ولایت پورٹل: آج عالم اسلام کی ایک گرانقدر عظیم اور تقریبی شخصیت حضرت آیت اللہ محمد علی تسخیری(رح) ہمارے درمیان نہیں رہے ہیں لیکن ان کی یادیں اور آثار ہمیشہ راہ وحدت میں قدم بڑھانے والوں کو روشنی دکھاتی رہیں گی۔ اس عظیم مرد مجاہد نے ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کی مشعل کو اٹھائے رکھا جس کی روشنی میں مسلمان اپنی عظمت رفتہ کو حاصل کرکے اغیار پر اپنی عظیم اور لازوال دینی ثقافت کا سکہ جما سکتے ہیں ۔
آیت اللہ تسخیری کی ولادت اور تعلیم
آیت اللہ محمد علی تسخیری(رح) نے نجف اشرف کے ایک علمی گھرانے میں ۲ ذی القعدہ سن ۱۳۶۴ ہجری مطابق ۱۹ اکتوبر سن ۱۹۴۴ء کی نورانی سحر میں آنکھیں کھولیں ، آپ کے والد ماجد حجۃ الاسلام و المسلمین الحاج شیخ علی اکبر عرصہ دراز تک مہد تمدن و علم ،یعنی جوار امیرالمؤمنین(ع) نجف اشرف میں تعلیم و تعلم میں مشغول تھے ۔ اگرچہ اصلیت میں آپ کا تعلق ایران کے صوبہ مازندران میں واقع شہر تنکابن سے تھا۔
آپ کی تعلیم کی ابتداء خود نجف اشرف سے ہی ہوئی اور اسکول کے بعد آپ نے رسمی طور پر حوزہ علمیہ میں داخلہ لے لیا اور ساتھ میں یونیورسٹی کی تعلیم کو بھی جاری رکھا۔ غرض درس خارج تک پہونچتے پہونچتے آپ نے متعدد مشہور علماء سے کسب فیض کیا ۔اور جب آپ درس خارج میں پہونچے تو حوزہ کے بزرگ علماء اور اپنے زمانہ میں علم و اجتہاد کے ستون شمار ہونے والے جید علماء کی مجلس درس سے بھرپور فیض حاصل کیا کہ جن میں آیت اللہ شہید باقر الصدر(رح)، آیت اللہ خوئی(رح)، آیت اللہ سید محمد تقی الحکیم(رح)، آیت اللہ شیخ جواد تبریزی(رح) ، آیت اللہ شیخ کاظم تبریزی(رح) ، آیت اللہ صدر بادکوبی (رح) اور آیت اللہ شیخ مجتبیٰ لنکرانی (رح) وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
آیت اللہ تسخیری(رح) نے نجف یونیورسٹی کی فقہ فیکلٹی سے عربی ادب اور فقہ و اصول میں کئی ڈگریاں حاصل کیں۔
یہی وجہ تھی کہ آپ حوزوی علوم کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سے رائج عصری علوم میں بھی مہارت رکھتے تھے چنانچہ آپ نے عربی ادب اور اشعار میں بہت سے جید علماء جیسا کہ آیت اللہ شیخ محمد رضا مظفر، شیخ عبد المہدی مطر اور شیخ محمد امین زین الدین کے سامنے زانوئے تلمذ طئے کئے۔ یہی وجہ تھی کہ جب نجف اشرف میں شعری نشستوں اور عربی قصائد کی محافل سجتی تھیں ان میں شیخ خصوصیت کے ساتھ سامعین کی توجہ کا مرکز ہوا کرتے تھے۔
آیت اللہ تسخیری اور صدام کی مخالفت
جس وقت آیت اللہ تسخیری جوان تھے اس وقت عراق میں بعثی حکومت کا قبضہ تھا جس کا ظالم حکمراں صدام لوگوں اور خاص طور پر شیعیان اہل بیت(ع) پر مظالم و ستم ڈھانے میں کسی طرح کی کوئی رعایت نہیں کرتا تھا۔ صدام کے خلاف نجف اشرف کے جہاں بزرگ علماء شامل تھے وہیں آیت اللہ تسخیری بھی اس تحریک و مہم کا ایک فعال رکن تھے یہی وجہ تھی کہ آپ کو اس تحریک میں شمولیت کے باعث جیل بھی جانا پڑا اور آپ کے لئے سزائے موت بھی مقرر کی گئی لیکن اللہ کی مدد سے آپ کو نجات ملی اور آپ کو بہت سے دیگر علماء کی طرح عراق چھوڑنا پڑا اور قم آکر آباد ہوگئے ۔ آپ نے قم پہونچ کر اپنے درس کو جاری رکھا اور یہاں کے حوزہ علمیہ میں موجود اکابر علماء جیسا کہ آیت اللہ محمد رضا گلپائگانی، آیت اللہ وحید خراسانی نیز آیت اللہ میرزا ہاشم آملی کے درس خارج میں شرکت کرنے لگے۔ اور حوزوی علوم پڑھنے کے ساتھ ساتھ کئی کالجز اور یونیورسٹیز میں بھی عربی ادب کی تدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔ لیکن ایران میں اسلامی انقلاب کی شاندار کامیابی کے بعد آیت اللہ تسخیری نے اپنے کو ملک و قوم کی خدمت کے لئے وقف کردیا اور بہت سے ثقافتی و تبلیغاتی امور کے سلسلہ میں متعدد بار ملک اور بیروں ملک کا سفر طئے کرنا پڑا ۔
آیت اللہ تسخیری کے علمی و ثقافتی کارنامے
آیت اللہ تسخیری (رح) نے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے اپنی زندگی کے آخری دن تک ایران کے بہت سے ثقافتی و تبلیغی عہدوں پر فرائض انجام دیے جن کی تفصیل حسب صراحت ہے :
۱۔ ۱۹۹۸ میں صوبہ گیلان کی نمائندگی میں مجلس خبرگان کے رکن ۔
۲۔ عالم اسلام کے ثقافتی امور میں رہبر انقلاب کے مشیر خاص۔
۳۔ ۱۹۹۰ء میں دفتر رہبر معظم کے بین الاقوامی شعبہ کے انچارج۔
۴۔ وزارت حج میں رہبر معظم کے خصوصی مشیر ۔
۵۔ ۱۹۹۴ سے ۲۰۰۱ تک بین الاقوامی تبلغی سنیٹر کے سربراہ ۔
۶۔ بین الاقوامی امور میں وزیر فرہنگ و ارشاد اسلامی کے مشیر خاص۔
۷ ۔ ۱۹۸۱ سے ۱۹۹۱ تک سازمان تبلغات کے بین الاقوامی نائب سربراہ۔
۸۔ اسلامی تبلیغی تنظیم کے بورڈ آف ٹرسٹ کے ممبر ۔
۹۔ یر ملکی طلباء کے تعلیمی پروگرامز کی نگراں کمیٹی کے سربراہ ۔
۱۰ ۔ اہل بیت(ع)عالمی اسمبلی کے ۹ برس تک سیکریٹری جنرل اور اس کے سپریم کونسل کے ممبر ۔
۱۰۔ عالمی تقریب بین مذاہب اسمبلی کی سپریم کونسل کے ممبر
۱۱۔ عالمی تقریب بین مذاہب اسمبلی کے جنرل سکریٹری ۔
نیز آیت اللہ تسخیری(رح) نے ان تمام عہدوں کے علاوہ ایران کے بہت سے دینی، تعلیمی، تبلیغی نیز ثقافتی اداروں کے رکن اور سربراہ کے طور پر نمایاں خدمت انجام دی ہیں ۔
آیت اللہ تسخیری کے علمی و قلمی آثار
آیت اللہ تسخیری ایران کی ان معروف اور چنندہ ہستیوں میں سے ایک ہیں جن کا قلم اور زبان پوری دنیا میں پھیلے مسلمانوں کی حمایت میں چلتے تھے ۔
۱۔آپ نے متعدد موضوعات پر تقریباً ۵۰ سے زیادی کتابیں تحریر کی ہیں کہ جن میں اسلامی تقریب اور اسلام کا قتصادی نظام خاص طور پر قابل ذکر ہیں اور جو دنیا کی بہت سی زندہ زبانوں از جملہ فارسی، انگلش اور اردو میں شائع ہوچکی ہیں۔
۲۔ تقریباً ۳۵۰ علمی اور تحقیقی مقالات دنیا کی مختلف زبانوں میں نشر ہونے والے مجلات میں شائع ہوچکے ہیں۔
۳۔ ایران کی کئی معروف یونیورسٹیز اور فیکلٹیز نیز حوزات میں تدریس کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں ۔
۴۔ تقریباً ۶۵۰ ریڈیو اور ٹیلویژن پروگرام جو فارسی و عربی زبان میں نشر ہوئے ،حصہ لے چکے ہیں ۔
۵۔ دنیا کے تقریباً ۲۰۰ مجلے اور اخبار ایسے ہیں جن میں آیت اللہ تسخیری کے انٹریوز ، مقالات یا ان کی شخصیت سے متعلق مضامین شائع ہوچکے ہیں ۔
۶۔ عربی زبان میں تقریباً ۳۰ قصیدوں پر مشتمل دیوان ’’ اوراق و اعماق ‘‘ کے نام شے شائع ہوچکا ہے ۔
۷۔پوری دنیا میں تقریباً ۲۰۰ سے زیادہ کانفرس اور سمیناروں میں اسلامی جمہوریہ ایران کی نمایندگی کرچکے ہیں ۔
۸۔ فارسی کی ۱۳ اہم کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ بھی کیا ہے ۔
۹۔ اپنے حوزوی دور کی تقریباً ۱۳ درس خارج کی تقاریر تحریر کی ہیں ۔
۱۰۔ مختلف یونیورسٹیرز میں ۲۰ سے زائد تھیسیز میں رہنمائی یا مشورے کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔
۱۱ ۔ بہت سے عالمی ثقافتی اور اجتماعی اداروں کی تأسیس میں شریک رہ چکے ہیں۔
وفات
آیت اللہ تسخیری نے ایک عرصہ تک دین مبین کی خدمت انجام دی اور جب تک زندہ رہے پرچم اتحاد بین المسلمین کو اپنے ہاتھوں میں اٹھائے رکھا آخر کار آج ۲۸ ذی الحجہ ۱۴۴۱ ہجری مطابق ۱۸ اگست ۲۰۲۰ ء بروز منگل تہران کے ہسپتال میں داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے معبود حقیقی کی بارگاہ میں جاکر سرخ رو ہوگئے۔
و سَلامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَ يَوْمَ مات وَ يَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا
تحریر : سجاد ربانی