ولایت پورٹل: قارئین کرام! جناب نوح سے متعلق ہم نے مسلسل کئی آرٹیکلس میں یہ بیان کیا تھا کہ جناب نوح نے تقریباً 950 برس تبلیغ کی اور اپنی قوم کو سمجھایا لیکن اس قوم کے ثروت مند جناب نوح سے اس وجہ سے نالاں تھے کہ آپ پر ایمان لانے والے تو غریب و نادار طبقہ ہے لہذا ہم آپ کی بات نہیں سن سکتے۔ ہم اس شرط پر آپ کی بات مان سکتے ہیں کہ آپ اپنے اطراف سے ان غریب و نادار لوگوں کو دھتکار دیں لیکن جناب نوح علیہ السلام ان کے منشأ کو پرکھ گئے کہ یہ لوگ ایمان تو نہیں لائیں گے لیکن ان مخلص لوگوں کو بھی دین سے دستبردار بنا دیں گے تو اللہ کے نبی نے بڑے واضح انداز میں ان سے کہہ دیا کہ مجھے تم لوگوں سے اس تبلیغ کا کوئی معاوضہ نہیں چاہیئے اور نہ مجھے تم سے کوئی لالچ ہے لہذا میں کسی صاحب ایمان کو اپنے پاس سے دھتکار نہیں سکتا۔ آپ نے اپنی قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ مال و دولت وقتی نعمتیں ہیں ہوسکتا ہے آج تمہارے پاس ہے کل کسی اور کے پاس چلی جائے لہذا کسی انسان کی برتری کا معیار مال اور دولت نہیں ہوسکتا اور نیز کوئی یہ بھی تصور نہ کرے کہ میں نبی خدا ہوں تو میں انسان نہیں رہ گیا یا کوئی فرشتہ ہوگیا؟ نہیں مجھ میں تم لوگوں سے زیادہ یہ برتری ہے کہ مجھ پر اللہ کی وحی ہوتی ہے اور اس نے مجھے اعجاز نوازا ہے اور بس۔میں کسی غریب کو مالدار کیسے بنا سکتا ہوں یہ تو اللہ کے اختیار میں ہے کہ کسے غریب رکھنا ہے اور کسے مالدار بنانا ہے۔آئیے آیت قرآنی کے سہار حضرت نوح (ع) کی اس حجت کا ملاحظہ فرمائیے جو آپ نے اپنی قوم کے سامنے پیش کی۔
گذشتہ سے پیوستہ: اپنی قوم کے مہمل اعتراضات کے جواب میں حضرت نوح(ع) آخری بات کہتے ہیں کہ اگر تم خیال کرتے ہو اور یہ توقع رکھتے ہو کہ وحی اور اعجاز کے سوا میں تم پر کوئی امتیاز یا برتری رکھتا ہوں تو یہ غلط ہے میں صراحت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں : وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ‘‘۔۔(۱)
ترجمہ: اور میں تم سے یہ بھی نہیں کہتا ہوں کہ میرے پاس تمام خدائی خزانے موجود ہیں اور نہ ہر غیب کے جاننے کا دعوٰی کرتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔
ظاہر ہے ایسے بڑے اور جھوٹے دعوے جھوٹے مدعیوں کے ساتھ مخصوص ہیں اور ایک سچا پیغمبر کبھی ایسے دعوے نہیں کرے گا کیوں کہ خدائی خزانے اور علم غیب صرف خدا کی پاک ذات کے اختیار میں ہیں اور فرشتہ ہونا بھی ان بشری احساسات سے موافقت و مناسبت نہیں رکھتا لہذا جو شخص ان تین میں سے کوئی ایک دعوی کرے یا یہ سب دعوے کرے تو یہ اس کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے۔
آخر میں دوبارہ مستضعفین کا ذکر کرتے ہوئے تأکیداً کہا گیا ہے:’’وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَن يُؤْتِيَهُمُ اللَّـهُ خَيْرًا ‘‘۔(۲)
ترجمہ: میں ہر گز ان افراد کے بارے میں کہ جو تمہاری نگاہوں میں ذلیل ہیں ،یہ نہیں کہتا ہوں کہ خدا انہیں خیر نہ دے گا – بلکہ اس کے برعکس اس دنیا اور اس عالم کی خیر انہیں کے لئے ہے اگرچہ اللہ ان کے دلوں سے خوب باخبر ہے۔میں ایسا کہہ دوں گا تو ظالموں میں شمار ہوجاؤں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
سورہ ہود، آیت ۳۱۔
حضرت نوح(ع) کا اپنی قوم کے مالداروں سے خطاب
حضرت نوح(ع) اپنی قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ مال و دولت وقتی نعمتیں ہیں ہوسکتا ہے آج تمہارے پاس ہے کل کسی اور کے پاس چلی جائے لہذا کسی انسان کی برتری کا معیار مال اور دولت نہیں ہوسکتا اور نیز کوئی یہ بھی تصور نہ کرے کہ میں نبی خدا ہوں تو میں انسان نہیں رہ گیا یا کوئی فرشتہ ہوگیا؟ نہیں مجھ میں تم لوگوں سے زیادہ یہ برتری ہے کہ مجھ پر اللہ کی وحی ہوتی ہے اور اس نے مجھے اعجاز نوازا ہے اور بس۔میں کسی غریب کو مالدار کیسے بنا سکتا ہوں یہ تو اللہ کے اختیار میں ہے کہ کسے غریب رکھنا ہے اور کسے مالدار بنانا ہے۔آئیے آیت قرآنی کے سہار حضرت نوح (ع) کی اس حجت کا ملاحظہ فرمائیے جو آپ نے اپنی قوم کے سامنے پیش کی۔

wilayat.com/p/3917
متعلقہ مواد
فکر قرآنی:قرآن مجید اور جناب عیسیٰ(ع) کا تعارف
فکر قرآنی:خوشگوار زندگی کے 3 اہم قرآنی اصول
فکر قرآنی:نعمت اور امتحان؟
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین