جدید میدان نبرد میں قدیم ہتھیاروں سے فتح ممکن نہیں

لیکن جب آج جنگ کی نوعیت تبدیل ہوچکی ہے۔اب وہ پرانے ہتھیار کام نہیں آئیں گے آج دشمن کے پاس افکار کو مسمار کرنے کے تخریبی ہتھیار ہیں اور اب جنگ کسی میدان میں نہیں بلکہ خود ہمارے گھروں تک پہونچ چکی ہے لہذا ہمیں بیدار ہونا پڑے گا ہمیں وہ اسلام کی عظیم میراث علم و حکمت،دانائی اور بصیرت کے چراغ لیکر ان اندھیروں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔دشمن اسلامی معاشرہ کے زوال کی خاطر ہزاروں طرح کے تخریبی سٹرلائیٹ چینلز،ویب سائیٹس،گیم،سوشل میڈیا کے پیچیدہ سسٹم سے لیس ہوکر ہمارے گھروں میں گھس آئیں ہیں آج مسلمان اور خاص طور پر مفکرین،دانشور اور علماء کو ان کے مقابلہ کے لئے ایک جامع لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا ورنہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ دشمن کے ہتھیار،خود ہمارے اپنوں ہی کے ہاتھوں ہمیں نابود کردیں۔

ولایت پورٹل: قارئین کرام! آپ نے بارہا اسلام کے مخالفوں سے یہ اعتراض سنا ہوگا کہ اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلا لہذا اسلام میں محبت کی کوئی گنجائش نہیں ہے؟؟؟
اور چونکہ اس اعتراض میں جس مغالطہ سے کام لیا گیا ہے ہم اکثر مسلمان اس سے واقت نہیں ہوتے تو ہم طرح طرح کی توجیہ کرنے لگتے ہیں اور اپنے تئیں یہ ثابت کرنے کی مکمل کوشش کرتے ہیں کہ اسلام ہی درحقیقت محبت کا دین ہے۔(سعیکم مشکوراً)۔
ہاں! اسلام شمشیر کا دین ہے لیکن اس کی شمشیر کسی کی ناحق جان لینے اور کسی کا ناحق خون بہانے کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ شمشیر ہمیشہ حق کا دفاع کرنے کے لئے نیام سے باہر آتی ہے کبھی یہ مسلمین کی جان سے دفاع کرتی ہے کبھی مال سے اور کبھی مسلمان ممالک کی سرحدوں کا دفاع کرتی ہے۔
اسلام ہمیشہ اس امر کا پابند ہے کہ جہاں بھی عقیدہ توحید پر خطرہ منڈلانے لگے تو یہ تلوار توحید کے دفاع کا معرکہ سرانجام دے گی چونکہ توحید انسانیت کے لئے سب سے عزیز و گرانقدر سرمایہ ہے۔
اور اپنے حقوق کا دفاع کرنے کے لئے دنیا کے ہر ملک اور معاشرہ کا یہ اصول ہے کہ صاحب حق کو اپنا دفاع کرنے کا پورا حق ہے۔ آج جو لوگ انسانی حقوق کا دم بھرتے ہیں وہ ایک ملک کو صرف اس وجہ سے کہ وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لئے ان کے من گھڑت کسی قانون کی اتباع نہیں کرتا بلکہ اسلام کی پیروی کرتا ہے تو اسے شدت پسند خونگر یا انسانی حقوق کے پامال کرنے والے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ہمارا ان سے سوال یہ ہے کہ اگر کوئی لٹیرا رات کے وقت آپ کے گھر پر حملہ کردے یا آپ کی جان کو نقصان پہونچانا چاہے تو کیا آپ اپنی حفاظت کے لئے کچھ بھی نہیں کریں گے؟ یا ہاتھ پہ ہاتھ دھرے اپنے گھر کو لٹتا ہوا اور اقرباء کی جانوں کو ضائع ہوتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں؟
ظاہر ہے عملاً یہ لوگ بھی وہی کرتے ہیں جو اسلام کا دستور ہے کہ جب کسی کے مال ،جان یا ناموس کے لئے خطرہ ہو تو اسے مکمل حق اور اختیار ہے کہ وہ اپنا دفاع کرے ۔لہذا اسلام کا یہ آفاقی قانون ہر دور اور ہر زمانے کے لئے ہے کہ اگر کوئی قوم مسلمانوں کی جان مال اور آبرو پر حملہ ور ہوجائے تو اسلام یہ حق دیتا کہ بہادر شیروں کی طرح تلوار سونت کر میدان نبرد میں اترا جائے۔
لہذا صدر اسلام میں اکثر لڑی گئی جنگیں دفاعی حیثیت رکھتی تھیں خود رسول اللہ(ص) نے کسی سرزمین پر بغیر وجہ کے حملہ نہیں کیا بلکہ جتنی جنگیں لڑی وہ کسی نہ کسی پس منظر میں لڑی گئیں۔
اپنے پیروکار کو اسلام کی یہ تأکید ہے کہ اسے تلوار کا دھنی ہونا چاہیئے اور یہ اس پر فرض ہے۔چونکہ ہمیشہ سے مسلمانوں پر کفار و شرپسند عناصر کی یلغار رہی ہے فرق بس اتنا ہے کہ کل زیادہ تر جنگیں تلواروں اور نیزوں سے لڑی جاتی تھیں لیکن آج جنگی معرکے تبدیل ہوچکے ہیں کل جب کسی میدان میں جنگ ہوتی تھی تو اس وقت تلواروں اور نیزوں،بھالوں کی ضرورت تھی لیکن آج جب جنگوں کا دائرہ میدان کے ساتھ ساتھ شہر کی فصیلوں تک پہونچ چکا ہے تو اب ہتھیار بھی ویسے ہی ہونے چاہیئے۔ کل جنگوں کے خاص میدان ہوتے تھے اور دشمن کا مقابلہ وہیں کرنا پڑتا تھا تو اس وقت جس کے بازوؤں میں زیادہ دم ہوتا تھا وہ جنگ کا فاتح قرار پاتا تھا اور تاریخ گواہ ہے مسلمان ایسی جنگوں کے مسلّم فاتح تھے اور انن کے سامنے مشرق و مغرب کے بڑے بڑے سورما نہیں ٹہرتے تھے۔
لیکن جب آج جنگ کی نوعیت تبدیل ہوچکی ہے۔اب وہ پرانے ہتھیار کام نہیں آئیں گے آج دشمن کے پاس افکار کو مسمار کرنے کے تخریبی ہتھیار ہیں اور اب جنگ کسی میدان میں نہیں بلکہ خود ہمارے گھروں تک پہونچ چکی ہے لہذا ہمیں بیدار ہونا پڑے گا ہمیں وہ اسلام کی عظیم میراث علم و حکمت،دانائی اور بصیرت کے چراغ لیکر ان اندھیروں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
وہ اسلامی معاشرہ کے زوال کی خاطر ہزاروں طرح کے تخریبی سٹرلائیٹ چینلز،ویب سائیٹس،گیم،سوشل میڈیا کے پیچیدہ سسٹم سے لیس ہوکر ہمارے گھروں میں گھس آئیں ہیں آج مسلمان اور خاص طور پر مفکرین،دانشور اور علماء کو ان کے مقابلہ کے لئے ایک جامع لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا ورنہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ دشمن کے ہتھیار،خود ہمارے اپنوں ہی کے ہاتھوں ہمیں نابود کردیں۔




0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین