ولایت پورٹل: قارئین کرام! ہم نے اسی موضوع پر پچھلے کالم میں یہ عرض کیا تھا کہ کسی بھی رہبر اور پیشوا کی حیثیت اور اس کی قدر و قیمت اس کے پیروکاروں سے پہچانی جاتی ہے اور اصطلاح کے مطابق صاحب مزار کو اس کے زائرین سے پہچانا جاتا ہے۔اب جن لوگوں کی نگاہیں ظاہر بین ہوتی ہیں وہ ظاہری مال و متاع کو عزت کا سبب اور ملاک جانتے ہیں اور جن کے پاس مال و ثروت نہیں ہوتا انہیں وہ صاحب عزت نہیں سمجھتے کچھ ایسا ہی حال جناب نوح علیہ السلام کی قوم کا تھا۔چونکہ آپ پر سب سے پہلے ایمان لانے والے لوگ معاشرے فقیر،تنگدست اور دبے کچلے تھے لہذا آپ کی قوم کے اکثر افراد آپ کو یہی طعنہ دیا کرتے تھے کہ:جب ہم تمہارے پیروکاروں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں چند ایک بے بضاعت، گمنام، فقیر اور غریب لوگ ہی نظر آتے ہیں جن کا سلسلہ روزگار بھی نہایت ہی معمولی ہے تو پھر ایسی صورت میں تم کیسے امید کرسکتے ہو کہ مشہور و معروف دولت مند اور نامی گرامی لوگ تمہارے سامنے سر تسلیم خم کرلیں گے ۔۔؟!!
گذشتہ کالم کو پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کیجئے:
خود ساختہ معیار کے سہارے قوم نوح(ع) کا ایمان نہ لانا
گذشتہ سے پیوستہ: قرآن مجید میں ان بہانا جو اور افسانہ ساز افراد کو حضرت نوح(ع) کی طرف سے دیئے گئے جوابات ذکر کئے گئے ہیں پہلے ارشاد ہوتا ہے:
اے قوم! میں اپنے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل اور معجزہ کا حامل ہوں اور اس نے اس رسالت و پیغام کی انجام دہی کی وجہ سے اپنی رحمت میرے شامل حال کی ہے اور یہ امر اگر عدم توجہی کی وجہ سے تم سے مخفی ہو تو کیا پھر بھی تم میری رسالت کا انکار کرسکتے ہو اور میری پیروی سے دست بردار ہوسکتے ہو‘‘۔
یہ جواب قوم نوح کے مستکبرین کے تین سوالوں میں سے کس کے ساتھ مربوط ہے؟ مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے لیکن غور و خوض سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ جامع جواب تینوں اعتراضات کا جواب بن سکتا ہے کیونکہ ان کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ تم انسان ہو آپ نے فرمایا یہ بجا ہے کہ میں تمہاری طرح کا ہی انسان ہوں لیکن اللہ تعالٰی کی رحمت میرے شامل حال ہوئی ہے اور اس نے مجھے کھلی اور واضح نشانیاں دی ہیں اس بناء پر میری انسانیت اس عظیم رسالت سے مانع نہیں ہوسکتی اور یہ ضروری نہیں کہ میں فرشتہ ہوتا۔
ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ تمہارے پیروکار بے فکر اور ظاہر بین افراد ہیں آپ نے فرمایا تم بے فکر اور بے سمجھ ہو جو اس واضح حقیقت کا انکار کرتے ہو حالانکہ میرے پاس ایسے دلائل موجود ہیں جو ہر حقیقت کے متلاشی انسان کے لئے کافی ہیں اور اسے قائل کرسکتے ہیں مگر تم جیسے افراد جو غرور ،خود خواہی، تکبر اور جاہ طلبی کا پردہ اوڑھے ہوئے ہیں ان کی حقیقت بین آنکھ بیکار ہوچکی ہے۔
ان کا تیسرا اعتراض یہ تھا کہ وہ کہتے تھے: ہم کوئی برتری اور فضیلت تمہارے لئے اپنی نسبت نہیں پاتے ، آپ نے فرمایا: اس سے بالاتر کون سی برتری ہوگی کہ خدا نے اپنی رحمت میرے شامل حال کی ہے اور واضح مدارک و دلائل میرے اختیار میں دیئے ہیں اس بنا پر ایسی کوئی وجہ نہیں کہ تم مجھے جھوٹا خیال کرو کیونکہ میری گفتگو کی نشانیاں ظاہر ہیں۔
کیا میں تمہیں اس ظاہر بظاہر بینہ کے قبول کرنے پر مجبور کرسکتا ہوں جبکہ تم خود اس پر آمادہ نہیں ہو اور اسے قبول کرنا بلکہ اس کے بارے میں غور و فکر کرنا بھی پسند نہیں کرتے ہو‘‘۔
اپنی بہانہ باز قوم کو حضرت نوح(ع) کا جواب
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اس سے بالاتر کون سی برتری ہوگی کہ خدا نے اپنی رحمت میرے شامل حال کی ہے اور واضح مدارک و دلائل میرے اختیار میں دیئے ہیں اس بنا پر ایسی کوئی وجہ نہیں کہ تم مجھے جھوٹا خیال کرو کیونکہ میری گفتگو کی نشانیاں ظاہر ہیں۔کیا میں تمہیں اس ظاہر بظاہر بینہ کے قبول کرنے پر مجبور کرسکتا ہوں جبکہ تم خود اس پر آمادہ نہیں ہو اور اسے قبول کرنا بلکہ اس کے بارے میں غور و فکر کرنا بھی پسند نہیں کرتے ہو‘‘۔

wilayat.com/p/666
متعلقہ مواد
فکر قرآنی:صاحبان ایمان کے متعلق جناب نوح(ع) کا فیصلہ
فکر قرآنی:قرآن مجید کی روشنی میں شہید کی عظمت
فکر قرآنی:امن عالم کا قرآنی منشور
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین