ابن تیمیہ کا تعارف

ابن تیمیہ کا پورا نام ابو العباس احمد بن عبد الحلیم حرّانی تھا اور ابن تیمیہ کے نام سے مشہور تھا، وہ ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کے مشہور ومعروف حنبلی علماء میں سے تھا لیکن چونکہ اس کے نظریات اور عقائد دوسرے تمام مسلمانوں کے برخلاف تھے جن کو وہ ظاہر کرتا رہتا تھا جس کی بنا پر دوسرے علماء اس کی سخت مخالفت کرتے تھے، اسی وجہ سے وہ مدتوں تک قید خانے میں بند رہا اور سختیاں برداشت کرتا رہا، چنانچہ اسی شخص کے نظریات اور عقائد بعد میں وہابیوں کی اصل اور بنیاد قرار پائے۔

ولایت پورٹل: قارئین کرام! ہم آج آپ کی خدمت میں فرقہ وہابیت کے ستون اور مورث اعلٰی ابن تیمیہ کی زندگی کا مختصر تعارف پیش کر رہے ہیں تاکہ بعد میں ہم اس کے بتائے ہوئے عقائد کو صحیح طرح سے سمجھ سکیں۔
ابن تیمیہ کا پورا نام ابو العباس احمد بن عبد الحلیم حرّانی(پیدائش:۶۶۱ ہجری ،انتقال:۷۲۸ ہجری) تھا اور ابن تیمیہ کے نام سے مشہور تھا، وہ ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کے مشہور ومعروف حنبلی علماء میں سے تھا لیکن چونکہ اس کے نظریات اور عقائد دوسرے تمام مسلمانوں کے برخلاف تھے جن کو وہ ظاہر کرتا رہتا تھا جس کی بنا پر دوسرے علماء اس کی سخت مخالفت کرتے تھے، اسی وجہ سے وہ مدتوں تک قید خانے میں بند رہا اور سختیاں برداشت کرتا رہا، چنانچہ اسی شخص کے نظریات اور عقائد بعد میں وہابیوں کی اصل اور بنیاد قرار پائے ہیں۔
ابن تیمیہ کے حالات زندگی دوستوں اور دشمنوں دونوں نے لکھے ہیں اور ہر ایک نے اپنی نظر کے مطابق اس کاتعارف کروایا ہے، اسی طرح بعض مشہور علماء نے اس کے عقائد اور نظریات کے بارے میں کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں سے بعض اب بھی موجود ہیں، اس سلسلہ میں جو سب سے قدیم اور پرانی کتاب لکھی گئی ہے اور جس میں ابن تیمیہ کے حالات زندگی کو تفصیل کے ساتھ لکھ اگیا ہے اور اس کی بہت زیادہ عظمت و اہمیت بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے، وہ ابن کثیر کی کتاب ’’البدایہ و النہایہ‘‘ ہے ،اسی طرح عمر بن الوَردی نے اپنی تاریخی کتاب میں، صلاح الدین صفدی نے اپنی کتاب ’’الوافی بالوفَیات‘‘ میں ، ابن شاکر نے ’’فوات الوفَیات‘‘ میں اور ذہبی نے اپنی کتاب ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘میں ابن تیمیہ کی بہت زیادہ تعریف وتمجید کی ہے۔(۱)
لیکن دوسری طرف بہت سے لوگوں نے اس کے عقائد و نظریات کی سخت مذمت اور مخالفت کی ہے، مثلاً ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامہ ’’تحفۃ النُظّار‘‘ میں، عبد اللہ بن اسعد یافعی نے ’’مرآۃ الجنان‘‘  میں، تقی الدین سبکی(آٹھویں صدی ہجری کے علماء میں سے) نے’’ شفاء السِقام فی زیارۃ خیر الانام ‘‘ اور’’ درّۃ المفیدہ فی الردّ علی ابن تیمیہ‘‘  میں ، ابن حجر مکی نے کتاب ’’جوھر المنظم فی زیارۃ قبر النبی المکرم‘‘ اور ’’الدُّرَرُ الکامنۃ فی اعیان المأۃ الثامنۃ‘‘ میں، عز الدین بن جماعہ اور ابو حیان ظاہری اندلسی ، کمال الدین زَملکانی (متوفی:۷۲۷ہجری)۔(۲) نے کتاب ’’ الدّرَۃُ المضیئۃ فی الرد علی ابن تیمیہ‘‘ حاج خلیفہ کی’’ کشف الظنون‘‘  کی تحریر کے مطابق، ان تمام لوگوں نے ابن تیمیہ کی سخت مخالفت کی ہے اور اس کے عقائد کو ناقابل قبول کہا ہے۔
قاضی اِخنائی۔(۳) (ابن تیمیہ کے ہم عصر)نے’’ المقالۃ المرضیۃ‘‘ میں اور دوسرے چند حضرات نے بھی ابن تیمیہ کی شدت کے ساتھ مخالفت کی ہے اور اس کے عقائد کی سخت مذمت کرتے ہوئے ان کو مسترد اور ناقابل قبول جانا ہے۔(۴)
اسی زمانہ میں ابن تیمیہ نے (نبی اکرم (ص) سے) استغاثہ کا انکار کیا،اس پر اس کے ہم عصر عالم علی ابن یعقوب بکری(متوفی:۷۲۴ہجری) نے آنحضرت(ص) سے استغاثہ کے سلسلہ میں ایک کتاب لکھی جس میں اس بات کو ثابت کیا کہ جن موارد میں خداوندعالم سے استغاثہ کیا جاسکتا ہے ان میں آنحضرت(ص) سے بھی استغاثہ کرنا جائز ہے۔ ابن تیمیہ نے اس کتاب کی ردّ میں ایک کتاب لکھی جو اس وقت بھی موجود ہے۔(۵)
ابن تیمیہ کے ایک اور ہم عصر بنام شیخ شہاب الدین بن جُہبُل (شافعی) متوفی  ۷۳۳ ہجری نے ایک رسالہ لکھا جس میں خداوندعالم کے لئے جہت وسمت کو مضبوط ومحکم دلیلوں کے ذریعہ مسترد اور باطل قرار دیاہے۔(۶)
ابن تیمیہ کے طرفدار لوگ کہتے ہیں:چونکہ ابن تیمیہ بہت سے علوم اور قرآن وحدیث میں مہارت رکھتا تھا جس کی بناپر اس وقت کے حکمراں اور بادشاہ نیز دیگر علماء اس کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اور اس کی اہمیت کے قائل تھے، اسی وجہ سے دوسرے علماء کو اس سے حسد ہونے لگی جس کی وجہ سے اس کے عقائد کو فاسد اور کفر آمیز کہنے لگے۔
ابن تیمیہ کے مخالف افراد کہتے ہیں: اس نے مسلمانوں کے اجماع کے خلاف اپنی آواز اٹھائی اور وہ خداوندعالم کے دیدار اور اس کے لئے جہت وسمت کا قائل ہوا، نیز اولیاء اللہ کی قبور کی زیارت سے ممانعت کی، وغیرہ وغیرہ۔
متأخرین میں بھی ابن تیمیہ کے طرفدار اور مخالفوں نے ابن تیمیہ کے حالات زندگی پر کتابیں لکھی ہیں فارسی زبان میں اب تک جو کتابیں اس کے بارے میں لکھی گئی ہیں ’’کتابنامۂ دانشوران‘‘ میں ان کتابوں کو شمار کیا گیا ہے۔
عصر حاضر میں عرب کے ایک مشہور مؤلف محمد ابو زَہرہ نے ’’ابن تیمیہ حیاتہ وعصرہ وآرائہ وفقہہ‘‘ نامی کتاب لکھی جس میں ابن تیمیہ کے حالات زندگی کو تفصیل کے ساتھ لکھا ہے،اور اس کے احوال زندگی کے تفصیلی اور دقیق گوشوں کے علاوہ اس کے عقائد اور نظریات کا بھی تجزیہ وتحلیل کیا ہے۔
ہندوستانی دانشوروں میں ابو الحسن علی الحسنی ندوی نے بھی اردو زبان میں ’’خاصٌ بحیاۃِ شیخ الاسلام الحافظ احمد بن تیمیہ‘‘نامی کتاب سن ۱۳۷۶ ہجری میں لکھی ہے جس کاسعید الاعظمی ندوی نے عربی میں ترجمہ کیا ہے جو سن ۱۳۹۵ ہجری میں کویت سے شائع ہوچکی ہے، یہ کتاب ابن تیمیہ کے حالات زندگی اور عقائد ونظریات پر مشتمل ہے۔
محمد بہجۃ البیطار نامی شخص نے بھی حیاۃ الشیخ الاسلام ابن تیمیہ نامی کتاب لکھی ، جو ۱۳۹۲ ہجری میں لبنان سے شائع ہوچکی ہے۔
ابن تیمیہ کے حالات زندگی کا خلاصہ مختلف کتابوں اور منابع کے پیش نظر اس طرح ہے:’’ابن تیمیہ ربیع الاول سن ۶۶۱ ہجری کو حَرّان(عراق کے مُضَرنامی علاقہ) میں پیدا ہوا، اس کا باپ حنبلیوں کے بڑے عالموں میں سے تھا جو مغلوں کے ظلم وستم کی وجہ سے شام چلا گیا تھا۔
ابن تیمیہ کے والد بیس سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور ابن تیمیہ نے اپنے باپ کی جگہ تدریس کا عہدہ سنبھالا، اور سن ۶۹۱ ہجری میں حج کے لئے گیا۔
چند سال بعد جس وقت وہ قاہرہ میں قیام پذیر تھا اس نے خداوندعالم کے صفات کے بارے میں ایک انوکھا فتویٰ دیا جس کی بناپر اس وقت کے علماء مخالفت کرنے لگے، جس کے نتیجہ میں اس کو تدریس کے عہدہ سے محروم کردیا گیا، اسی طرح اس نے سیدۃ نفیسہ(حضرت امام حسین(ع) کی اولاد میں سے مصر میں ایک قبر ہے جس کی مصریوں کے نزدیک بہت زیادہ اہمیت ہے)کے بارے میں کچھ کہا جس کی بناپر عوام الناس بھی اس سے برہم ہوگئے۔(۷)
اسی زمانہ میں اسے لوگوں کو مغلوں سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ کرنے پر مأمور کیا گیا جس کی بناپر وہ شام چلا گیا اور چند جنگوں میں شرکت کی۔
سن ۶۹۹ ہجری میں اس نے غازان خان مغل کے مقابلہ میں ایک زبردست اقدام کیا اور لوگوں کو مغل سپاہیوں سے (جو شام تک پہونچ چکے تھے) لڑنے کے لئے بہت زیادہ جوش دلایا۔(۸)
ابن تیمیہ کی غازان خان سے ملاقات
جس وقت غازان خان دمشق کے نزدیک پہنچا تو دمشق کے لوگ کافی حیران وپریشان تھے، یکم ربیع الاول سن ۶۹۹ ہجری بروز شنبہ ظہر کے وقت شہر دمشق سے نالہ و فریاد کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ عورتیں بے پردہ گھروں سے نکل پڑیں اور مرد دکانیں چھوڑ چھوڑ کر بھاگ نکلے، ان حالات میں لوگوں نے قاضی القضاۃ اور شیخ الاسلام تقی الدین سبکی ابن تیمیہ اور شریف زین الدین۔(۹)نیز دیگر بڑے بڑے امراء اور فقہاء کو غازان کے پاس امان کی در خواست کرنے کے لئے بھیجا ۔ جس وقت لوگوں کے یہ تمام نمائندے ’’بُنْک‘‘ نامی جگہ پر غازان کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ گھوڑے پر سوار چلا آرہا ہے ، یہ تمام لوگ اس کے سامنے زمین پر اتر آئے اور ان میں سے بعض لوگ زمین پر جھک کربوسہ دینے لگے ۔ غازان رکا، اور اس کے بعض ساتھی گھوڑوں سے اترگئے، اہل دمشق کے نمائندوں نے کسی ایک مترجم کے ذریعہ اس سے امان کی درخواست کی اور اپنے ساتھ لائی ہوئی غذا پیش کی، جس پر غازان نے کوئی توجہ نہ کی، لیکن امان کی درخواست کو قبول کرلیا۔(۱۰)
ابن تیمیہ کی مغلوں سے دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب مغل بیت المقدس کے قرب و جوار میں تباہی اور غارت گری کے بعد دمشق لوٹے، تو ان کے ہمراہ بہت سے اسیربھی تھے اس موقع پر بھی ابن تیمیہ نے ان سے اسیروں کی رہائی کی درخواست کی، چنانچہ ان کو رہا کردیا گیا۔(۱۱)
جس وقت مغل دمشق سے باہر نکل آئے،اور امیر اَرجْوُاس وہاں کا حاکم ہوا ،تو اس نے ابن تیمیہ کے کہنے کی وجہ سے مغلوں کے بنائے ہوئے شراب خانوں کو بند کرادیا، شراب کو زمین پر بہا دیا اور شراب کے ظروف توڑ ڈالے۔(۱۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ذہبی نے ایک خط میں( جس کا علامہ امینی(رح) نے اپنی کتاب الغدیر ج۵، ص ۸۷ پر تذکرہ کیا ہے ،ابن تیمیہ کے عقائد کے سلسلہ میں جو مسلمانوں میں شدید اختلاف کا سبب ہوئے) اس کو نصیحت کی ہے۔ اور جیسا کہ ذہبی کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابن تیمیہ کے عقائد و نظریات سے زیادہ متفق نہیں تھے چنانچہ انہوں نے اپنی کتاب’’ العبر‘‘ میں ابن تیمیہ کے عقائد وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے( جو علمائے کرام کی مخالفت کا سبب بنے) انہیں فتبہ و فساد سے تعبیر کیا ہے۔ص ۳۰۔
۲۔سکی کی تحریر اس طرح ہے: زملکانی نے ابن تیمیہ کی ردّ میں دو مسئلوں( طلاق و زیارت) کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے۔(طبقات الشافعیۃ،ج۹،ص ۱۹۱)۔
۳۔اخناء، مصر کا ایک قدیمی شہر ہے۔
۴۔مجموعۃ الرسائل،ج۱، ص ۴۱۵ تا آخر۔
۵۔فتح المجید،ص ۲۳۰۔
۶۔طبقات الشافعیۃ،ج۹، ص ۳۵۔
۷۔صفدی،ج۷،ص۱۹۔
۸۔ابن شاکر،ج۱، ص ۷۲۔
۹۔زین الدین سے مراد، شریف زین الدین قمی ہے۔ جسے غازان خان نے دوسرے تین افراد کے ساتھ دمشق کے لئے روانہ کیا تھا۔(السلوک، ج۱،باب ۳، ص ۸۹۰)۔
۱۰۔مقریزی ، در السلوک،ج ۱،باب ۳،ص۸۸۹۔
۱۱۔سابق حوالہ،ص ۸۹۶۔
۱۲۔سابق حوالہ،ص ۹۰۰۔


0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین