ولایت پورٹل: قارئین کرام! مذہب شیعہ اور پیروان مکتب اہل بیت(ع) کا دیگر مسلمانوں سے بنیادی و اہم امتیاز یہ ہے کہ ہم نے زندگی کا کوئی راستہ بھی عصمت کی انگلی پکڑے بغیر طئے نہیں کیا اور بارہویں حجت کے پردہ غیب میں جانے کے بعد ہم نے عصمت سے قریب ترین شخصیات یعنی مراجع کرام کی سرپرستی میں زندگی کے سفر کو طئے کیا اور آج بھی شیعیت کا سب سے بڑا امتیاز و افتخار بھی یہی مراجع تقلید سے وابستگی اور ان کی پیروی ہے۔
اجتہاد و مرجعیت حقیقت میں اسلامی معاشرے میں متحرک و فعال موٹر کا کردار ادا کرتی ہے کہ جس کے ذریعہ سخت سے سخت حالات اور زمان و مکان کی محدودیت کو نظر انداز کرتے ہوئے دین کے متعبر منابع یعنی قرآن، سنت، اجماع اور عقل سے دین کے احکام کا استنباط و استخراج کیا جاتا ہے اور مسلمان،مؤمنین اور پیروان دین و حق کے حوالہ کئے جاتے ہیں تاکہ انحرافات سے بھری اس دنیا میں اپنے کو اکیلا محسوس نہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر اسلامی فرقوں میں تو اجتہاد کا دروازہ بند کردیا گیا لیکن الحمد للہ! ہمارے یہاں آج بھی یہ دروازہ کھلا ہوا ہے اور تا ظہور حضرت حجت(عج) کھلا رہے گا اور مؤمنین کرام عصمت کے بنائے اس چشمہ سے تا قیام قیامت استفادہ کرتے اور اپنی تشنگی بجھاتے رہیں گے۔
اجتہاد و مرجعیت ہی ایک ایسا عنصر ہے جس کے سبب لوگوں کے روزمرہ پیش آنے والے مسائل اور سوالات بغیر جواب کے نہیں رہتے اور دینی احکام زمانے کے تقاضوں کے پیش نظر اسلامی معاشرے میں پیش کئے جاتے ہیں۔
امام عصر(عج) کے غیبت کبریٰ میں چلے جانے اور نیابت خاصہ کے اختتام کے بعد خود امام عصر(عج) کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے اسلامی دنیا سے بڑے بڑے علماء اور مجتہدین نے تبلیغ دین اور خدمت مذہب کا بیڑا اٹھایا اور کئی علمی مراکز عالم وجود میں آئے انہیں میں سے دور حاضر کے دو علمی مراکز بہت اہمیت کے حامل ہیں:
1۔نجف اشرف
2۔قم المقدسہ
جہاں دنیائے شیعت کے گوشہ و کنار سے علماء نے اجتہاد و فقہ کے حصول کے لئے ان مراکز کا رُخ کیا وہیں افغانستان کے مظلوم و محروم شیعوں میں سے بھی کچھ جیالے اس راستہ میں نور کی قندیل بن کر ابھرے۔اور وہاں کے مؤمنین کی ضرورتوں کے پیش نظر ان کی ہدایت و رہنمائی کا فریضہ انجام دیا اور دے رہے ہیں۔
انہیں کچھ جیالوں میں سے ایک نام حضرت آیت اللہ العظمٰی محقق کابلی(رح) کا بھی تھا۔
ولادت
حضرت آیت اللہ العظمٰی محقق کابلی(رح) 10 ذی الحجہ سن 1346 ہجری بروز سہ شنبہ کابل کے ایک دیہات ترکمن کے ایک دیندار و مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم
چونکہ آپ کی ولادت ایک دیندار اور تعلیم یافتہ گھرانے میں ہوئی تھی لہذا آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم یعنی قرآن مجید اور فارسی کا آغاز اپنے بڑے بھائی جناب نور احمد(رح) سے کیا کچھ عرصہ اسلامی عقائد،احکام اور صرف و نحو پڑھنے کے بعد آپ نے مزید تعلیم کے لئے کابل کا رخ کیا اور وہاں کے مشہور حوزہ میں علماء سے مقدمات کی تعلیم حاصل کی چونکہ اس زمانے میں کابل کی علمی فضا اتنی سازگار نہیں تھی آپ نے مزید حصول علم کے لئے حوزہ علمیہ نجف اشرف کا رُخ کیا اور اجازہ اجتہاد لینے تک نجف اشرف میں مقیم رہے۔
نجف اشرف میں آپ کے اساتید
1۔آیت الله سید عبد الاعلی سبزواری
2۔آیت الله شیخ کاظم تبریزی
3۔آیت الله سید عبد الحسین رشتی
4۔آیت الله شیخ محمد تقی آل رازی۔
5۔مرحوم شیخ صدرا
6۔مرحوم شیخ مجتبی
7۔شیخ عباس قوچانی
8۔حضرت امام خمینی(قدس سره)
9۔حضرت آیت الله العظمی خوئی (قدس سره)
10۔آیت الله شیخ محمد باقر زنجانی
11۔حضرت آیت الله العظمی حکیم (قدس سره)
12۔آیت الله سید حسین حمامی
13۔ آیت الله شیخ حسین حلی
وطن واپسی
آیت اللہ العظمیٰ کابلی نے 20 برس جاں فرسا محنت اور تحصیل و تدریس میں مشغول رہنے کے بعد آخرکار افغانستان واپسی کا ارادہ کیا اور 13 مارچ 1973ء میں کابل آکر قیام کیا۔ آپ کے آنے سے کابل کا علمی ماحول یک بار ہی تبدیل ہونا شروع ہوگیا اور اپنی علمی تشنگی بجھانے کے لئے دور دراز سے طلبہ رخت سفر باندھ کر کابل آنا شروع ہوگئے۔
آیت اللہ کابلی نے صرف سات برس کابل میں قیام کیا جس میں آپ نے ایک عظیم الشأن حوزہ’’جامعہ الاسلام‘‘ اور ایک عظیم الشأن مسجد’’مسجد امام خمینی(رح)‘‘ کو تعمیر کیا۔آیت اللہ محقق کابلی امام خمینی(رح) سے بڑے متأثر تھے اور ملت افغانستان کو یہی کہتے تھے کہ اگر جینا ہے تو امام خمینی(رح) کے نقش قدم پر چل کر جیو۔آپ نے امام خمینی(رح) سے بہت کچھ سیکھا جس کی تفصیل کا وقت نہیں ہے۔
نیز یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جس وقت آپ نجف اشرف سے افغانستان واپس آئے اس وقت پورے ملک پر کمیونسٹوں کی حکومت تھی اور سویت یونین پوری طرح افغانستان میں رسوخ کرچکا تھا۔ملک کی اہم اور مشہور شخصیات کو چُن چُن کر قتل کیا جارہا تھا۔ اور کئی مرتبہ آپ کے گھر اور مدرسے پر حملے ہوئے جس میں سینکڑوں لوگ مارے گئے آخرکار آپ نے افغانستان سے ہجرت کا ارادہ کیا اور شہر قم جوار حضرت معصومہ(س) کو اپنا مسکن بنا لیا۔
آپ کی علمی و ثقافتی خدمات
سن 1979 کی بات ہے کہ جب کمیونسٹوں نے مذہبی و ثقافتی لوگوں پر حصار زندگی تنگ کردیا اس گھٹن کے ماحول میں آپ نے شیعیت کی بقا کے لئے افغانستان کے شیعوں کو مقاومت کا سبق دیا اور ’’ سازمان دفاع از حریم اسلامی‘‘ نامی ایک مقاومتی تنظیم کی بنیاد ڈالی اور اس تنظیم نے آج تک بہت سی گرانقدر فعالیتیں انجام دی ہیں جن میں لشکر فاطمیون کا نام لیا جاسکتا ہے جس نے شام میں حرم زینبی(س) کی حفاظت میں نہ جانے اپنے کتنے جیالوں کی شہادتیں پیش کی اور پوری دنیا میں شیعت کے وقار کو بلند کیا۔
آیت اللہ محقق کابلی وقت کے بڑے پابند انسان تھے آپ کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی بیکار نہیں جاتا تھا یا آپ اپنے طلبہ کے لئے درس خارج کے لئے مطالعہ کرتے یا پھر مقاومتی اور افغان مہاجرین کے مسائل کو حل کرنے کے لئے کوشاں رہتے تھے۔
آج بھی افغانستان میں آیت اللہ محقق کابلی کے کئی اہم علمی درسگاہیں ہیں جو رات دن قوم کی خدمت میں مشغول ہیں۔
وفات
تقریباً نصف صدی پر مشتمل یہ علمی ثقافتی اور مقاومتی سفر آخر کار اپنے قافلہ سالار سے محروم ہوگیا اور آج بتاریخ 11 جون 2019 مطابق 7 شوال سن 1440 ہجری بروز منگل افغانستان کے اس عظیم مرد مجاہد نے اپنی پروردگار کے آواز پر لبیک کہا اور ایک پوری ملت کو سوگوار چھوڑ گیا۔
وَسَلٰـمٌ عَلَیْہِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ مات وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا
آیت اللہ محقق کابلی مرد اجتہاد و جہاد
سن 1979 کی بات ہے کہ جب کمیونسٹوں نے مذہبی و ثقافتی لوگوں پر حصار زندگی تنگ کردیا اس گھٹن کے ماحول میں آپ نے شیعیت کی بقا کے لئے افغانستان کے شیعوں کو مقاومت کا سبق دیا اور ’’ سازمان دفاع از حریم اسلامی‘‘ نامی ایک مقاومتی تنظیم کی بنیاد ڈالی اور اس تنظیم نے آج تک بہت سی گرانقدر فعالیتیں انجام دی ہیں جن میں لشکر فاطمیون کا نام لیا جاسکتا ہے جس نے شام میں حرم زینبی(س) کی حفاظت میں نہ جانے اپنے کتنے جیالوں کی شہادتیں پیش کی اور پوری دنیا میں شیعت کے وقار کو بلند کیا۔

wilayat.com/p/1544
متعلقہ مواد
آخوند خراسانی کے یوم وفات پر خصوصی پیشکش:آسمان فقہاہت پر چمکتا ہوا آفتاب ملا محمد کاظم آخوند خراسانی
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین