عظیم تعبیرات استعمال کرتے ہیں چنانچہ آپ نے شیخ کو لکھا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، اما بعد؛ اے ہمارے مخلص دوست! تم پر ہمارا سلام ، کہ تم ہمارے مقام و مرتبہ پر محکم ایمان رکھتے ہو۔ ہم تم جیسے چاہنے والے مخلص دوست کے سبب اس اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد(ص) اور ان کی آل پاک پر درود و سلام بھیجتے ہیں۔اللہ تمہیں حق کی نصرت کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ اور ہماری طرف سے تمہیں راست گوئی اور صدق نیت کی بہترین جزا کرامت فرمائے۔ اور اللہ نے ہمیں یہ اذن دیا ہے کہ ہم تمہیں اپنے خطوط کا مخاطب قرار دیں۔( احتجاج، ج2، ص322 ; بحارالأنوار، ج53، ص175، ح7)
حضرت ولی عصر(عج) کی اس توقیع مبارک کے بعد اب اختیار ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے کہ ہم چاہیں تو امام زمانہ(عج) کو خوش کرلیں اور ان کی نگاہیں کرامت کے سبب دنیاوی اور اخروی مشکلات پر فائق آجائیں۔ واضح سی بات ہے کہ اس کے لئے ہمیں گناہوں سے بچنا ہوگا ، معصیت کو ترک کرنا ہوگا ۔ اور اگر ہم ایسا نہیں کرتے ہیں تو ظاہر ہے ہمارے حصہ میں محرومی، بدبختی کے علاوہ کچھ اور نہیں آئے گا۔پس ہمیں چاہیئے کہ ہم وہ کام کریں کہ جن کے سبب آپ(عج) کی نظر عنایت ہم پر باقی رہیں۔

تحریر سجاد ربانی


1
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین