رمضان المبارک، خدا کی طرف لوٹنے کا مہینہ

جس شخص نے نماز قضا کی ہے اس کی توبہ یہ ہوگی کہ وہ اپنی قضا نمازوں کو ادا کرے وہ شخص جس نے کسی کا مال لوٹا ہے تو اس کی توبہ یہ ہے کہ وہ اسے اس کا مال لوٹا دے۔اور اگر کسی نے علم کو شائع نہ کرکے حقائق کو چھپایا اور موجودہ نسلوں سے خیانت کی تو فقط اس کی توبہ اسی صورت قبول ہوسکتی ہے ہے کہ جب وہ ان حقائق کو سب کے سامنے ظاہر کرے۔

ولایت پورٹل: قارئین کرام! ماہ رمضان المبارک،توبہ، استغفار اور اللہ کی طرف لوٹنے اور گناہوں سے دوری اختیار کرنے کی مشق کا مہینہ ہے مؤمنین توبہ و استغفار اور گذشتہ چیزوں کا جبران کرکے ہر اس عمل سے دور ہوسکتے ہیں جو خدا کے حکم کے مخالف تھا چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’ بے شک اللہ تعالیٰ ماہ رمضان کی ہر شب میں ایک گروہ کو دوزخ کے عذاب سے نجات عطا کرتا ہے اور جب اس مہینہ کی آخری رات پہونچتی ہے تو اس میں اتنے لوگوں کی مغفرت کرنا ہے جتنا پورے مہینہ میں مغفرت کی ہے۔
گناہوں اور لغزشوں کی بخشش اور مغفرت ایک ایسی فرصت ہے جس میں گنہگار اللہ کی طرف لوٹ سکتے ہیں اور یہ عہد کرسکتے ہیں کہ وہ اب کبھی گناہ نہیں کریں گے اور جو کوتاہیاں وہ ماضی میں کر چکے ہیں ان کی تکرار نہیں کریں گے چونکہ وہ انسان جو اس ماہ میں اپنے گذشتہ پر پشیمان ہو اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا قصد کرے تو اللہ اسے بخش دے گا اور وہ اس کی مغفرت و رحمت کا مستحق قرار پائے گا اور جو اس مہینہ میں بھی کہ جس میں صرف عمل پر ہی نہیں بلکہ سوتے ہوئے سانس لینے پر بھی نیکیوں کا ثواب ملتا ہے اگر کوئی اس میں بھی غفران الہی سے فیضیاب نہ ہوسکے تو وہ حقیقی معنیٰ میں بدنصیب ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (ص) نے خطبہ شعبانیہ کے ایک فراز میں فرمایا:’’فإن الشقی من حرم غفران الله فی هذا الشهر العظیم‘‘ سب سے بڑا بد نصیب اور بد بخت وہ ہے کہ جو اس عظیم مہینہ میں بھی اللہ کی مغفرت و غفران سے محروم رہ جائے۔
اسی طرح بہت سی قرآنی آیات میں توبہ کو بخشش کا پہلا مرحلہ بتلایا گیا ہے یعنی انسان اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال کی اصلاح کرے اور جو کوتاہیاں ماضی میں سرزد ہوئیں ہیں ان پر تجدید نظر کرے اور اگر کوئی شخص یہ سوچ لے کہ توبہ کرکے اس کی ذمہ داری پوری ہوگئی تو اس کی یہ فکر غلط ہے بلکہ اگر کوئی شخص اپنے اعمال کو گذشتہ طریقہ سے انجام دیتا رہا تو توبہ سے اس کے گناہ پاک نہیں ہونگے بلکہ توبہ و استغفار و ندامت کے ساتھ ساتھ  ان اعمال کو بھی بجا لائے جو اس نے چھوڑے ہیں یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے اس نے غلطی کی ہے مثال کے طور اگر کوئی شخص کسی پاک دامن مرد یا عورت پر بے جا تہمت لگائے تو اسے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرنے کے علاوہ خود ان افراد کے سامنے جاکر یہ کہنا ہوگا کہ میں نے فلاں پر بے جا تہمت لگائی تھی وہ پاک دامن ہے اور یہ اقرار کرے کہ اس نے ان کی ہتک حرمت کی تھی اور وہ غلطی پر تھا پس جس شخص نے نماز قضا کی ہے اس کی توبہ یہ ہوگی کہ وہ اپنی قضا نمازوں کو ادا کرے  وہ شخص جس نے کسی کا مال لوٹا ہے تو اس کی توبہ یہ ہے کہ وہ اسے اس کا مال لوٹا دے۔اور اگر کسی نے علم کو شائع نہ کرکے حقائق کو چھپایا اور موجودہ نسلوں سے خیانت کی تو فقط اس کی توبہ اسی صورت قبول ہوسکتی ہے ہے کہ جب وہ ان حقائق کو سب کے سامنے ظاہر کرے چنانچہ روایت میں کہ جب رسول اللہ(ص) خطبہ شعبانیہ بیان فرما رہے تھے تو حضرت علی(ع) کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ(ص) اس مہینہ میں کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ ارشاد فرمایا:’’أفضل الأعمال فی هذا الشهر الورع عن مکارم الله‘‘۔ یا ابا الحسن! اس مہینہ میں سب سے افضل عمل یہ ہے کہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے اور پھر حضرت اسی خطبہ میں بدن انسانی کے تین اعضاء کانام لیتے ہیں کہ جو بہت سے گناہوں کا سبب قرار پاتے ہیں: اپنی زبان کوبچاؤ؛ اپنی آنکھوں کو بچاؤ اور اور اپنے کانوں کو ان آوازوں سے بچاؤ جن کا سننا جائز نہیں ہے۔
رمضان المبارک عبادت و بندگی کے لئے عظیم فرصت
یہ مہینہ انسان کو اللہ سے قریب کردیتا ہے چونکہ انسان اس مبارک مہینہ میں اس مقصد سے قریب ہوجاتا ہے جس کے لئے اسے خلق کیا گیا ہے اس مہینہ میں عبادت پر بہار آجاتی ہے اور جیسا کہ معلوم ہے کہ نماز و روزہ بندگی کی معراج ہے اور جو اس بندگی کو ڈھنگ سے انجام دے تو اس کے سانس اور سونا جاگنا بھی تسبیح بن جاتا ہے، چنانچہ رسول اللہ(ص) نے بھی روزہ داروں کو نوید دی ہے کہ اے روزہ داروں! اس مہینہ میں تمہارا سانس لینا تسبیح اور تمہارا سونا عبادت قرار دیا گیا ہے۔ اس مرحلہ پر چند نکات کی طرف توجہ ضروری ہے:
۱۔ دین اسلام کی نظر میں لفظ عبادت دو معنیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
الف: عبادت کے خاص معنیٰ: یعنی ایسے اعمال کہ جن کا بغیر قصد قربت کے انجام دینا صحیح نہیں ہیں جیسا کہ غسل کرنا ، وضو کرنا، یا نماز پڑھنا و روزہ رکھنا ،حج کو جانا وغیرہ۔
ب: عبادت کے عام معنیٰ: ایسے اعمال کہ جن کی قبولیت میں نیت اور قصد قربت کا ہونا شرط نہیں ہے  البتہ ان اعمال و افعال پر ثواب و جزا پانے کے لئے ان میں قصد قربت ضروری ہوتا ہے۔
پس ان دو معیار کی روشنی میں بہت سے اعمال عبادت کے دائزہ میں داخل ہوجاتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید کی تلاوت کرنا، مسجد میں جانا، حلال رزق کی تلاش کرنا، ذکر، استغفار، ترک گناہ، بیماری کا تحمل، قرآن مجید پر نگاہ، کعبہ کو دیکھنا، والدین کی زیارت ، پاک دامنی وغیرہ وغیرہ لہذا یہ سب اعمال عبادت کے دائرہ میں آجاتے ہیں۔
۲۔ دوسرا نکتہ جس پر توجہ کی اشد ضرورت ہے کہ کوئی بھی عبادت اس وقت اللہ کی بارگاہ میں قبولیت کے لائق بنتی ہے کہ جب اس میں حرام مال کی قطعاً کوئی آمیزش نہ ہو پس وہ انسان جس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی حلال و حرام کی تفریق نہ کی ہو تو اسے اپنی عبادتوں سے قبولیت کی توقع نہ کرنی چاہیئے بلکہ اسے چاہیئے کہ وہ پہلے اپنا مال کو پاک کرے ۔
۳۔ اسلام کی نظر میں استمرار اور مستقل مزاجی کے ساتھ کیا جانے والا چھوٹا سا عمل بھی اس بہت بڑے عمل سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے جو کبھی کبھی اور خاص مواقع پر انجام دیا جاتا ہو۔ لہذا مؤمنین کے لئے مناسب ہے کہ وہ اپنی توان و حالات کے مطابق واجب اعمال کے علاوہ کوئی نہ کوئی مستحب عمل ایک سال تک انجام دے چنانچہ امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا: جب کوئی شخص کسی عبادت میں داخل ہونا چاہے تو اسے ایک برس تک انجام دے اور پھر اگر چاہے تو دوسری عبادت کا رخ کرے۔
۴۔ چوتھی اور آخری نکتہ یہ ہے اور جس پر آئمہ معصومین(ع) نے بہت تأکید کی ہے کہ عبادت میں بھی میانہ روی کا خیال رکھا جائے اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔ جس طرح عبادت اور اطاعت پروردگار میں سستی و بے توجہی درست نہیں ہے ویسے ہی افراط اور زیادہ روی کے بھی مطلوب اثرات مرتب نہیں ہوتے چونکہ ممکن ہے اس کے سبب کچھ افراد کے حوصلے ہی پست ہوجائیں۔
 


0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین