ولایت پورٹل: ایک مؤمن کی زندگی کی سب بڑی معراج یہ ہے کہ وہ ان توقعات پر پورا اور کھرا اتر جائے جو آئمہ معصومین(ع) نے ان سے مطالبہ کیا ہے ۔چونکہ شیعہ اس وجہ سے کہ وہ اپنے آئمہ(ع) کے پیرو اور تابعدار ہوتے ہیں اگر ان توقعات پر کھرا اتریں کہ جو آئمہ(ع) ان سے رکھتے ہیں تو پھر وہ حقیقی معنیٰ میں شیعہ کہلانے کا حق دار ہیں۔
عمل، شیعہ ہونے کا حقیقی معیار
اگر کوئی شخص معصومین(ع) کے بتائے ہوئے راستے پر نہ چلے اور ان کے احکام کی پابندی نہ کرے تو وہ حقیقی شیعہ نہیں ہے چنانچہ حضرت فاطمہ زہرا(س) کا ارشاد ہے:’’إنْ کُنتَ تَعمَلُ بِما أمَرناکَ و تَنتَهی عَمّا زَجَرناکَ عَنهُ فَأنتَ مِن شیعَتِنا و إلاّ فَلا‘‘۔(۱) اگر تم اس کام کو بجا لاتے ہو جو ہم نے حکم دیا ہے تو تم ہمارے شیعہ ہو اور اگر ایسا نہیں کرتے تو تم شیعہ نہیں ہو۔
البتہ ممکن ہے محب اہل بیت(ع) ہو ان کا دوست اور نام لیوا ہو لیکن وہ حقیقی شیعہ نہیں ہے، چونکہ ایک شیعہ مؤمن کا مرتبہ خود آئمہ(ع) کی نظروں میں بہت بلند ہے چونکہ دنیا و آخرت میں سعادت اور کامیابی کی ضمانت ان شیعوں کے لئے ہے جو آئمہ (ع) کی عملی پیروی کرتے ہیں۔
اللہ نے مؤمنین کے ذمہ یہ فرض عائد کیا ہے کہ وہ اپنے آئمہ(ع) کی اطاعت و پیروی کریں ۔اور آئمہ(ع) اسی لئے منصوب ہوئے کہ وہ احکام دین کو بیان کریں اور لوگوں کو کمال و سعادت کا راستہ دکھلائیں۔آئمہ(ع) کو اپنے شیعوں سے کچھ توقعات رکھتے ہیں ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ اپنے آئمہ(ع) کی تمام توقعات پر پورا و کھرا اتریں۔ چنانچہ انہیں توقعات میں سے ایک توقع کہ جسے ہمارے گیارہویں امام حضرت حسن عسکری(ع) نے اپنے شیعوں سے اس خط میں رقم فرمائی ہے جو آپ نے اسحاق بن یعقوب نیشاپوری کے نام تحریر فرمایا تھا آئیے امام(ع) کی اس خواہش اور توقع کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں جس کا ہمارے امام(ع) کو بیحد انتظار ہے کہ ان کے شیعہ اس حدیث پر عمل پیرا ہوں:
شیعوں کا سب سے اہم فریضہ تفکر اور تأمل
امام حسن عسکری(ع) کو اپنے شیعوں سے سب سے بڑی توقع یہ ہے کہ وہ کوئی بھی کام انجام دینے سے پہلے اس کے نتائج اور انجام پر اچھی طرح سے غور اور تدبر کرلیا کریں تاکہ اس عمل کی انجام دہی میں ہڑبڑاہٹ کا شکار نہ ہوں بلکہ اطمئنان و سکون سے وہ عمل انجام پائے۔
دین اسلام نے ہر عمل سے پہلے اس کے نتائج کے بارے میں غور و خوض پر خاص تأکید فرمائی ہے اور کسی کام سے پہلے اس کے نتائج پر غور کرنے کو عقلمندی کی علامت شمار کیا ہے جبکہ تدبر نہ کرنے کو نادانی و بیوقوفی کا مصداق ٹہرایا ہے۔ عمل سے پہلے اس کے بارے میں فکر کرنے کے بڑے اچھے آثار مترتب ہوتے ہیں مثال کے طور پر جو انسان غور و خوص اور فکر کے ساتھ کوئی عمل انجام دیتا ہے وہ نیکی، برکت اور ہدایت تک پہونچ جاتا ہے۔جیسا کہ امام جعفر صادق(ع) کا ارشاد ہے:’’إِنَّ اَلتَّفَکُّرَ یَدْعُو إِلَى اَلْبِرِّ وَ اَلْعَمَلِ بِهِ‘‘۔(۲)
فکر و تأمل کرنا انسان کو نیکی اور اس پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کا عمل نیک ہو تو اسے عمل سے پہلے اس کے نتائج کے بارے میں ضرور غور و خوص کرنا چاہیئے۔
اور ظاہر سی بات ہے کہ کسی بھی عمل کا انجام تبھی اچھا ہو سکتا ہے جب اس پر پہلے غور کرلیا جائے اور اس کی کمی کاستی کو پرکھ لیا جائے جیسا کہ حضرت امیر(ع) کا ارشاد ہے:’’إِذَا قَدَّمْتَ الْفِکْرَ فِی جَمِیعِ أَفْعَالِکَ حَسُنَتْ عَوَاقِبُکَ فِی کُلِّ أَمْرٍ‘‘۔(۳) اگر تم اپنے ہر کام سے پہلے فکر و تأمل سے کام لو گے تو ہر عمل کا نتیجہ بہتری اور نیکی پر منتھی ہوگا۔
اس تمہید کی روشنی میں یہ بات تو طئے ہے کہ کوئی بھی عمل اپنے حسن انجام تک تبھی پہونچ سکتا ہے جب اسے تمام زاویوں سے پرکھ لیا جائے۔
حدیث امام عسکری(ع) اور حسن انجام کے آثار
امام حسن عسکری(ع) اپنی حدیث میں فکر و تأمل کرنے کے آثار کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:’’عَلیکُم بِالفِکرِ فَاِنَّهُ حَیاة قَلب البَصیر وَ مَفاتیحُ اَبوابِ الحِکمَةِ‘‘(4) ہر عمل کے متعلق آپ لوگوں پر فکر و تأمل کرنا واجب و ضروری ہے! بے شک فکر و تأمل کرنا قلب بصیر کی زندگی اور حکمت کے دروازوں کی کنجی ہے۔
بصیر انسان کا قلب اس وقت با حیات شمار کیا جاتا ہے کہ جب وہ اپنی عقل کو بروئے کار لائے۔ چونکہ حکمت کے دروازے بڑے بڑے تالوں سے مقفل ہیں جو فکر، تأمل اور تدبر کی چابی کے ذریعہ ہی کھولے جاسکتے ہیں۔
دین کا مقصد ،فکر کے ساتھ عبادت
بنیادی طور پر دین کا مقصد بندگی ہے لیکن ہر بندگی و عبادت نہیں بلکہ ایسی بندگی و عبادت جس میں تفکر و تأمل پایا جاتا ہو چونکہ وہ عبادت و بندگی جس میں فکر و تأمل کا گذر نہ ہو عبادت شمار نہیں ہوتی۔اور یاد رہے کہ عبادت میں فکر و تأمل کے معنی احکام خدا اور اس کی آیات میں غور و فکر کرنا ہے چنانچہ معصوم(ع) سے روایت ہے:’’لَیست العِبادَةُ کَثرَةَ الصِّیامِ وَ الصَّلوةِ وَ اِنّما العِبادَةُ کَثرَةُ التفکُّرِ فى اَمرِ اللّه‘‘۔(۵) کثرت کے ساتھ نماز پڑھنا یا روزہ رکھنا عبادت نہیں ہے بلکہ احکام و اوامر خدا کے بارے میں کثرت کے ساتھ غور و فکر کرنا حقیقی عبادت ہے۔
ایک اعتراض:
ممکن ہے کوئی شخص یہ اعتراض کر بیٹھے کہ حضرت کی اس حدیث سے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت نے نماز و روزے کو عبادت کے دائرے سے نکال دیا اور اوامر الہی میں تفکر و تدبر کو عبادت قرار دیدیا ہے؟
جواب :
اس حدیث سے حضرت کا مقصد نماز ، روزے کو عبادت کے دائرے سے نکالنا نہیں بلکہ امت کو یہ سمجھانا ہے کہ وہ نماز و روزہ جس میں تفکر و تدبر نہ ہو وہ عبادت نہیں ہے اور اسی طرح کثرت عبادت کا مطلب زیادہ نمازیں پڑھنا یا زیادہ روزہ رکھنا نہیں ہے بلکہ عبادتوں میں کثرت کا معیار فکر و تأمل کی کثرت ہے ۔
پس حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو اپنے شیعوں سے سب سے پہلی توقع یہ ہے کہ وہ ہر کام سے پہلے تفکر و تأمل کریں اور چونکہ عبادت، یعنی نماز و روزہ بھی عمل ہے تو ان میں بھی ملاک و معیار وہی تأمل و تفکر ہے۔
فکر و تأمل اہل بیت(ع) کے خاص شیعوں کی خصلت
اولیائے الہی متعدد و مختلف خصلتوں کے حامل ہوتے ہیں لیکن ان میں کچھ خصلتیں زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ چنانچہ جناب ابوذر غفاری(رض) کے بارے میں امام جعفر صادق(ع) سے نقل ہوا ہے کہ حضرت امیر(ع) نے فرمایا:’’کَانَ أَکْثَرُ عِبَادَةِ أَبِی ذَرٍّ رَحْمَةُ اَللَّهِ عَلَیْهِ خَصْلَتَیْنِ اَلتَّفَکُّرَ وَ اَلاِعْتِبَارَ‘‘۔(۶)
ابوذر۔ان پر اللہ کی رحمت ہو۔ کی سب سے زیادہ عبادت فکر و تأمل کرنا اور دوسروں سے عبرت لینا تھی۔
یعنی ایک مؤمن انسان کو ہمیشہ یہ کوشش کرنا چاہیئے کہ وہ ایمان کے اس مرتبہ پر فائز ہوجائے کہ اس کا اکثر وقت فکر و تأمل کرنے اور حوادث عالم سے عبرت لینے میں بسر ہو۔
فکر و تأمل کا لازمی نتیجہ بصیرت
وہ انسان جو اپنے اعمال کے متعلق فکر و تأمل کرتا ہے وہی انسان با بصیرت کہلاتا ہے یعنی بصیرت کا راستہ عبرت حاصل کرنے اور فکر و تأمل سے ہوکر گذرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت امیر(ع) نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:’’إنّما البَصیرُ مَن سَمِعَ فَتَفَکَّرَ، و نَظَرَ فأبصَرَ، و انتَفَعَ بالعِبَرِ، ثُمّ سَلَکَ جَدَدا واضِحا یَتَجنَّبُ فیهِ الصَّرعَةَ فی المَهاوی‘‘۔(۷) صاحب بصیرت صرف وہی شخص ہے جو کچھ سنے اس میں غور و فکرکرے ، کچھ دیکھے تو اس کی بینائی(بصیرت) میں اضافہ ہوجائے، دنیا کے تجربات سے فائدہ اٹھائے اور پھر صحیح اور روشن راستہ کا انتخاب کرے تاکہ وہ راستہ میں گمراہی و ضلالت کے گڈھوں میں گرنے سے بچ جائے۔
اس حدیث کی روشنی میں صاحب بصیرت وہ شخص کہلاتا ہے جو سننے اور دیکھنے والی چیزوں سے بھی عبرت حاصل کرلیتا ہے۔البتہ عبرت کا حصول اور عبرت لینے کا طریقہ ان لوگوں سے سیکھا جائے جو صاحبان فکر و تأمل ہوں ۔گھر والے اپنے بچوں کو سکھائیں کہ کس طرح صالح افراد سے فکر و تأمل کرنا سیکھا جائے۔اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ خود بھی ہر کام کرنے سے پہلے اس کے نتائج و آثار کے متعلق غور و فکر کریں اور اپنے بچوں اور گھر والوں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دلائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔بحارالأنوار، ج68، ص 155۔
۲۔الکافی، کتاب الإیمان و الکفر، بَابُ اَلتَّفَکُّرِ، ج2، ص55۔
۳۔میزان الحکمة، محمد ری شهری، ج ٣، ص ٦٢۔
۴۔أعلام الدین فی صفات المؤمنین، ج1، ص297۔
۵۔تحف العقول عن آل الرسول علیهم السلام، ج1، ص442۔
۶۔شیخ صدوق، الخصال، ج1، ص42۔
۷۔نہج البلاغہ، خطبہ 153۔
تحریر: سجاد ربانی
حدیث امام حسن عسکری(ع) کی روشنی میں شیعوں کی ذمہ داری
بنیادی طور پر دین کا مقصد بندگی ہے لیکن ہر بندگی و عبادت نہیں بلکہ ایسی بندگی و عبادت جس میں تفکر و تأمل پایا جاتا ہو چونکہ وہ عبادت و بندگی جس میں فکر و تأمل کا گذر نہ ہو عبادت شمار نہیں ہوتی۔اور یاد رہے کہ عبادت میں فکر و تأمل کے معنی احکام خدا اور اس کی آیات میں غور و فکر کرنا ہے چنانچہ معصوم(ع) سے روایت ہے:’’لَیست العِبادَةُ کَثرَةَ الصِّیامِ وَ الصَّلوةِ وَ اِنّما العِبادَةُ کَثرَةُ التفکُّرِ فى اَمرِ اللّه‘‘۔ کثرت کے ساتھ نماز پڑھنا یا روزہ رکھنا عبادت نہیں ہے بلکہ احکام و اوامر خدا کے بارے میں کثرت کے ساتھ غور و فکر کرنا حقیقی عبادت ہے۔

wilayat.com/p/4679
متعلقہ مواد
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین