امام صادق (ع)اور بصیرت کی تعلیم

جب انسان الہی نظام ولایت کو قبول کرتے ہوئے ان ذوات سے علم حاصل کرے گا جو علم لدنی کے مالک ہیں تو پھر اس میں بصیرت پیدا ہوگی اور جب بصیرت پیدا ہوگی تب اس کی فکر و نظر اتنی بالیدہ ہوجائے گی کہ وہ شبہات کے اندھیروں میں بھی حق کا راستہ تلاش کرلیگا اور اگر انسان کے اندر علم و بصیرت نہ ہو تو پھر شبہات میں اس کے لئے حق کا راستہ اخیتار کرنا آسان نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ تھی امام جعفر صادق (ع) نے دیگر تمام چیزیں چھوڑتے ہوئےمعاشرے کی اس بیماری کا علاج کیا جو بہت سی دیگر بیماریوں اور مشکلات کا سبب تھی۔

ولایت پورٹل: قال الامامُ الصادقُ(ع): ’’العالِمُ بِزَمانِهِ لا تَهجُمُ عَلَیهِ اللَّوابِس‘‘۔(الكافی، ثقة الاسلام كلینی، ج ۱، ص ۲۶ ) ۔
قارئین کرام ! ہم نے  امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام کی اس حدیث مبارک کو اپنے مقالہ کا عنوان قرار دیا ہے ۔ویسے تو ہر دور میں علم اور بصیرت ضروری تھا لیکن آج  ہم جس دور سے گذر رہے ہیں  اس میں اس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے چونکہ آج ہر طرف انفارمیشن اور معلومات  کا بول بالا ہے   لیکن ان سب کے درمیان صحیح اور غلط  کے درمیان تفریق اور حق و ناحق کے درمیان امتیاز پیدا کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔اور چونکہ ابھی چند دن پہلے امام جعفرصادق(ع) کا یوم شہادت گذرا ہے لہذا ہم نے سوچا کیوں نہ امام(ع) کی اس حدیث پر  گفتگو ہوجائے تاکہ اس کے ذریعہ ہم ان حالات کو سمجھ سکیں جن میں امام (ع) نے زندگی گذاری۔
جس طرح ہمارے دیگر آئمہ(ع) معصوم اور صاحبان فضائل و کمالات تھے اس حیثیت سے امام جعفر صادق(ع) بھی ہمارے لئے ایک امام معصوم ، صاحب فضیلت و کمال ہیں لیکن ایک اہم پہلو جس پر ہمیں آپ کی توجہات  کو مبذول کرنا ہے وہ  امام جعفر صادق(ع) کا وہ عظیم اور مایہ ناز کارنامہ ہے کہ جو آپ نے اس زمانے کے پیچیدہ اور پر آشوب  حالات میں انجام دیا ۔آپ(ع) نے  ان حالات میں  اسلامی تعلیمات کو بصورت تحریک امت اور تشنگان حق  تک  پہونچایا ۔ جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں  میں  علم کے چراغ  روشن کئے ۔اسلامی ثقافت کی الٹتی ہوئی بساط  کو دوبارہ بچھایا ۔ اگرچہ امام صادق(ع) علیہ السلام نے اپنے ۳۴ برس کے با برکت دور میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جن احاطہ ایک تقریر میں کرنا ممکن نہیں ہے بس ہم کچھ عرائض پیش کرکے  آپ سے اجازت چاہیں گے۔
جیسا کہ آپ حضرات کو معلوم ہے کہ  امام جعفر صادق علیہ السلام ۱۷ ربیع الاول سن ۸۳ ہجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ کے والد ماجد حضرت امام محمد باقر (ع) اور آپ کی والدہ جناب ام فروہ تھیں۔اپنے والد حضرت باقر علیہ السلام کی جانسوز شہادت کے بعد آپ کے کاندھوں پر امت کی رہبری اور قیادت و امامت کی ذمہ داری آئی اور آپ نے تقریباً ۳۴ برس تک امت کے بکھرے ہوئے موتیوں کو  اتحاد کے دھاگے میں پیرویا اور اس حساس دور میں اسلام کے زندگی بخش تعلیمات کے  نشر و اشاعت میں اپنا تمام وقت صرف فرمایا۔
امام جعفر صادق(ع) نے جس زمانے میں امت کی قیادت فرمائی اس وقت ایک عجیب سیاسی کشمکش کا عالم تھا ۔ اس زمانہ میں بنی امیہ اور بنی عباس خلافت کی رسہ کشی میں الجھے ہوئے تھے ۔چونکہ جب بنی امیہ کی خلافت کا ایوان گرنے لگا جسے اس سلسلہ کا آخری  خلیفہ مروان بن محمد سنبھالنے قاصر ہوگیا   اور  ادھر عباسیوں نے علویوں کی حمایت کا سہارا لیکر بنی امیہ کے خلاف پوری اسلامی مملکت میں احتجاج کے پرچم لہرا دیئے ۔ یہ دور بہت حساس تھا اور اس فتنہ کو سمجھنا بڑا مشکل امر تھا چونکہ خود علوی اور خاندان بنی ہاشم   بھی ظاہری طور پر دو دھڑوں میں بٹ چکے تھے اور سیاست نے اس خاندان کے لوگوں کے درمیان بھی اختلاف کی خلیج پیدا کردی تھی۔چونکہ ایک طرف امام حسن (ع) کی اولاد تھی اور دوسری طرف امام حسین(ع) کی اولاد تھی کہ جن کے سربراہ  خود امام جعفر صادق تھے۔ جب بنی عباس نے علویوں سے حمایت مانگی تو امام حسن(ع) کی اولاد نے ان کی حمایت کا اعلان کردیا لیکن امام جعفر صادق(ع) نے ان کی حمایت کرنے سے گریز و احتیاط سے کام لیا۔
اگر آپ عباسیوں کی پوری تحریک اور تبلیغ کا جائزہ لیں تو آپکو ہر طرف اہل بیت عصمت و طہارت(ع) سے ہمدردی اور محبت کی آمیزیش نظر آئے گی چنانچہ انہیں فریبی چالوں میں سے ایک سفاح، منصور اور ابراہیم کا  امام حسن(ع) کے پوتے محمد بن عبد اللہ بن حسن بن حسن (کہ جونفس ذکیہ کے لقب سے معروف تھے) کا بیعت کرنا تھا اور پھر اگر آپ ملاحظہ کریں اسی منصور نے بعد میں خود محمد (نفس ذکیہ ) کو شہید بھی کروا دیا ۔
اور جس وقت عباسیوں نے امام محمد (نفس ذکیہ ) کے ہاتھوں پر بیعت کی اس وقت کا حال مورخین نے یہ لکھا ہے کہ جب محمد(نفس ذکیہ ) گھوڑے پر سوار ہوتے تھے تو یہ تینوں ( سفاح، منصور اور ابراہیم) آپ کے گھوڑے کی زین صحیح کرتے تھے  اور آپ کے ساتھ ساتھ خدمت گذاروں کی طرح رہتے تھے چونکہ انہیں معلوم تھا کہ پورے عالم اسلام میں خاندان اہل بیت(ع) کا ایک ممتاز مقام و مرتبہ ہے اور اس سے ان کے سیاسی اغراض و مقاصد پورے ہوسکتے ہیں ۔ ظاہر ہے حال کے آئنہ میں مستقبل کا چہرا دیکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی یہ صرف وہی افراد دیکھ سکتے ہیں جن کے پاس علم اور بصیرت ہوتی ہے۔
اب شاید ہم بہتر طور پر اس حدیث کا ترجمہ اور مفہوم سمجھ سکتے ہیں جس کو ہم نے عنوان گفتگو قرار دیا تھا۔ امام جعفر صادق(ع) کا ارشاد ہے:’’العالِمُ بِزَمانِهِ لا تَهجُمُ عَلَیهِ اللَّوابِس‘‘۔ شبہات، نادانیان اور کج فہمیاں  کبھی اس فرد پر حملہ آور نہیں ہوتیں جو عالم بزمان ہو یعنی اپنے زمانے کے حالات کو صحیح سے سمجھتا ہو اور بر وقت صحیح فیصلہ لینے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا پابند ہو ۔
ظاہر ہے جو شخص اپنے زمانے کے حالات کا صحیح تجزئیہ کرنے سے قاصر رہتا ہے اس میں یہ صلاحیت  پیدا نہیں  ہوتی کہ وہ بر وقت صحیح فیصلہ لے  سکے اور اس کے مطابق عمل کرسکے۔
اب جبکہ امام جعفر صادق(ع) نے ان چیزوں اور واقعات کو ملاحظہ کیا تو ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ایک ایسےبے نظیر و بے مثال موقف اختیار کرنے کی ضرورت سمجھی جس نے آنے والی نسلوں پر یہ ظاہر کردیا کہ امامت کا منصب ہر کو نہیں ملتا بلکہ اللہ جس ظرف میں یہ صلاحیت ، پاکیزگی اور امت کے درد کو پاتا ہے اسے اس منصب سے نواز دیتا ہے۔
امام جعفر صادق(ع) کا سب سے بڑا کارنامہ
سقیفہ کے بعد سے اہل بیت اطہار علیہم السلام کے خلاف کچھ مخالف ہوائیں چلیں جن میں اہل بیت(ع) کی وہ حیثیت اور شأنیت جس کے لئے اللہ نے ان افراد کا انتخاب کیا تھا ۔(یعنی ان حضرات کی علمی مرجعیت) کچھ عرصہ کے علاوہ۔  اس طرح ظاہر نہ  ہوسکی جس طرح ہونا چاہیئے تھی ۔اور ظاہر ہے یہ قصور و تقصیر امت کی طرف پلٹتی ہے ورنہ آئمہ(ع) تو پیدا ہی ہدایت اور قیادت کے لئے ہوئے ہیں لیکن امت میں کچھ اشرار عناصر کے چلتے امت اس شفاف اور زلال چشمہ سے اس طرح فیض یاب نہیں ہوئی جس طرح اسے ہونا چاہیئے تھا ۔لہذا امام علیہ السلام نے حالات کی نزاکت کو پرکھتے ہوئے امت کے لئے وہ  نسخہ  تجویز فرمایا  کہ اگر امت  اپنا لے  تو اس کی ساری  ظاہری  و باطنی ، اندرونی و داخلی تمام  بیماریاں دور ہوجائیں۔ اور ووہ مشکل تھی امت کا امام سے دور رہنا ۔چنانچہ امام علیہ السلام نے سب سے پہلی کاوش یہی کی کہ ایک مرتبہ پھر امت کو امامت سے متصل و مرتبط کردیں چونکہ امام کے بغیر امت ادھوری ہے اور اسی طرح اگر امت تیار نہ ہوتو پھر امامت کا فیضان اس طرح نہیں ہوسکتا جیسا ہونا چاہیئے  چونکہ ہم نے دیکھا اور تاریخ نے بتلایا کہ علی(ع) جیسا امام امت کو بلاتا رہا لیکن امت تیار نہیں تھی  تو  آپ کو  ۲۵ برس  تک گوشہ تنہائی میں رہنا پڑا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے سب سے پہلا کام ان حالات میں یہی کیا کہ لوگوں کے سامنے دقیق طور پر امامت کی شناخت ، امت میں اس کا مرتبے  و مقام کا صحیح تعارف پیش کیا چنانچہ شیخ کلینی ( رح) نے  آپ سے یہ روایت نقل کی ہے: عیسی بن سری کہتے ہیں  کہ میں نے امام جعفر صادق(ع) سے دریافت کیا مولا!دین  کے وہ ستون کون سے ہیں جن پر اس کی عمارت ٹکی ہوئی ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: عیسی بن سری ! جان لو دین کے یہ چار محکم ستون ہیں:
۱۔ اللہ کی وحدانیت اور اس کی توحید کا اقرار کرنا۔
۲۔ اور یہ اقرار و اعتراف کرنا کہ رسول اللہ(ص) اس کے  بھیجے ہوئے نبی اور رسول ہیں۔
۳۔ اور اس چیز کا اقرار کرنا  کہ جو  کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (ص) پر نازل کیا( قرآن) وہ حق ہے۔
۴۔نیز اس ولایت کا اقرار کہ جس کا حکم قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔یعنی  آل محمد(ع) کی ولایت۔( صول کافى، کلینى، ج 3، ص‏34)
چونکہ رحلت رسول(ص) کے بعد امت کے حق میں سب سے بڑا ظلم یہ ہوا تھا کہ امت کی قیادت و رہبری کو اس کے اصلی راستہ سے منحرف کردیا گیا تھا اور معاویہ کے بر سر اقتدار آتے آتے لوگ خلافت الہیہ کو خاندانی آمریت اور سلطنت اور اس میں رہنے والے لوگوں کو اپنا غلام تصور کرنے لگے تھے۔ اور آخرکار یہ نوبت پہونچ گئی تھی کہ بنی عباس آل رسول(ص)  کی پاکیزہ کرامتوں کے سہارے اپنے دنیاوی مفاد حاصل کرنا چاہتے تھے لہذا ضروری تھا کہ ایک مرتبہ پھر  امت کے عقیدوں میں ایک بنیادی تبدیلی لائی جائے اور انہیں کم از کم یہ فرق محسوس ہوجائے کہ جو رعایا پر ظلم کرتے ہیں ،جو انہیں اپنا غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں وہ ہر گز الہی نمائندے نہیں ہوسکتے ۔ بلکہ الہی نمائندے اور اس کے منتخب کردہ رہنما  تو وہ ہوتےہیں کہ جن کے دل امت کے درد سے بھرے ہوتے ہیں اور جو امت کے  ہر دکھ سکھ کے ساتھی ہوں۔
امام  کی مثال معاشرے  کے اندر ویسی ہی ہے جیسی جسم انسانی میں  ریڈھ کی ہڈی ۔ اگر کسی جسم کی ریڈ کی ہڈی درست نہ ہو تو  وہ جسم کسی کام  کا نہیں رہتا ، نہ وہ اٹھ سکتا ہے نہ اپنے سہارے بیٹھ سکتا ہے ،نہ وہ اپنے کام خود کرسکتا ہے  ۔ اسی طرح جس امت کا عقیدہ رہبری و قیادت درست نہ ہو وہ امت بے بصیرتی کے دلدل میں گرجاتی ہے ۔ اسے اپنے فائدے اور نقصان کا پتہ نہیں رہتا ۔ اس کے لئے دوسرے آکر اس کی زندگی  کے اہم فیصلے کرتے ہیں۔
یہ وہی چیز تھی جسے حضرت امیر المؤمنین(ع) نے متعدد تعابیروں  کے ذریعہ  امت کو سمجھانے کی کوشش کی تھی جس کے لئے آپ نے فرمایا تھا :’’اَما وَاللهِ لَقَدْ تَقَمَّصهافُلان وَ اِنَّهُ لَیَعْلَمُ اَنَّ مَحَلّى مِنْها مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحا‘‘۔(نہج البلاغہ، خطبہ شققیہ)۔ خدا کی قسم  فلاں نے خلافت کی قمیض کو کھینچ تان کر پہن لیا  اور  جبکہ وہ جانتا تھا کہ اس امت میں میری حیثیت اور مقام وہی ہے جو چکی کے اندر موجود مرکزی کیل کا ہوتا ہے جس کے اطراف میں چکی گھومتی ہے۔
امیرالمؤمنین(ع) کی یہ بڑی عجیب تعبیر ہے  آپ نے کسی بھی معاشرے میں امام کو چکی کی کیل قرار دیا ہے جس طرح  چکی بغیر اس کیل کے گردش نہیں کرسکتی اسی طرح کوئی امت بغیر امام کے اپنا  سفر کمال طئے نہیں کرسکتی  اور منزل مقصود تک نہیں پہونچ سکتی۔
یہ وہ حقیقت ہے جسے ہر امام نے متعدد تعبروں کے ذریعہ کے بیان فرمایا ہے  اور صرف عقیدہ کی حد تک ہی نہیں بلکہ عمل کے مرحلہ میں بھی اہل بیت(ع) کی ولایت کو قبول کئے ہوئے کوئی عمل  حقیقی مقصد تک نہیں پہونچ سکتا  اور نہ  ہی اپنے کرنے والے (عامل ) کو پہونچا سکتا ہے جیسا کہ خود آپ کے والد ماجد امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے:’’ بُنِیَ الْاسْلامُ عَلى خَمْسَةِ اشْیاءَ؛ عَلَى الصَّلاةِ وَالزَّکاةِ وَالصَّوْمِ وَالْحَجِّ وَاْلِولایةِ ، وَ لَمْ یُنَادَ بِشَیْ ءٍ کَمَا نُودِیَ بِالْوَلَایَةِ ‘‘۔(الکافی، شیخ کلینی، ج2، ص18، باب دعائم الاسلام، ح3، ط اسلامیه)۔
اسلام کی عمارت پانچ ستونوں پر استوار ہے: نماز، زکات، روزہ  اور  آل محمد (ص) کی ولایت۔ اور کسی چیز کے متعلق  اس طرح  سے تأکید نہیں کی گئی  اور کسی چیز کا  اتنا مطالبہ نہیں کیا گیا جتنا ولایت کا کیا گیا ہے۔
آپ یہ تصور نہ کیجئے  کہ ان پانچ چیزوں کو بغیر کسی حکمت کےایک دوسرے کےساتھ بیان کردیا گیا ہے ۔ نہیں ! یہ امام معصوم کا کلام ہے۔ یہ حکمت سے خالی نہیں ہے  بلکہ عمل کی منزل میں امام باقر(ع) نے  ان پانچ چیزوں کو اہمیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔اور ان پانچوں کے درمیان ایک منطقی اور عقلی رابطہ بھی  پایا جاتا ہے۔
سب سے پہلے امام نے عمل کے مرحلہ میں نماز کو دین کا ستون بتلایا ہے  اور ظاہر ہے وہی نماز دین کا ستون ہوسکتی ہے جو اپنے تمام شرائط کے ساتھ پڑھی جائے ۔ جس میں صرف اپنے سر سے بوجھ اتارنا مقصود نہ ہو بلکہ  اس تصور کے ساتھ نماز پڑھی جائے کہ ہم (مخلوقات)  اپنے خالق کی بارگاہ میں ہیں اور یہ اس سے رابطہ کا بہترین وقت ہے۔اور ظاہر ہے یہ رابطہ جتنا گہرا ہوگا اتنی ہماری مشکلات دور ہوتی چلی جائیں گی۔
سابقہ حدیث میں بیان ہونے والی دوسری چیز زکات ہے ۔ یہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کا ایک اہم رکن ہے۔ زکات مخلوق کا مخلوق کے ساتھ  رابطے و تعلق کا عظیم مظہر ہے ۔ شریعت نے یہ قانون اس لئے وضع کیا ہے  تاکہ ہمارے معاشرے میں جو لوگ تنگ دست ہیں وہ حرام کام کرنے یا حرام کھانے پر مجبور نہ ہوں بلکہ جو لوگ غنی اور صاحب ثروت و حیثیت  ہیں   جب ان کا مال نصاب  تک پہونچ جائے وہ  ان کے حصہ کا مال انہیں دیں۔ اور خبرادار ! کوئی یہ تصور نہ کرے کہ  ہم دے رہے ہیں بلکہ اللہ نے تمہیں اس قابل بنایا ہے ، تمہیں کثرت رزق سے نوازا ہے لہذا تم پر واجب ہے کہ ان غرباء، فقراء اور تنگ دستوں کی دستگیری کرو۔تاکہ ان کی اقتصادی مشکلات حل ہوجائیں۔
حدیث میں مذکور تیسر اہم ستون جس پر اسلام کی عمارت استوار ہے،ز روزہ ہے ۔ جسے امام علیہ السلام نے عمل کے مرحلہ میں دین کا ستون قرار دیا ہے۔ روزہ انسان کا خود اپنے نفس پر کنٹرول کا نام ہے اس کے سبب انسان کی قوت ارادہ و عمل مضبوط ہوتی ہے ۔ اس کے سبب انسان اپنے اندرونی دشمن سےلڑنے  اور اپنی نفسانی خواہشات کو مہار کرنے پر قادر ہوجاتا ہے۔ اور جب انسان اپنے اندرونی دشمن یعنی نفس کو سرکوب کرنے کی صلاحیت پیدا کرلیتا ہے تو اسے باہری دشمن کبھی ہراساں نہیں کرسکتا۔
سابقہ حدیث میں  دین کا چوتھا ستون حج کو بتلایا گیا ہے۔ حج   یعنی تمام مسلمانوں کا  آپسی رابطہ و تعلق، یہاں حج کرنے اس وجہ سے نہیں بلایا گیا  آپ آئیں اور سعودی کے ہوٹلز دیکھیں ، یہاں کے مالز سے سامان خریدیں  اور کچھ کھجوریں اور پانی لیں اور پھر چلے جائیں ۔ نہیں ! آپ کو حج پر ایک عظیم مقصد کے لئے بلایا جارہا ہے کہ یہاں آئیں اور مختلف ممالک اور خطوں میں آباد  اپنے مسلمان بھائیوں  کے حال و احوال سے واقفیت پیدا کریں ، ان کی مشکلات کو سمجھیں اور انہیں حل کرنے کے لئے مشترک موقف اپنائیں  ۔ ایک دوسرے کے دردوں کو سنا جائے اور ان کے زخموں پر مرہم رکھا جائے۔
حدیث میں مذکور اہم اور آخری رکن اور ستون ولایت کو بتلایا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی عقیدہ کے مرحلہ میں آخری ستون ولایت اہل بیت(ع) کو بتلایا تھا اور آپ کے بابا امام محمد باقر(ع) نے بھی عمل  کے مرحلہ میں آخری چیز ولایت کو بتلایا ہے۔ اور لوگوں کو ولایت اہل بیت (ع) کی دعوت دینا اور انہیں ولایت اہل بیت(ع) کو اپنانے کی ترغیب دلانا اتنا  اہم ہے اور جیسا کہ اس  روایت میں بھی مذکور ہے کہ ہم اہل بیت کی ولایت اتنی اہم چیز ہے کہ اگر اس کی رعایت نہ کی گئی تو حدیث میں مذکور تمام اعمال اپنا رنگ کھو دیں گے اور ان کی وہ اہمیت نہیں ہوگی جو ہونا چاہیئے ۔ چونکہ ولی اور امام ہی ان احکام کو صحیح طور پر بیان کرنے والا ہوتا ہے اور اسی کے ذریعہ ان تمام اعمال کا درست طریقہ سے نفاذ عمل میں آتا ہے۔اور جہاں عقیدہ کے صحیح ہونے کی بنیادی شرط اہل بیت(ع) کی ولایت ہے وہی عمل کے صحیح ہونے کا دار و مدار بھی اہل بیت(ع) کی ولایت پر ہے۔
قارئین کرام ! جب انسان  الہی نظام ولایت کو قبول کرتے ہوئے  ان ذوات سے علم حاصل کرے گا جو علم لدنی کے مالک ہیں تو پھر اس میں بصیرت پیدا ہوگی اور جب بصیرت پیدا ہوگی تب اس کی فکر و نظر اتنی بالیدہ ہوجائے گی  کہ وہ شبہات  کے اندھیروں میں بھی حق کا راستہ تلاش کرلیگا  اور اگر انسان کے اندر علم و بصیرت  نہ ہو تو پھر شبہات میں اس کے لئے حق کا راستہ اخیتار کرنا آسان نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ تھی امام جعفر صادق (ع) نے دیگر تمام چیزیں چھوڑتے ہوئےمعاشرے کی اس بیماری کا علاج کیا جو بہت سی دیگر بیماریوں اور مشکلات کا سبب تھی اور وہ تھی جہالت ، آپ نے اپنے جد کی مسجد میں مسند علم بچھائی اور جعفر صادق (ع) کی طرف سے یہ اعلان عام ہوگیا کہ جسے علم چاہیئے ۔ جو معرفت کا پیاسہ ہو  وہ آئے اور اس شفاف اور زلال چشمہ علم سے سیراب ہوکر جائے اور دیگر پیاسوں کے لئے بھی معرفت کی مشکیں بھرے اور لے جائے۔  اس اعلان کے بعد لوگ جوق در جوق مدینہ منورہ آنے لگے اور امام جعفر صادق  علیہ السلام کے سامنے زانوئے تلمذ طئے کرکے اپنی جھولیوں کو علم کے موتیوں سے بھرنے لگے یہی وجہ ہے کہ شیعیت کے پاس سب سے زیادہ حدیثیں امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام کی ہیں۔
امید ہے کہ ہم اس پر فتن و پر آشوب دور میں اپنے کو سیرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا اتباع کرنےوالا بنائیں اور اپنے بچوں  اور جوانوں کو علم کے حصول کی طرف  رغبت دلائیں چونکہ تاریخ انہیں قوموں کو یاد رکھتی ہے جو اپنے کو علم و بصیرت کی دولت سے مالا مال کرتی ہیں ۔ اگرچہ ہمارا ماضی بڑا درخشاں تھا لیکن اس دور میں ہم ۔ خاص طور پر ہندوستان میں۔ کافی پیچھے رہ گئے ہیں ۔ ہمیں ضرورت ہے کہ  ہم اپنے تعلمی سسٹم کو ڈولپ کریں، اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم تک پڑھائیں  تاکہ ان میں بصیرت پیدا ہو اور وہ معاشرے میں پیدا ہونے والی مشکلات کو سمجھ کر بر وقت درست موقف اختیار کرسکیں۔
آج ہم جس دور میں  جی رہے ہیں یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں آج   معلومات(information)  کی کمی نہیں ہے آج تو فیس بک ، ٹیئٹر اور دیگر مواصلاتی ذرائع سے معلومات کی برسات ہورہی ہے ہر ایک بغیر پڑھے واٹس ایپ پر میسیج  فارڈ کرنے میں لگا ہوا ہے  اور یہ کام کرکے وہ خوش بھی ہوتا ہے کہ اس نے نہ جانے کتنے لوگوں کو عالم بنا دیا ۔ جبکہ آج کی مشکل معلومات نہیں ہیں بلکہ آج کی مشکل بصیرت کی کمی ہے ۔ یہی معلومات جو ہم ہر روز فاروڈ کرتے ہیں کبھی کبھی معاشرے میں بہت سی مشکلات کا سبب بن جاتی ہیں ۔ یہی میسجیز کبھی کبھی بڑے تنازعہ کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں ۔چونکہ آپ کو معلوم ہوگا کہ دنیا کے بہت سے ممالک کے داخلی تنازعہ اور خانہ جنگی کو ان سوشل نیٹورکس کے ذریعہ ہینڈل کیا جاتا ہے ۔لہذا حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ہر میسج کو پہلے پڑھئے اور پھر صحیح سے تجزیہ کیجئے  اور سوچئے کہ اس میسج کو فاروڈ کرکے کہیں کوئی نقصان تو نہیں ہوگا۔ تب یہ قدم اٹھایا جائے ۔
آخر میں ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ پروردگار ہمیں علم اور بصیرت سے نواز دے تاکہ ہم شہبات کے اندھیروں  حق کا راستہ   ڈھونڈ سکیں۔
و آخر دعوانا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِين

تحریر : سجاد ربانی
 



0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین