امام محمد تقی(ع) کے فرامین کی روشنی میں پرسکون زندگی کا طریقہ

دوسروں کے متعلق منفی باتیں کرنے کے بجائے اپنے نظریہ اور فکر کی اصلاح کرنے کی کوشش کیجئے تاکہ دوسروں پر اس کا اچھا اثر ہو اور دوسرے آپ کو پسند کریں آپ اپنے کردار کو تبدیل کیجئے دنیا آپ کے لئے خودبخود بدل جائے گی۔

ولایت پورٹل: قارئین کرام! جیسا کہ آپ سب بخوبی جانتے ہیں کہ اطمئنان اور دلی سکون ایک ایسی چیز ہے جس کے بغیر زندگی اجیراً بن کر رہ جاتی ہے۔ اگر انسان کے پاس سب کچھ ہو لیکن سکون و چین نہ ہو تو گویا اس کے پاس کچھ نہیں ہے اور وہ اس دار دنیا میں خالی ہاتھ بھٹکتا پھرتا ہے۔چنانچہ آج ہمارے معاشرے کے بہت سے افراد اضطراب و بے چینی کے شکار ہیں۔ اور یہ اضطراب فوراً ہی کیس کے دامنگیر  نہیں ہوتا بلکہ آہستہ آہستہ بتدریج قدم بہ قدم انسان کا پیچھا کرتا ہے۔کسی انسان کی زندگی سکون و چین یا عدم اطمئنان خود لوگوں کے اپنے انتخاب کردہ طرز تفکر و زندگی کی طرف پلٹتا ہے کہ آپ نے کس طرز زندگی کو اپنایا اور اس دنیا میں آپ کے نظریات کیا تھے؟ چنانچہ ہم اس مقالہ میں امام محمد تقی علیہ السلام کے فرامین کے روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ انسان کے دل و دماغ کو سکون کیسے میسر آتا ہے اور کب اسے اطمئنان نصیب ہوتا ہے۔
۱۔اچھے دوستوں کی ہمنشینی
اچھے دوست ہمیشہ انسان کے زخموں کا سب سے اچھا مرحم اور درد کی دوا اورسختی و صعوبت کے زمانے میں انسان کی سب سے محفوظ پناگاہ ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ رہنے سے انسان کے دل پر لگے ہوئے درد و غم کے سارے زنگ دھل جاتے ہیں شاید دوست کی ایک چھوٹی سا جملہ آپ کے تمام مشکلات کا حل بن جائے یا اس کا ایک چھوٹا سا مشورہ آپ کی زندگی کے سارے بند تالے کھول دے۔پس اچھے دوستوں کی ہمنشینی آپ کی زندگی کے پروگرامز کا حصہ ہونا چاہیئے چنانچہ امام محمد تقی علیہ السلام فرماتے ہیں :دوستوں اور مؤمن بھائیوں سے ملاقات  دل کی نورانیت کا سبب ہوتی ہے اور اس سے انسان کی عقل و درایت پروان چڑھتی ہے اگرچہ یہ کام بہت ہی کم مدت کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔(۱)
۲۔برے دوستوں سے دوری
روز قیامت انسان جن چیزوں کی حسرت کرے گا ان میں سے ایک برے دوستوں کی ہمنشینی ہے چنانچہ قرآن مجید کی تعبیر کے مطابق وہ یہ حسرت کرے گا:’’یَا وَیْلَتَىٰ لَیْتَنِی لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیلًا‘‘۔(۲) اے کاش میں نے فلاں انسان سے دوستی نہ کی ہوتی۔ لہذا اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کی زندگی  میں اور اس کی سعادت و شقاوت میں ایک دوست کیا کردار ادا کرسکتا ہے۔
بہر کیف! بہت سی مشکلات جو انسان کے لئے وجود میں آتی ہیں اور اس کی روحی بے چینی کا سبب بنتی ہیں اور اس کے آرام و سکون کو چھین لیتی ہیں وہ برے دوستوں کی ہمنشینی اور معیت کے سبب وجود میں آتی ہیں چونکہ برے دوستوں کے شیطانی نظریات اور افکار ہی انسان کو بسا اوقات اپنا اسیر بنا لیتے ہیں لہذا اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی سے پریشانیوں کا سد باب ہوجائے تو ہمیں برے دوستوں کو اپنے حلقہ احباب سے نکالتا ہوگا چنانچہ امام محمد تقی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’شریر لوگوں کی دوستی و ہمنشینی سے بچو چونکہ وہ اس زہر آلود اور تیز شمشیر کے مانند ہیں کہ جن کا ظاہر خوبصورت اور باطن خطرناک اور وحشتناک ہوتا ہے۔(۳)
۳۔اپنے اطراف میں رونما ہونے والے حوادث سے باخبر رہنا
اس وجہ سے کہ روز مرہ پیش آنے والے حالات آپ کو مغلوب نہ کردیں اور وہ آپ کو اپنے جال میں نہ پھنسا لیں تو آپ لوگوں کو اپنے اطراف میں رونما ہونے والے حادثات سے آگاہ رہنا ہوگا چونکہ کبھی کبھی کسی ایسے واقعہ سے ملحق ہوجانے کے سبب کہ جس کے بارے میں آپ کو وافر معلومات نہیں ہوتی آپ کی زندگی میں ایسا اضطراب پیدا ہوتا ہے جس سے آپ کی دنیا و آخرت دونوں کی سعادت متأثر  ہوسکتی ہے۔لہذا اگر ہم ان حادثات سے واقف ہونگے تو زندگی کی مشکلات میں گرفتار ہونے کا گراف خود بخود کم ہوجائے گا چنانچہ امام محمد تقی علیہ السلام کا ارشاد ہے:’’ جو شخص موقع شناس نہ ہو تو روز مرہ پیش آنے والے حادثات اسے ہلاکت سے قریب کردیتے ہیں۔(۴)
۴۔ دوسروں کی بے جا تنقید سے پرہیز کرنا
اگر آپ ایک ایسے آدمی ہیں جس کی زبان کو دوسروں کی مذمت کرنا اور ان کے عیب کو بیان کرنے کی عادت ہو تو یاد رکھئے کہ آپ اکیلے رہ جائیں گے اور آپ کے تمام چاہنے والے آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں گے اور ظاہر ہے کہ بغیر اچھے دوستوں اور مخلصین و چاہنے والوں کے زندگی دشوار بن جاتی ہے لہذا اپنی زبان کو اچھی چیزوں کی عادت دیجئے تاکہ دوسرے آپ کے پاس آئیں اور کوئی آپ کو چھوڑ کر نہ جائے چنانچہ امام محمد تقی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’بغیر کسی سبب و دلیل کے دوسروں کی تنقید کرنا  ان کی ناراضگی اور غصہ کا سبب قرار پائے گی اور پھر ان کی رضایت اور ہمراہی تمہیں نصیب نہ ہوگی۔(۵)
لہذا دوسروں کے متعلق منفی باتیں کرنے کے بجائے اپنے نظریہ اور فکر کی اصلاح کرنے کی کوشش کیجئے تاکہ دوسروں پر اس کا اچھا اثر ہو اور دوسرے آپ کو پسند کریں آپ اپنے کردار کو تبدیل کیجئے دنیا آپ کے لئے خودبخود بدل جائے گی۔
۵۔ دوسروں کی دولت پر نظریں نہ جمانا
جو کچھ آپ کے پاس ہے آپ اسی پر توکل کیجئے اور دوسروں کے پاس کیا ہے اس پر نظریں مت جمائیے آپ کو دوسروں سے قطعاً یہ توقع نہیں رکھنا چاہیئے کہ اگر وہ اگر سرمایہ دار ہیں تو وہ آپ کا ہاتھ پکڑ کر مدد کردیں گے اور آپ بھی  ایک دن مالدار ہوکر خوش نصیب بن جائیں گے۔یہ غلط طرز فکر ہے۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے مالدار اور ثروت مند ہیں جن کے پاس بے تحاشہ دولت کے انبار ہیں  لیکن وہ پھر بھی قانع نہیں ہیں بلکہ ان کی ’’ھل من مزید‘‘ کی خواہش کبھی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ جو ان کے پاس ہے وہ اس پر قانع نہیں ہیں۔ پس حقیقی سکون اسی وقت میسر آسکتا ہے کہ جو کچھ آپ کے پاس ہے آپ اس پر قناعت کریں اور اس سے استفادہ کریں دوسروں کے مال و دولت پر نظریں نہ جمائیں۔اور کبھی بھی دوسروں کی ظاہری زندگی کو اپنے باطنی حالات سے مقائسہ و موازنہ نہ کریں شاید انہیں بھی کسی ایسی چیز کی تلاش ہو جو ان کے پاس نہ ہو لیکن وہ آپ کی اس سادہ سی زندگی میں آپ کے پاس ہو چنانچہ امام محمد تقی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’مؤمن کی عزت اس کی بے نیازی ، نیز دوسروں کے مال و منال کو لالچ بھری نظروں سے نہ دیکھنے میں ہے۔(۶)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔بحار‌الانوار، جلد ۷۱، صفحہ ۳۵۳۔
2۔قرآن کریم، فرقان، آیت 28۔
3۔بحار‌الانوار، جلد ۷۱، ص۱۹۸۔
4۔سابق حوالہ، جلد ۶۸، صفحہ ۳۴۰۔
5۔سابق حوالہ، جلد ۷۱، صفحہ ۱۸۱۔
6۔سابق حوالہ۔


1
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین