ولایت پورٹل: رسول اکرم(ص) ان تمام انسانی و الہی صفات کے حامل ہیں جو آپ کی شخصیت کی عظمت و بلندی کی حکایت کرتی ہیں۔ بھلا ہو بھی کیوں نہ، چونکہ خود اللہ نے اپنے رسول(ص) کی ایسی تربیت فرمائی ہے کہ عرب کے اس پست و بد اخلاقی کے ماحول میں بھی آپ صادق و امین کے لقب سے ملقب ہوئے اور اخلاق کی ان اعلٰی اقدار پر فائز تھے کہ قرآن مجید نے آپ کی اس انداز سے تعظیم و تکریم فرمائی:’’و إِنَّک لَعَلی خُلُقٍ عَظیم‘‘۔
اے میرے رسول ! یقیناً آپ اخلاق کے مرتبہ عظیم پر فائز ہیں۔
جب قرآن مجید نے آپ کے اخلاق و کردار کی ضمانت لے لی ہے تو مسلمانوں کو بھی اپنے اندر وہ خصائل و صفات پیدا کرنے چاہیئے جن سے سرکار ختمی مرتبت(ص) کی ذات آراستہ تھی۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کی سیرت کو مسلمانان عالم کے لئے نمونہ عمل قرار دیا ہے :’’لَقَد کانَ لَکُم فی رَسولِ اللّه ِ اُسْوَةٌ حَسَنةٌ لِمَنْ کان یَرْجُواللّه َ وَ الیومَ الآخِرَ و ذَکَرَللّه َ کَثیرا‘‘۔(احزاب:21)
جو لوگ اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں ، رسول اللہ(ص) تمہارے لئے بہترین نمونہ عمل ہیں۔
یہ آیت صاف طور پر پیغام ہے کہ رسول اللہ(ص) اخلاق حسنہ سے مزین ہیں اور تمام انسانی فضائل آپ کی ذات میں جمع ہیں لہذا ہم اس مضمون میں آپ کے خلق عظیم کے صرف ایک نمونہ یعنی آپ کے تواضع و انکساری پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
اکثر یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ جب کسی کے پاس کوئی چھوٹا سا بھی منصب آجاتا ہے تو وہ لوگوں کے ساتھ اس طرح پیش آتا ہے جیسے یہ کوئی عجیب مخلوق ہو اور وہ انسان کو انسان سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور خاص طور پر اگر کوئی مسند اقتدار پر فائز ہوجائے تو وہ فخر و مباہات کو اپنی زندگی کا جزء سمجھ بیٹھتا ہے۔
لیکن ہم جب سرکار ختمی مرتبت(ص) کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ منورہ میں حکومت قائم کرنے کے باوجود بھی آپ کے انداز زیست میں کوئی فرق مشاہدہ نہیں کیا گیا بلکہ آپ اپنے اتباع کرنے والوں سے مسلسل فرمایا کرتے تھے :’’ اگر کسی کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر پیدا ہوجائے تو اس کے مشام تک جنت کی خوشبو بھی نہیں پہونچے گی ‘‘۔
آپ پوری اسلامی مملکت کے سربراہ ہوتے ہوئے بھی نہایت تواضع کا مظاہرہ فرماتے تھے ۔ آپ کسی بزم میں جب تشریف لے جاتے تو جہاں جگہ ملتی وہیں تشریف فرما ہوجاتے تھے اور اگر اپنے اصحاب کے ہمراہ ہوتے تو اس انداز میں زمین پر بیٹھ جاتے کہ اگر کوئی اجنبی بزم میں آجائے تو اس کے لئے یہ پہچاننا مشکل ہوجاتا تھا کہ ان پیغمبر اکرم(ص) کون ہیں۔
چنانچہ ایک روایت میں ملتا ہے کہ ایک دن سرکار(ص) اپنے اصحاب کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ اپنے عصائے مبارک پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے، اصحاب آپ کے احترام میں اپنی جگہ سے کھڑے ہونا چاہتے تھے ، آپ نے فرمایا:’’ عجمیوں کی طرح ، اس طرح میری تعظیم میں کھڑے مت ہوا کرو ‘‘۔
ہمیشہ آپ اپنے اصحاب سے یہ فرمایا کرتے تھے:’’ تم لوگ کبھی میری مدح تعریف میں مبالغہ نہ کرنا جس طرح عیسائی، مسیح بن مریم کے بارے مبالغہ کرتے ہوئے انہیں خدا کا بیٹا کہنے لگے۔ میں بھی اللہ کا ایک بندہ ہوں اور میرا سب سے بڑا احترام و اکرام یہ ہے کہ بس مجھے خدا کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو‘‘۔
حضرت کی تواضع و انکساری کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ آپ اپنی پھٹی جوتی کو خود ٹاکتے اور پھٹے ہوئے لباس پر خود پیوند لگاتے تھے ۔ اپنے گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے اور اپنے حرم کی مدد کرتے تھے۔ آپ کی نظر میں آزاد و غلام سب برابر تھے۔ اگر کوئی اپنی مشکلات کے بارے میں بتلاتے بتلاتے زیادہ وقت لے لیتا تو کبھی ملول خاطر نہ ہوتے یہاں تک کہ وہ اپنی بات مکمل کرلیتا ۔ اگر کوئی اپنی ضرورت کو بیان کرتا آپ اسے پورا کرتے یا اسے پورا کروانے کی کوشش کرتے تھے۔
فتح مکہ کے دن ایک شخص آپ کے پاس آیا کہ جو خوف کے مارے کانپ رہا تھا آپ نے فرمایا:’’ مت ڈرو ! میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں ، میں تو قبیلہ قریش کی ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جس کی غذا سوکھی روٹی تھی‘‘۔
پیغمبر اکرم(ص) کی تواضع و انکساری
ہم جب سرکار ختمی مرتبت(ص) کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ منورہ میں حکومت قائم کرنے کے باوجود بھی آپ کے انداز زیست میں کوئی فرق مشاہدہ نہیں کیا گیا بلکہ آپ اپنے اتباع کرنے والوں سے مسلسل فرمایا کرتے تھے :’’ اگر کسی کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر پیدا ہوجائے تو اس کے مشام تک جنت کی خوشبو بھی نہیں پہونچے گی ‘‘۔

wilayat.com/p/4773
متعلقہ مواد
رسول رحمت(ص) کے یوم ولادت پر خصوصی پیش کش:انسانیت کے موجودہ تاریک دور میں تعلیمات نبی رحمت(ص) کے اجالے کی ضرورت
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین