ولایت پورٹل: حضرت علی(ع) کی امامت کی دلیلیں(قرآن وسنت وغیرہ میں)بہت زیادہ ہیں اس لئے اس مقام پر انہیں تفصیل کے ساتھ پیش نہیں کیا جاسکتا ہے،آئندہ صفحات میں مناسب مقام پر ہم اس مسئلہ کے بارے میں گفتگو کریں گے اس جگہ ہم متعدد دلیلوں میں سے صرف ایک دلیل جو سب سے پہلی دلیل ’’حدیث یوم الدار‘‘ کی وضاحت پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔
محدثین ،مورخین اور مفسرین کے مطابق جب رسول اکرم(ص) کے اوپر آیۂ’’وَأَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ‘‘۔(۱)نازل ہوئی تو آنحضرت(ص) نے اپنے رشتہ داروں کو جناب ابوطالب کے گھر میں جمع کیا جن کی تعداد تقریباً چالیس تھی،جب وہ لوگ کھانے سے فارغ ہوچکے تو پیغمبر اکرم(ص) نے ان لوگوں تک اپنا پیغام پہنچایا اور فرمایا:’’اے اولاد عبد المطلب! خدا کی قسم عربوں کے درمیان میں ایسے کسی جوان کو نہیں پہچانتا ہوں کہ جو اپنی قوم کے لئے اس سے بہتر چیز لایا ہو جو کچھ میں تمہارے لئے لایا ہوں،میں تمہارے لئے ایسی چیز لایا ہوں جس میں تمہاری دنیا وآخرت دونوں کی بھلائی ہے،خداوندعالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ تمہیں توحید کی طرف دعوت دوں تم لوگوں میں سے جوشخص بھی اس سلسلہ میں میرا تعاون کرے گا وہ میرا بھائی،وصی اور جانشین ہوگا‘‘۔
پیغمبر اکرم(ص) کی گفتگو تمام ہوگئی۔سب لوگ خاموش رہے ،اچانک حضرت علی(ع) اٹھے اور فرمایا:’’اے پیغمبر اس سلسلہ میں میں آپ کا تعاون کروں گا۔‘‘پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی(ع) ؑ کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا : ’’یہ تمہارے درمیان میرا بھائی،وصی اور جانشین ہے،اس کی بات سنواور اس کی اطاعت کرو۔‘‘یہ سن کر وہ لوگ کھڑے ہوگئے اور مذاق اڑاتے ہوئے جناب ابوطالب(ع) سے کہا:’’یہ تم کو حکم دے رہے ہیں کہ اپنے بیٹے کی اطاعت کرنا۔‘‘(۲)
بعض لوگوں نے اس حدیث کی سند پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ:مذکورہ اس روایت راوی عبد الغفار بن قاسم(ابومریم)کے طریق سے نقل ہوئی ہے اور علمائے اہل سنت کی نظر میں وہ موثق نہیں ہیں بلکہ ان کی حدیث کومردود سمجھاجاتا ہے۔(۳)
یہ ایک بے بنیاد اعتراض ہے کیونکہ یہ حدیث مختلف طرق سے نقل ہوئی ہے اور صرف عبد الغفار بن قاسم(ابو مریم)کے سے ہی منقول نہیں ہے جیسا کہ شیخ سلیم بشری مصری نے مذکورہ اعتراض اور اس سلسلہ میں امام شرف الدین کا جواب نقل کرنے کے بعد کہ یہ حدیث مختلف طرق سے نقل ہوئی ہے۔کہتے ہیں کہ اور میں نے مسند احمد جلداوّل صفحہ ۱۱۱ کو دیکھا اور اس کے رجال کے بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہواکہ وہ تمام حضرات موثق ہیں پھر اس حدیث کے دوسرے طرق کے بارے میں تحقیق کی تو یہی نتیجہ نکلا کہ یہ حدیث متعدد ذریعوں سے نقل ہوئی ہے جن میں ہر ایک دوسرے کی تائید کرتے ہیں اور آخرکار میں اس حدیث کے صحیح ہونے پر ایمان لے آیاہوں۔(۴)
حدیث یوم الدار پر دوسرا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ اس حدیث کو بخاری ،مسلم اور اہل سنت کے دوسرے مولفین صحاح نے نقل نہیں کیا ہے۔(۵)
اس کا جواب یہ ہے کہ جب کوئی حدیث متعدد معتبر طرق اور سے نقل ہوئی ہو اور اسے صحاح کے مولفین نے نقل نہ کیا ہو تو اسے حدیث کے ضعیف ہونے کی دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے بلکہ اس سے تو حقیقت کے متلاشی قاری کے ذہن میں یہ سوال ابھر کر سامنے آتا ہے کہ ان حضرات نے اتنی معتبر حدیث کو کیوں نقل نہیں کیا ۔چنانچہ امام شرف الدین نے فرمایا ہے کہ ان حضرات نے صرف اس بناپر اس حدیث سے اعراض کیا ہے کہ یہ حدیث خلافت و امامت سے متعلق ان کے عقیدے کے مطابق نہیں تھی لہٰذا انہوں نے اس کو نقل نہیں کیا تاکہ ان کے ذریعہ شیعوں کے ہاتھوں میں اسلحہ نہ پہنچ جائے لیکن جن حضرات نے اس سلسلہ میں تعصب سے کام نہیں لیا ہے ان لوگوں نے اسے نقل کیا ہے۔
جی ہاں شدید مذہبی تعصب حضرت علی(ع)کی امامت وخلافت کے حقائق کو چھپانے کا ایک بنیادی سبب ہے ،یہ تعصب صرف امامت سے متعلق احادیث کو نقل نہ کرنے میں ہی نظر نہیں آتا بلکہ یہ تعصب روایات ان کے نقل کرنے کے انداز سے بھی بخوبی جھلکتا ہے۔ جیسا کہ بعض حضرات نے مذکور حدیث میں صرف لفظ’’اخی‘‘ نقل کیا ہے اور’’وصیی وخلیفتی‘‘ نقل نہیں کیا ہے ۔
ابن کثیر نے اس حدیث کو جہاں تفسیر طبری سے نقل کیا ہے وہاں یہ کہا ہے:پیغمبر اکرم(ص) نے ابو طالب(ع) کے گھر میں موجود افراد سے خطاب کرکے فرمایا:’’فایکم یوازرنی علی ھذا الامر علی ان یکون اخی کذا کذا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘جب کہ تاریخ طبری میں یوں نقل ہوا ہے ’’فایکم یوازرنی علیٰ ھٰذا الامر علیٰ ان یکون اخی وصیی وخلیفتی‘‘محمد حسین ہیکل نے بھی اپنی کتاب’’حیاۃ محمد‘‘ کے پہلے ایڈیشن میں یہ حدیث مکمل طور پر نقل کی ہے لیکن بعد والی اشاعتوںمیں ’’ ووصیی وخلیفتی من بعدی‘‘والا جمہ حذف کردیا ہے۔(۶)
ہماری مذکورہ گفتگو کا نتیجہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے ابتداء میں ہی توحید اور دین اسلام کیطرف لوگوں کو دعوت دینے کے ساتھ حضرت علی ؑ کی خلافت وامامت کا تذکرہ بھی کردیا تھا،اس بنا پر شیعیت کی ابتداء اسلام کی ابتداء کے ساتھ ہی ہوئی ہے،امیر المومنین(ع) کے امامت کی نصوص بہت زیادہ ہیں جن کی وضاحت ہم امامت کے باب پیش کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔سورہ شعراء:۲۱۴۔
۲۔)مسنداحمدبن حنبل،۱؍۱۱۱۔تاریخ طبری،۲؍۲۱۶۔تاریخ ابن اثیر،۱؍۴۸۷۔شرح نہج البلاغہ بن ابی الحدید، ۲؍۲۶۷ ۔شرح خطبۂ قاصعہ،اس حدیث کی دوسری سندوں اور مآخذ کے بارے میں مزید معلومات کے لئے’’المراجعات‘‘ (خط۲۰) ملاحظہ فرمائیں نیز حدیث کے مآخذ جاننے کے لئے شیعہ کتا ب غا یۃ المرام ۳؍۲۷۹۔۲۸۶ ملاحظہ فرمائیں۔
۳۔تفسیر ابن کثیر،۵؍۲۱۳ ۔
۴۔المراجعات خط۲۳،معتزلیوں کے بڑے عالم ابو جعفر اسکافی نے بھی اس حدیث کی سند کے صحیح ہونے کی صراحت کی ہے ملاحظہ فرمایئے:شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید،۳؍۲۷۶)
۵۔گذشتہ حوالہ خط ۲۱۔
۶۔ تفسیر ابن کثیر،۵؍۲۱۳۔