ولایت پورٹل: دین اور شریعت کی نظر میں، فرد کبھی معاشرہ سے جدا نہیں ہوتا بلکہ کچھ افراد کے مجموعہ کو ہی معاشرہ کہا جاتا ہے اور اسی طرح معاشرے میں پنپنے والے شرّی عناصر اصلاح پسند لوگوں کو بھی متأثر کرتے ہیں۔لہذا کوئی شخص یہ بہانا بنا کر کبھی دوسروں کے برے اعمال کی نسبت غیر جانبدار نہیں رہ سکتا کہ ہمیں کیا مطلب وہ چاہیں جو کریں! اگر کسی معاشرہ میں الہی اقدار پایمال کئے جائے اور اس کی حدود کو نظر انداز کیا جائے اگرچہ ایسا کرنے والے بہت کم لوگ اور تعداد میں قلیل ہی کیوں نہ ہوں تو بھی لا محالہ طور پر کچھ دنوں کے بعد معاشرے میں اس کے برے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
چنانچہ اس کے متعلق خود حضرت سرور کونین(ص) سے ایک بہت ہی خوبصورت و جاذب نظر تشبیہ نقل ہوئی ہے حضرت کا ارشاد ہے:’’کسی معاشرے میں ایک گنہگار شخص کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے کسی کشتی میں کچھ لوگ سوار ہوں اور جب یہ کشتی دریا کے بالکل درمیان پہونچ جائے یہ(گنہگار) شخص جہاں بیٹھا ہے وہیں سوراخ کرنے لگے ۔اگر کشتی میں بیٹھے ہوئے دوسرے لوگ اسے اس کام سے نہ روکیں بلکہ یہ سوچنے لگیں کہ ہمیں کیا مطلب یہ شخص تو صرف وہاں سوراخ کررہا ہے جہاں بیٹھا ہے اور جہاں ہم بیٹھے ہیں وہ وہاں سوراخ تھوڑا ہی کررہا ہے ۔اور وہ ان کے غیر جانبداری کے سبب وہ اپنی بری نیت کو عملی جامہ پہنا دے تو کچھ دیر کے بعد پوری کشتی میں پانی ہی پانی ہوگا اور سب کے سب دریا میں غرق ہوجائیں گے۔(۱)
پس اس تمثیلی واقعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر گناہ اور منکرات علنی طور پر کسی معاشرے میں رائج ہوجائیں تو اس کا نقصان صرف کسی ایک فرد تک محدود نہیں رہتا بلکہ بہت جلد یا کچھ دیر سے ہی سہی، سب کو اپنی چپیٹ میں لے لے گا۔
لہذا ایسے موقع پر دینی فرض اور شرعی ذمہ داری یہ ہے کہ معاشرے کے تمام لوگ اپنے معاشرے اور اپنی آئندہ نسلوں کے تحفظ کی خاطر امر بالمعروف اور نہی از منکر کے فریضہ پر عمل کریں تاکہ ایک پاک و پاکیزہ ،اور شیطانی وسوسوں سے منزہ فضا خود ان کے لئے اور ان کی نسلوں کے لئے ہموار ہو تاکہ وہ آسانی سے گناہوں کی غلاظت میں آلودہ نہ ہوسکیں۔
معصومین(ع) سے منقول روایات میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارے ملتےہیں کہ اگر کسی معاشرے میں گناہ اور منکرات علنی طور پر انجام پانے لگیں اور کوئی ان کا سد باب نہ کرے تو اس کے نتائج ایک دن معاشرے کے تمام افراد کے دامن گیر ہوجاتے ہیں۔
امام جعفر صادق(ع) نے اس کے متعلق رسول اللہ(ص) سے اس طرح نقل کیا ہے:’’إنَّ الْمَعْصِیَةَ اذا عَمِلَ بِهَا الْعَبْدُ سِرّاً لَمْ تَضُرَّ اِلاّ عامِلَها، وَ اِذا عَمِلَ بِها عَلانِیَةً وَ لَمْ یُغَیَّرْ عَلَیْهِ، ءَضَرَّتِ الْعامَّةَ‘‘۔
جب کوئی انسان مخفی طور پر کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے گناہ کا نقصان صرف کرنے والے کو ہی پہونچتا ہے لیکن جب کوئی آشکارا اور کھلم کھلا گناہ کرے۔ اور دوسرے اسے نہ روکیں۔ تو اس کا نقصان اور ضرر معاشے کے دوسرے تمام لوگ اور پورے معاشرے کو اٹھانا پڑتا ہے۔
اس کے بعد امام (ع) اس کی علت اور سبب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’وَ ذلِکَ اَنَّهُ یُذِلُّ بِعَمَلِهِ دینَ اللّهِ وَ یَقْتَدی بِهِ اَهْلُ عَداوَةِ اللّهِ‘‘۔(۲)
اور اس وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔یعنی اس کے علنی گناہ و معصیت کا نقصان پورے معاشرے کو اٹھانا پڑتا ہے۔چونکہ وہ اس عمل بد کے ارتکاب سے دین خدا کی تذلیل کرتا ہے اور دشمنان خدا کو اتنی جرأت مل جاتی ہے اور وہ کھلم کھلا اس کی اقتداء و پیروی کرسکیں اور اس کا ساتھ دے سکیں۔
امر بالمعروف اور نہی از منکر کے سلسلہ میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ انسان کو اس کے متعلق دقیق اطلاع حاصل کرنا اور اس کے طریقہ کار اور لائحہ عمل پر توجہ کرنا بہت ضروری ہے ۔چونکہ بسا اوقات کسی غلط طریقہ کا استعمال کرکے امربالمعروف اور نہی از منکر سے متوقع نتائج نہیں مل پاتے اور خدا نخواستہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ سامنے والے پر اس کے الٹے اثرات ظاہر ہوجائیں۔
امربالمعروف اور نہی از منکر کی شناخت اور معرفت اور ان دو الہی و دینی فرائض کے متعلق صحیح لائحہ عمل اختیار کرنا اتنا اہم ہے کہ خود معصوم رہنماؤں نے ایسے افراد کو ان دونوں فرائض کی ادائیگی سے منع کیا ہے جنہیں ان کے متعلق آگاھی نہ ہو یہاں تک کہ وہ سیکھ نہ لیں۔ چنانچہ خود سرکار ختمی مرتبت(ص) کا ارشاد ہے:’’مَنْ عَمِلَ عَلی غَیْرِ عِلْمٍ کانَ ما یُفْسِدُ اءَکْثَرَ مِمّا یُصْلِحُ‘‘۔(۳)
اگر کوئی شخص نہ جانتے ہوئے کسی عمل کے انجام دینے پر کمر بستہ ہوجائے تو اس کے مفاسد و نقصانات اس کے مصالح اور فوائد سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔
واضح سی بات ہے کہ سرکار ختمی مرتبت(ص) کے کلام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو لوگ امربالمروف و نہی از منکر کرنے کے اصول سے آگاہی نہیں رکھتے ، ان سے تکلیف اور شرعی ذمہ داری ساقط ہوجاتی ہے۔ نہیں ! بلکہ وہ مکلف ہیں اور ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ پہلے وہ امربالمعروف کے بارے میں جانیں اور ان کے اندر ان کی نسبت جو خامیاں و کمیاں ہیں انہیں دور کریں اور پھر امر بالمعروف اور نہی از منکر کرنے کا عملی اقدام کریں۔
اس بنا پر ضروری ہے کہ ہمیں امر بالمعروف اور نہی از منکر کے صحیح اصول و ضوابط سیکھنا چاہیئے اور پہلے مرحلہ میں خود ان چیزوں پر عمل کرنا چاہیئے جن کے متعلق ہم دوسرں کو امر بالمعروف اور نہی از منکر کرنا چاہتے ہیں چونکہ صحیح معیارات کو اپنا کر امر بالمروف و نہی از منکر کرنا ہی سب سے بڑا اسلامی ادب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔تفسیر نمونہ، ج ۳، ص ۳۸۔
۲۔بحارالانوار، ج ۱۰۰، ص ۷۸۔
۳۔اصول کافی، ج ۱، ص ۳۵۔
امر بالمعروف اور نہی از منکر کرنے کے آداب
سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہمیں خود امر بالمعروف اور نہی از منکر کے صحیح اصول و ضوابط سیکھنا چاہیئے اور پہلے مرحلہ میں خود ان چیزوں پر عمل کرنا چاہیئے جن کے متعلق ہم دوسرں کو امر بالمعروف اور نہی از منکر کرنا چاہتے ہیں چونکہ صحیح معیارات کو اپنا کر امر بالمروف و نہی از منکر کرنا ہی سب سے بڑا اسلامی ادب ہے۔

wilayat.com/p/3885
متعلقہ مواد
فکر قرآنی:صاحبان ایمان کے متعلق جناب نوح(ع) کا فیصلہ
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین