ولایت پورٹل: آج ہماری زندگی پر مغربی تہذیب و ثقافت اس حد تک اثر انداز کہ ہمارا سارا سکون و اطمئنان ختم ہو چکا ہے۔ہماری آج سب سے بڑی آرزو و تمنا یہ ہوتی ہے کہ ہم کسی طرح اپنی زندگی میں عیش طلبی کے تمام وسائل فراہم کرسکیں اور ہم اپنے ذہن سے یہ فکر بھی نکال دیتے ہیں کہ ہماری درآمد کا ذریعہ حلال کاروبار ہونا چاہیئے ۔چونکہ دنیا کی زرق و برق نے ہماری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور بس ہم یہ فکر کرتے ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے ہماری زندگی میں کسی بھی ظاہری سامان کی کمی نہ رہنے پائے ورنہ لوگ ہمیں کہیں پسماندہ کہہ کر طعنہ نہ دینے لگیں۔
جب بھی کسی ملک میں مغربی تہذیب سایہ فگن ہوتی ہے وہاں کے باشندوں میں عیش طلبی ، ساز و سامان ،زیور و زینت کی ہوڈ لگ جاتی ہے چونکہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ انسان کمال حقیقی تک پہونچے ۔لیکن اس ثقافت کے بر خلاف ہمیں اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ کسی کے پاس زیادہ مال و دولت ہونا کوئی عیب نہیں ہے بلکہ ہنر یہ ہے کہ انسان کے پاس اسے صحیح جگہ خرچ کرنے کا معیار ہونا چاہیے ۔دین اسلام نے زندگی کے ہر شعبے کے واسطے ایک خاص حکم و دستور معین فرمایا ہے ۔اور زندگی کا کوئی بھی ایسا مرحلہ نہیں ہے جس کے واسطے دین کا پیغام موجود نہ ہو۔ اور اس نے انبیاء، آئمہ اور اولیاء کے ذریعہ ہم تک نہ پہونچایا ہو۔پس جو شخص بھی اسلام کی روح بخش تعلیمات سے مستفید ہوکر زندگی گذارے گا اسے سکون بھی نصیب ہوگا اور لذت حیات کا ذائقہ بھی اسے مل کر رہے گا۔
ہم اس دنیا میں چاہے جتنی مدت کے لئے آئے ہوں ، یہ ہمارا مقصد تخلیق نہیں ہے بلکہ ہمیں اس دنیا میں اس لئے بھیجا گیا ہے تاکہ ہم یہاں کے وسائل سے بقدر ضرورت استفادہ کرتے ہوئے اپنے کمال کی راہیں ہموار کریں اور ترقی حاصل کریں لہذا ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ انسان اس زندگی کو اتنا سخت بنا کر گذارے ۔لیکن مغربی ثقافت اپنے فاسد اعتقاد کو ٹی وی چینلز اور انٹرنیٹ کے ذریعہ ہمارے ذہنوں میں تلقین کر رہی ہے اور ہمیں خواہشات سے بھری اس دنیا میں ڈھکیلا جارہا ہے کہ جہاں ہر طرف سرمایہ داری کی رنگینیاں ہیں جس کے سبب بہت سے افراد وسوسہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور پھر زندگی ہمارے لئے سخت بن جاتی ہے اور سکون و آرام رخت سفر باندھ لیتا ہے۔جبکہ اسلام کی تعلیمات کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے بتائے اور بنائے گئے اصولوں کے تحت اپنی زندگی گذاریں تاکہ وہ ہم سے راضی رہے۔لیکن ہم پروردگار کے حکم سے سرپیچی کرتے ہوئے ان لوگوں کو اپنی زندگی کے آئیڈیل کے طور پر پسند کرتے ہیں جن کی اتباع کے سبب ہمارے ہاتھ سے اسلامی طرز حیات کی وہ مضبوط ڈور چھوٹ جاتی ہے جسے اللہ نے نازل کیا تھا۔
ہماری زندگی میں بہت سی مشکلات ایسی ہیں جن کے سبب ہم اسلامی طرز زندگی سے نکل کر عیش طلبی،عشرت زدگی، آرام طلبی اور ساز و سامان کی بہتات جیسی مصیب میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور پھر ان کے بُرے آثار ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی پر ہر چیز سے زیادہ مشہود ہوتے ہیں ۔آج ہم اپنے معاشرے میں جو طبقاتی اختلاف ملاحظہ کرتے ہیں کہ فلاں صاحب بہت بڑے ہیں اور فلاں صاحب مفلس و نادار ہے ،یہ وہ معیار ہے جو اسی ناقص تفکر کے سبب وجود میں آیا ہے۔
ایک دوسرے کی دیکھا دیکھ ، کہ فلاں صاحب کا گھر تو ایسا ہے اور فلاں نے ایسی گاڑی لی ہے تو ہمیں بھی ایسا ہی گھر بنانا ہے اور ویسی ہی گاڑی خریدنی ہے، چاہے ہمارے پاس اتنا مال بھی نہ ہو چاہے ہمیں قسطوں پر ہی کیوں نہ خریدنا پڑے وغیرہ، یہ سب وہ مشکلات ہیں جو ہم اپنے معاشرے میں بہت زیادہ مشاہدہ کرتے ہیں۔
قارئین کرام! ہمیں اس فکر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ہمیں ایسی زندگی کی تمنا کرنی چاہیئے جو ہمیں ہمارے مقصد تخلیق سے قریب کرے۔ نہ کہ ایسی زندگی جو ہمیں اس مقصد سے دور کردے جس کے لئے ہم پیدا ہوئے تھے۔اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم اغیار کی تہذیب کا ڈھول پیٹنا بند کریں اور اسلامی اصول و طرز حیات کے پابند بن جائیں تبھی ہمیں سکون مل سکتا ہے اور اس کے لئے ہمارے پاس بے پناہ عملی نمونے موجود ہیں۔
رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای(مد ظلہ العالی) ایک موقع پر ایرانی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جب ہم حضرت فاطمہ زہرا(س) کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے نہایت ہی سادہ زندگی کا وہ اعلیٰ نمونہ نظر آتا ہے کہ جہاں اخلاق بھی ہے، الہی اقدار کی پاسداری و تحفظ بھی ہے ہمیں گھر میں ساز و سامان کی کثرت کی ہوس سے باہر نکلنا ہوگا ، ہمیں اسراف سے پرہیز کرتے ہوئے صرف بقدر ضرورت سامان و وسائل پر اکتفا کرنا ہوگا۔ہم اپنی چھوٹی چھوٹی آرزوں کو بلند مقاصد کے حصول میں مانع ایجاد نہ کریں ۔اگر آپ دختر پیغمبر اکرم(ص) کے جہیز کو ملاحظہ کریں تو بہت ہی مختصر سا ضروری ضروری سامان تھا اور بس‘‘۔(۱)
کبھی اسلام نے عیش طلب زندگی کو اپنے کسی پیرو کے لئے پسند نہیں کیا ہے اور بزرگان دین نے ہمیشہ ایسی زندگی کی مذمت کی ہے چنانچہ ہم امیرالمؤمنین(ع) سے مروی ایک حدیث میں پڑھتےہیں کہ آپ نے فرمایا:’’زخارف الدنیا تفسد العقول الضعیفة‘‘۔(۲) زرق و برق دنیا ، ضعیف عقلوں کو فاسد بنا دیتی ہیں۔
کوئی یہ خیال نہ کرے کہ اسلام کسی انسان کو اس کے سرمائے اور دولت کے استعمال سے روکتا ہے، نہیں! ہر گز نہیں ! اسلام کا مطالبہ یہ ہے اپنی کمائی ہوئی دولت کا استعمال کریں لیکن اعتدال اور میانہ روی کا خیال رکھا جائے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:’’وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا، إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ‘‘۔(۳) کھاؤ پیو مگر اسراف نہ کرو کہ خدا اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ آسائشوں سے بھری زندگی بسر کریں اور وہ سرمایہ جو ان کے پاس ہے۔ چاہے وہ حرام راستے یا کسی کا حق مار کر ہی حاصل ہوا ہو ۔ اپنے لئے وہ عشرت کدہ تعمیر کریں کہ جس کے سبب دوسروں کے سامنے سر اونچا کرکے چل سکیں اور فخر و مباہات کر سکیں ۔ جبکہ ہم سب کو یہ یاد رکھنا چاہیے ہمیں اپنی زندگی کے ہر عمل کا حساب دینا ہے اور ایک ایسے دن اللہ کے سامنے جانا ہے کہ جہاں سے فرار بھی ممکن نہ ہوگا چنانچہ ایک حدیث میں رسول اکرم(ص) کا ارشاد ہے : جو شخص کسی گھر کو لوگوں کے دیکھنے اور سننے کے لئے بناتا ہے، خداوند عالم قیامت کے دن اس گھر کو ،طوق کی صورت اس کی گردن میں ڈال کر اسے جہنم کے حوالے کردے گا‘‘ ۔ اصحاب نے سوال کیا : یا رسول اللہ(ص) یہ دیکھنے اور سننے کے گھر سے مراد کون سا گھر ہے؟ فرمایا: ایسا گھر جسے ضرورت سے زیادہ بنایا گیا ہو تاکہ وہ اپنے پڑوسیوں اور دینی بھائیوں کے سامنے فخر و مباہات کرسکے‘‘۔(۴)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ ۲۴ جنوری، ۱۹۸۶ء کے خطاب سے اقتباس۔
۲۔غرر الحکم،ص 65۔
۳۔سورہ اعراف:۳۱۔
۴۔من لا یحضره الفقیه،محمّدبن علی ابن بابویه، ج5، ص 315۔
تحریر:سجاد ربانی