امام سجاد(ع) کی سیرت میں اعلیٰ طرز حیات کے نمونے

اسلامی ثقافت اور فکر کے اعتبار سے انسان کو بیکار خلق نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس کی دنیاوی زندگی آخرت میں ابدی زندگی کے حصول کے لئے ایک راستے اور پل کی حیثیت رکھتی ہے لہذا اسے دنیا میں ایک مطلوبہ اور اقدار سے بھری زندگی گزارنی ہوگی جو آخرت میں اسے ایک اعلی اور بلند مقام عطا کرے۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلامی تعلیمات صرف آخرت کو آباد کرنے کی خاطر ہیں بلکہ اس کا واضح سا مطلب یہ ہے کہ اسے اپنی دنیاوی زندگی کو اس انداز سے بسر کرنا چاہیئے جو دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں اس کی سعادت و کمال کی ضمانت بنے۔

ولایت پورٹل: اسلامی ثقافت اور فکر کے اعتبار سے  انسان کو بیکار خلق نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس کی دنیاوی زندگی آخرت میں ابدی زندگی کے حصول کے لئے ایک راستے  اور پل کی حیثیت رکھتی ہے لہذا اسے دنیا میں ایک مطلوبہ اور اقدار سے بھری زندگی گزارنی ہوگی جو آخرت میں اسے ایک اعلی اور بلند مقام عطا کرے۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلامی تعلیمات صرف آخرت کو آباد کرنے کی  خاطر ہیں بلکہ اس کا واضح سا مطلب یہ ہے کہ اسے اپنی دنیاوی زندگی کو اس انداز سے بسر کرنا چاہیئے جو دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں اس کی سعادت و کمال کی ضمانت بنے۔ اور قرآن مجید میں انسانی زندگی کے ان دونوں مراحل کی بڑے ہی واضح انداز میں عکاسی کی گئی ہے :’’ وَ مِنْهُمْ مَنْ یَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِی الدُّنْیا حَسَنَةً وَ فِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النَّارِ‘‘۔(۱)اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ دعا کرتے  ہیں: اے ہمارے پروردگار! اس دنیا اور آخرت دونوں میں ہمیں خیر و نیکی عطا فرما! اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے امان میں رکھ ۔
قارئین کرام ! دیگر آئمہ طاہرین (ع) کی طرح امام سجاد(ع) بھی ہمارے لئے اسوہ عمل ہیں اور آپ کی زندگی کے ہر ہر پہلو پر ہمیں غور  اور عمل کرنا چاہیئے تاکہ ہماری زندگی خدائی رنگ سے رنگین ہوجائے ۔
۱۔امام سجاد (ع) عبادت اور بندگی کا نمونہ
مطلوبہ اور سعادت مند زندگی کا سب سے اہم رکن اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت اور اس کے ساتھ روحانی رشتہ ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید کی آیات میں متعدد بار اس کی طرف اشارے کئے گئے ہیں :’’وَ مَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْری فَإِنَّ لَهُ مَعیشَةً ضَنْکاً وَ نَحْشُرُهُ یَوْمَ الْقِیامَةِ أَعْمى‘‘۔(۲)
اور جو میری یاد سے روگردانی کرے گا ، اس کی سخت زندگی ہوگی۔ اور قیامت کے دن ، ہم اس کو نابینا اٹھائیں گے۔
امام سجاد (ص) کی سب سے اہم اور قابل قدر خصوصیت آپ کی عاجزی اور خدا کے ساتھ  آپ کا رشتہ اور عقیدت تھی یہاں تک کہ علمائے حدیث  نے جب امام کی اس خصوصیت کا تعارف کروا تو وہ یہ تعبیر کرتے ہیں کہ جب سید سجاد(ع) اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے خدا کے حضور کھڑے ہوتے تھے تو خوف خدا سے آپ کے جسم کے تمام اعضا کانپ اٹھتے تھے  ۔ اور جب دعا کرتے تو آپ کے جسم کے کسی حصہ میں حرکت نہیں ہوتی تھی بلکہ صرف وہی حصہ حرکت کرتا تھا جسے ہوا حرکت دیتی تھی چنانچہ علماء بیان کرتے ہیں:’’کَانَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ إِذَا فَرَغَ مِنْ وُضُوءِ الصَّلَاةِ وَ صَارَ بَیْنَ وُضُوئِهِ وَ صَلَاتِهِ أَخَذَتْهُ رِعْدَةٌ وَ نُفَضَةٌ فَقِیلَ لَهُ فِی ذَلِکَ فَقَالَ وَیْحَکُمْ أَ تَدْرُونَ إِلَى مَنْ أَقُومُ وَ مَنْ أُرِیدُ أُنَاجِی وَ فِی کُتُبِنَا أَنَّهُ کَانَ إِذَا تَوَضَّأَ اصْفَرَّ لَوْنُهُ فَقِیلَ لَهُ فِی ذَلِکَ فَقَالَ أَ تَدْرُونَ مَنْ أَتَأَهَّبُ لِلْقِیَامِ بَیْنَ یَدَیْهِ‘‘۔(۳)
مناقب لکھتے ہیں: جب بھی علی ابن الحسین (ع) نماز سے پہلے وضو سے فارغ ہوتے تو ایک عجیب قسم کا رعشہ آپ کے جسم اقدس میں شروع ہوجاتا تھا جب آپ سے سوال کیا جاتا مولا یہ کیا ہو رہا ہے: تو فرماتے کہ وائے ہو تم پر کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ میں کس کی بارگاہ میں جارہا ہوں ۔
2- امام سجاد (س) اور ناداروں کی مسیحائی
اسلامی طرز حیات کی ایک سب سے قیمتی اور قابل قدر خصوصیت یہ ہے کہ مؤمن جہاں اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے رزق حلال فراہم کرتا ہے وہیں اسے اپنے دیگر مؤمن بھائیوں کی ناداری کا بھی خیال رہتا ہے چونکہ ایسے ضرورت مندوں سے چشم پوشی انسان کو دنیا و آخرت دونوں میں شقی بنا دیتی ہے چنانچہ قرآن مجید نے جہاں نماز کو ترک کرنے والوں کو جہنم سے ڈرایا ہے وہیں غریبوں اور ناداروں کا خیال نہ رکھنے والوں کو بھی توبیخ کی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:’’ما سَلَکَکُمْ فی‏ سَقَرَ  قالُوا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّینَ وَ لَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکینَ‘‘۔(۴) جب کچھ جہنمیوں سے دریافت کیا جائے گا کہ کون سی چیز تمہارے یہاں آنے کا سبب قرار پائی۔ تو وہ کہیں گے کہ ہم نہ تو نماز پڑھتے تھے اور نہ ہم مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔
پس قرآنی آیات کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اہل جہنم میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہونگے جو اپنے معاشرے کے ضرورت مندوں اور محتاجوں کا خیال نہیں رکھتے ہونگے ۔
تاہم ، اگر ہماری زندگی میں امام سجاد علیہ السلام جیسے سخی و کریم ذوات کے نمونے ہونگے تو ہم کبھی بھی کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کریں گے اور ہم اس دینی اور معاشرتی فرض کو بخوبی نبھائیں گے۔ امام سجاد (ص) کے معاملہ میں ابو حمزہ ثمالی سے روایت ہے:’’إِنَّ صَدَقَةَ السِّرِّ تُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ‘‘۔(۵) مخفی  طور پر صدقہ دینا خدا کے غضب کو ختم کردیتا ہے۔
علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں محمد ابن اسحاق کی روایت نقل کی ہے :کہ مدینہ منورہ میں ایک بڑا طبقہ ایسا بھی تھا جسے یہ نہیں  پتہ تھا کہ ان تک کھانا کون پہونچاتا ہے  چنانچہ امام سجاد(ع) کی شہادت کے بعد انہیں یہ معلوم ہوا کہ ہمیں راتوں میں کھانا پہونچانے والا کوئی اور نہیں بلکہ امام سجاد (ع) تھے ۔(۶)
۳۔امام سجاد(ع) اور عفو
معاشرتی زندگی کی ایک اہم خصوصیت دوسروں کی کوتاہیوں کو نظرانداز کردینا اور حلم کا مظاہرہ کرنا  ہے ۔اور اگر انسانی معاشرے میں اس عنصر کا فقدان ہو تو  اس میں ہمیشہ نزاع، دشمنی، نفرت ، تصادم اور تشدد سایہ فگن رہیں گے اور پھر جہاں یہ سب چیزیں ہوں وہاں امن و سکون کا وجود تو ہو ہی نہیں سکتا چنانچہ اللہ تعالٰی بھی ہر ایک کو اس قرآنی  حکم پر عمل کرنے کی دعوت دیتا ہے:’’خُذِ الْعَفْوَ وَ أْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ أَعْرِضْ عَنِ الْجاهِلینَ‘‘۔(۷)اے میرے رسول! آپ عفو کا راستہ اختیار کریں نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی کریں۔
امام سجاد(ع) کی زندگی میں عفو اور  بخشش کے بے پناہ نمونے ملتے ہیں چنانچہ ایک جگہ یہ روایت ملتی ہے کہ ایک کنیز امام(ع) کے لئے پانی لیکر آئی اور لوٹا اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا جس سے امام(ع) کا سر اقدس زخمی ہوگیا کنیز بڑی شرمندہ ہوئی اور اس خوف میں کہ کہیں امام(ع) اسے کچھ نہ کہیں اس آیت کی تلاوت کرنی لگی:’’وَالْکَاظِمِینَ الْغَیْظَ‘‘، امام (ع) نے فرمایا: میں نے اپنے غصہ کو پی لیا۔’’وَالْعَافِینَ عَنِ النَّاسِ‘‘ فرمایا : میں نے تجھے معاف کردیا ۔ کنیز نے کہا:’’وَاللّهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ‘‘ ۔ فرمایا میں نے تجھے آزاد کردیا ۔
۴۔ امام سجاد(ع) کا صبر و بردباری
اسلامی طرز حیات میں، صبر ایک کلیدی اور اہم اخلاقی صفت ہوتی  ہے۔مذہبی اور اخلاقی دنیا میں  صبر سب سے اہم عنصر ہے کہ جسے ہر ایک انسان کی زندگی میں ہونا چاہیئے چونکہ یہ تمام اچھائیوں اور خوبیوں کی جڑ اور بنیاد ہے چنانچہ ارشاد ہوتا :’’إِنَّما یُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسابٍ‘‘۔(۹)
بے شک صبر کرنے والے اپنے اجر اور جزا کو بے حساب اللہ کی طرف سے حاصل کریں گے۔
ابو حمزہ ثمالی خود امام سجاد(ع) سے روایت کرتے ہیں:’’ قیامت کے دن ایک منادی ندا دے گا کہ صبر کرنے والے اٹھیں ۔ چنانچہ کچھ لوگ اٹھ کر جنت کی طرف چل پڑیں گے دروازے پر ملائکہ سوال کریں گے کہ ابھی تو میزان نصب نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی کا حساب لیا گیا تو تم لوگ کون ہو؟ جواب دیں گے کہ ہم نے دنیا میں بہت  صبر کیا تھا لہذا ہم بغیر حساب و کتاب کے جنت میں جا رہے ہیں۔ملائکہ سوال کریں گے کہ تم لوگوں نے کس چیز پر صبر کیا تھا جو تمہیں یہ اجر دیا گیا؟ جواب دیں گے: ہم نے اللہ کی اطاعت پر صبر کیا اور اس کی معصیت سے اپنے کو روکا ۔ فرشتے کہیں گے کہ جاؤ تم بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوجاؤ چونکہ تم اسی اجر کے مستحق تھے ۔(10)

امام سجاد علیہ السلام کے حالات میں ملتا ہے :’’ ایک دن امام (ع) کے یہاں کچھ مہمان آئے ہوئے تھے اور آپ ان کے پاس موجود تھے ۔ کہ اچانک گھر کے اندر سے رونے کی آواز سنائی دی ، آپ اٹھے اور معلوم کیا تو بتایا گیا کہ آپ کا ایک بچہ انتقال کرگیا ہے امام (ع) مہمانوں کے پاس واپس تشریف لے آئے  اور انہیں آکر اطلاع دی ۔ انہیں امام(ع) کا صبر دیکھ کر تعجب ہوا ،امام ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : ہم اس خاندان سے ہیں کہ جو خوشیوں کے اوقات میں اللہ کا مطیع اور ناگوار مواقع پر اس کا شکر گذار رہتا ہے‘‘۔(۱۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔سوره بقره:201۔
۲۔سوره طه:124۔
۳۔بحار الأنوار، ج‏46 ، ص78۔
۴۔سوره مدثر:42-44۔
۵۔بحار الأنوار، ج‏46، ص88، ح77۔
۶۔ سابق حوالہ ۔
۷۔سوره اعراف: آیه 199۔
۸۔تاریخ دمشق، ابن عساکر، ج36، ص155۔
۹۔سوره زمر: 10۔
۱۰۔کشف الغمة فی معرفة الأئمة ، ج‏2 ، ص103۔
۱۱۔حلیه الاولیاء، ابو نعیم اصفهانی، ج3، ص138۔

تحریر : سجاد ربانی





0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین