فدک کے مالکانہ حق پر حضرت فاطمہ(س) کے گواہ

فدک وہ زمین ہے جس کو خدا کے حکم سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بخش دی تھی۔ لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے اس زمین کو چھین لیا گیا اور آپ سے فدک کی ملکیت کے بارے میں گواہ بھی طلب کئے گئے اور جب شہزادی نے گواہ پیش کردیئے تب بھی سامنے والے نے ان سب کی گواہی کو رد کردیا۔

ولایت پورٹل: قارئین کرام! فدک وہ زمین ہے جسے رسول خدا(ص) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے  سورہ اسراء کی اس آیت کے مطابق:’’وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّہٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا‘‘۔(سورۂ اسراء:۲۶) اور دیکھو قرابتداروں، مسکین اور مسافر کو اس کا حق دے دو اور خبردار اسراف سے کام نہ لینا۔ رسول اللہ (ص) نے فدک کو حضرت فاطمہ(س)کو بخش دیا تھا۔(۱) لیکن پہلی ہی خلافت کے زمانے میں یہ حق حضرت فاطمہ(س) سے لے لیا گیا اور آپ کے واپس مانگنے پر بھی آپ کو واپس نہ دیا گیا۔ فدک کو غضب کرنے اور اس کو واپس نہ لوٹانے کی بہت زیادہ دلیلیں ہیں جن میں سے دو دلیلیں بہت زیادہ اہم ہیں، ایک تو یہ کہ فدک کو غضب اس لئے کیا گیا تاکہ رسول خدا(ص) کے اہل بیت(ع) کو اقتصادی اعتبار سے  اتنا کمزور کردیا جائے کہ پھر حکومت کو ان سے کوئی خظرہ لاحق نہ رہے، اور دوسرے اگر حضرت فاطمہ(س) کو فدک واپس کردیا جاتا تو اہل بیت(ع) کی خلافت اور علی کی بلا فصل ولایت کی تأئید ہوجاتی، جس کے بارے میں ابن ابی الحدید اپنے استاد کے ایک واقعہ کو نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: انہوں (ابن ابی الحدید کے استاد) نے اپنے استاد سے سوال کیا؟ کیا حضرت فاطمہ(س) ۔نعوذ باللہ ۔ سچ نہیں بولتی تھی؟ استاد مسکرئے اور سوال کی تعریف کی اور کہا اگر اس دن فدک حضرت فاطمہ(س) کو دیدیا جاتا تو اس کے بعد وہ اپنے شوہر کی خلافت کا ادعا کرتیں اور اس وقت ان کا انکار نہیں کیا جا سکتا تھا، اسی لئے ان کے دعوائے فدک کو قبول کرنے سے گریز کیا گیا۔(۲)
رسول اکرم(ص) کی وفات کے بعد جو لوگ اپنے کو آنحضرت(ص) کی جانشینی کے  دعویدار کہہ رہے تھے انھوں نے ایک میٹنگ رکھی تاکہ اس میں علی(ع) اور ان کے ساتھیوں سے مقابلہ کرنے کے طریقوں پر غور کیا جاسکے ۔چنانچہ وہاں عمر نے کہا: اے خلیفہ! آپ جانتے ہیں کہ لوگ دنیا پرست ہیں اور سب مال و ثروت سے محبت کرتے ہیں آپ کو چاہئے کہ آپ فاطمہ(س) سے فدک کو لے لیں تاکہ لوگ اس خاندان سے دور ہوجائیں۔(۳)
خلیفہ نے کہا: لیکن فدک فاطمہ(س) کا حق ہے اور سارے لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ تین سال سے فدک ان کے اختیار میں ہے۔
عمر نے کہا: میں نے ان سب چیزوں کے بارے میں سوچ لیا ہے صرف آپ فاطمہ(س) کے نمائندوں کو وہاں سے نکال دیجئے، خلیفہ نے عمر کے مشورہ پر کچھ لوگوں کو بھیجا تاکہ حضرت فاطمہ(س) کے نمائدہ کو فدک سے ہٹادیا جائے۔
جب حضرت فاطمہ(س) کو اس بات کی خبر ملی تو آپ خلیفہ کے پاس اپنا حق واپس لینے کے لئے گئیں، آپ(س) نے خلیفہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے ابو بکر! تم تو دعویٰ کررہے ہو کہ رسول خدا(ص) کے خلیفہ ہو، تو کیوں تم نے فدک کو غضب کرلیا؟ اور میرے نمائدوں کو وہاں سے نکال دیا؟
خلیفہ نے کہا: کیا فدک آپ کی ملکیت ہے؟
حضرت فاطمہ(س) نے فرمایا: کیا تم نے نہیں سنا کے  رسول خدا(ص) نے فدک مجھے بخشا تھا؟
خلیفہ نے کہا: اے رسول کی بیٹی! آپ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے گواہ لیکر آئیے۔(۴)
حضرت فاطمہ(س) ام ایمن، جس کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نےفرمایا تھا کہ وہ جنت کی عورتوں میں سے ہیں، کو لیکر  آئیں لیکن ان کی گواہی کو یہ کہکر رد کردیا گیا کہ وہ ایک عورت ہیں، اور ایک عورت کی گواہی کافی نہیں ہے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے دوسرے گواہ کے طور پر حضرت علی علیہ السلامپیش کیا لیکن خلیفہ نے حضرت علی(ع) کی گواہی کو بھی یہ کہکر ردّ کردیا کہ اس گواہی سے انھیں فائدہ ہوگا، لہذا اس موقع پر ان کی گواہی آپ کے کام نہیں آسکتی۔(۵)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔علی ابن ابرہیم قمی، تفسیر قمی، ج۲، ص۱۸۔تفسیر عیاشی،ج۲،ص۲۸۷.مسند أبی يعلى، ج۲، ص۳۳۴۔
۲۔ ابن ابی الحدید،شرح نھج البلاغہ، ج ۱۶، ص۲۸۴۔
۳۔محمد باقرمجلسى، بحار الأنوار، ج۲۹، ص۱۹۴،ـ مستدرک الوسائل،ج۷،ص۲۹۰۔
۴۔سابق حوالہ، ص۱۲۸۔ نیز الاحتجاج،ج۱،ص۱۲۲۔
۵۔ سابق حوالہ، نیز الاختصاص، ص۱۸۳۔


0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین