اگر حضور قلب نہ ہو تو نماز کیسے پڑھی جائے؟

انسان کو اپنے دل اور قلب کی حالت کے پیش نظر اعمال انجام دینا چاہیئے ایسا نہ ہو کہ ہم اپنی حالت کو بہانا بنا کر اپنے واجبات سے ہی منھ موڑ لیں۔

ولایت پورٹل: کچھ افراد صرف اس وقت خلوص دل سے نماز پڑھتے ہیں جب وہ تیار ہوتے ہیں جب ان پر نشاط کی کیفت طاری ہوتی ہے لیکن جب ان پر سستی،کاہلی اور افسردگی طاری ہوتی ہے اور ان سب چیزوں کو بہانا بنا کر کچھ لوگ نماز چھوڑ دیتے ہیں کہ چونکہ اس وقت ان کی طبیعت بوجھل ہوتی ہے اور انہیں کچھ کرنے کا دل نہیں کررہا ہوتا ہے۔
قارئین کرام! ہمیں اپنے نفس کو یہ تلقین کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ حضور قلب نہ ہونے کو بہانا بنا کر نماز کو چھوڑنا شیطان کا وسوسہ ہے وہ یہ چاہتا ہے کہ انسان اور خالق کے درمیان رابطے کو قطع  ہوجائے اور اس کے اور ملکوت عالم کے درمیان فاصلہ بڑھ جائے اور انسان کی نافرمانی اور عصیان کی راہ ہموار ہوجائے چنانچہ ایک روایت میں آیا ہے:’’ليس بَين الايمان و الكفر الّا تركُ الصَلاۃ‘‘۔(على بن يونس نباطى، الصراط المستقيم، ج 1، ص 204)۔ نماز کو چھوڑ دینا کفر و ایمان کے درمیان سرحد ہے۔
وہ شخص کہ جو اپنے دل اور نیت میں خلوص پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے اور صرف اس بہانے سے نماز چھوڑ دیں  درحقیقت وہ مشکل کو حل کرنے کے بجائے اصل مسئلہ کو چھوڑ دینا چاہتے ہیں اور اس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے مقصد سے عقب نشینی اختیار کرلی ہے اور میدان کو دشمن کے لئے خالی چھوڑ دیا ہے۔اور یہ انسان کی روح کے کمزور اور ایمان کے متزلزل ہونے کی علامت ہے اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کی قوت ارادی بہت کمزور ہے اور یہ اپنی کمی کو دور نہیں کر پارہا ہے۔
بہر حال دل کی متعدد و مختلف کیفیتیں ہوتی ہیں کبھی یہ پر نشاط ہوتا ہے تو کبھی افسردہ و سست۔ کبھی اس میں بلا کا حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے تو کبھی اس پہ بے حوصلگی طاری ہوجاتی ہے۔ لہذا جب انسان کا دل آمادہ و پر نشاط ہو تو ہمیں اس وقت اپنے اعمال میں اضافہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے یعنی مستحبات کی بھی پابندی کی جائے اور جب دل میں حوصلہ نہ پایا جائے توصرف واجبات پر ہی اکتفاء کر لینا چاہیئے۔
نتیجہ یہ کہ انسان کو اپنے دل اور قلب کی حالت کے پیش نظر اعمال انجام دینا چاہیئے ایسا نہ ہو کہ ہم اپنی حالت کو بہانا بنا کر اپنے واجبات سے ہی منھ موڑ لیں۔


0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین