دور اندیشی ہی عقلمندی ہے

ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی کام اور عمل کو انجام دینے سے پہلے کئی مرتبہ اس کے نتیجے اور انجام کے بارے میں سوچ لے اور اس کے فائدے اور نقصان کی اچھی طرح پرکھ کرلے اب اگر اس میں فائدہ ہو اسے انجام دے اور جس میں فائدہ نہ ہو اسے ترک کردے چنانچہ جناب امیر(ع) کا ارشاد ہے:’’من تورط فی الأمور بغیر نظر فی العواقب فقد تعرض للنوائب‘‘۔جو شخص بھی بغیر سوچے اور انجام کی فکر کئے بغیر کسی چیز میں داخل ہوتا ہے در حقیقت وہ اپنے کو بلاؤں اور مصیبتوں میں گرفتار کرلیتا ہے۔

ولایت پورٹل: قارئین کرام! دور اندیشی اور اپنے انجام کے بارے میں فکر مندی ایک ایسا امر ہے جس کی اسلامی تعلیمات نے ہمیں مسلسل تأکید کی ہے چنانچہ قرآن مجید کی نوع بشر کو تأکیدی تعلیم یہی ہے کہ انسان اس طرح سے سوچے اور فکر کرے کہ وہ دنیا و آخرت میں سعادت مند بن جائے ۔چنانچہ سورہ مبارکہ شمس میں اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود اور ان کے برے انجام کو بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا:’’ ولایخاف عقباها‘‘۔(سورہ شمس:۱۵)۔ اور اسے(قوم ثمود کو) اس کے انجام کا کوئی خوف نہیں ہے۔
قرآن مجید کی اس آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ تمام بدبختی بد نصیبی اور برے انجام سے اس قوم کا جو سامنا ہوا وہ اس وجہ سے تھا چونکہ یہ دور اندیش قوم نہیں تھی اور نہ ہی انھیں اپنے برے اعمال کے کرنے پر کسی طرح کی کوئی پشیمانی تھی۔
اگر آئمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث کا غائر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دوراندیشی اور اپنے انجام کی فکر کرنا عقلمندی کی دلیل ہے چنانچہ امیرالمؤمنین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’ اعقل الناس انظرهم فی العواقب‘‘۔ لوگوں میں سب سے عقلمند اور ہوشیار وہ شخص ہے جو اپنے انجام کے بارے میں فکر کرے۔
ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:’’انما العقل... النظر فی العواقب...‘‘۔ بے شک عقلمندی ۔۔۔ انجام کی فکر کرنے میں ہے۔
اور اسی طرح آپ مالک اشتر کو لکھے اپنے مکتوب میں تأکید فرماتے ہیں کہ جب بھی تم حکومت کے لئے کچھ لوگوں کا انتخاب کرو اور انھیں اپنی حکومت میں کسی منصب کی ذمہ داری دو تو صرف انھیں  لوگوں کو ذمہ داری سپرد کرنا جن میں متعدد خصوصیات من جملہ ان میں دور اندیشی بھی پائی جاتی ہو۔
اسی طرح ایک مقام پر امیرالمؤمنین(ع) نے ارشاد فرمایا:’’اذا هممت بأمر فاجتنب ذمیم العواقب فیه‘‘۔جب بھی تم  کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ کرو تو اس کے نامطلوب نتائج سے اجتناب کرو۔
اگر امیرالمؤمنین علیہ السلام کے کلمات اور خاص طور پر نہج البلاغہ کا مطالعہ کریں تو آپ نے بہت سے مقامات پر دوراندیشی کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ خطبہ نمبر ۱۱۳ میں حضرت نے دور اندیشی اور مستقبل کے بارے میں سوچنے کو باایمان لوگوں کا وطیرہ اور طرز زندگی قرار دیا ہے:’’المومنون هم الذین عرفوا ما أمامهم‘‘۔ سچے اور حقیقی مؤمن وہی لوگ ہیں جو اپنے مستقبل کو پہچان لیتے ہیں۔
پس ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی کام اور عمل کو انجام دینے سے پہلے کئی مرتبہ اس کے نتیجے اور انجام کے بارے میں سوچ لے اور اس کے فائدے اور نقصان کی اچھی طرح پرکھ کرلے اب اگر اس میں فائدہ ہو اسے انجام دے اور جس میں فائدہ نہ ہو اسے ترک کردے چنانچہ جناب امیر(ع) کا ارشاد ہے:’’من تورط فی الأمور بغیر نظر فی العواقب فقد تعرض للنوائب‘‘۔جو شخص بھی بغیر سوچے اور انجام کی فکر کئے بغیر کسی چیز میں داخل ہوتا ہے در حقیقت وہ اپنے کو بلاؤں اور مصیبتوں میں گرفتار کرلیتا ہے۔
نامطلوب انجام سے گریز
جیسا کہ ہم نے ابتداء میں بھی مولا کی اس حدیث کا حوالہ دیا :’’اذا هممت بأمر فاجتنب ذمیم العواقب فیه‘‘۔
جب بھی کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرو تو اگر اس کے نامطلوب نتائج برآمد ہوسکتے ہوں تو اسے انجام دینے سے گریز و پرہیز کرو ۔
امام علی علیہ السلام نے اس اہم نکتہ کی وضاحت کچھ اس انداز سے فرمائی ہے:’’الفکر فی العواقب ینجی من المعاطب‘‘۔
اعمال کے بجا لانے میں فکر کرنا ہلاکت سے نجات کا ذریعہ ہے۔
قارئین کرام! حضرت امیر علیہ السلام نے ہمیشہ ایک مؤمن کو دور اندیش کہا ہے اور فرمایا ہے کہ مؤمن کسی بھی کام کو انجام دینے سے پہلے اس کے نتیجہ پر غور کرلے اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ پہلے مرحلے میں خود مولا نے دور اندیشی کا مظاہرہ فرمایا ہے جس کا نتیجہ ہم آج حقیقی اسلام کی صورت ملاحظہ کررہے ہیں۔
خود امام علیہ السلام رسول اللہ(ص) کی وفات کے بعد پیش آنے والے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے: اے مصر کے لوگوں! رسول اللہ(ص) کی وفات کے بعد ہمارے ساتھ وہ ہوا جس کا ہمیں گمان بھی نہیں تھا اور میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ لوگ خلافت کو خاندان اہل بیت(ع) سے نکال کر فلاں شیخ کے اطراف میں اکھٹا ہوجائیں گے لیکن اب میرے سامنے دو چیزیں تھیں ایک تو یہ کہ میں اپنے حق کے لئے تلوار اٹھا لوں اور دوسرے یہ کہ میں اپنے حق کو چھینتے ہوئے دیکھ لوں لیکن اسلام کو بچا لوں لہذا میں نے دوسرے کو پہلے پر ترجیح دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
۱۔قرآن کریم، سوره شمس، آیت 15۔
۲۔نهج البلاغه، خطبه 113 . نامه 53 و 62۔
۳۔شرح نهج البلاغه، ج 1، ص 308۔
۴۔غررالحکم و دررالکلم، ح 3367.ح 4119.ح 1460.ح 3887۔

 


0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین