علی بن مہزیار اہوازی

علی بن مہزیار تیسری صدی ہجری کے بڑے مشہور فقیہ محدث اور عالم تھے کہ آئمہ علیہم السلام کے نزدیک جو بلند مقام اور جلیل القدر منزلت کے حامل ہیں۔ جناب علی بن مہزیار کو امام علی رضا علیہ السلام امام محمد تقی علیہ السلام اور اسی طرح امام علی نقی و عسکری علیہا السلام کے خاص شاگردوں اور اصحاب میں سے تھے اور آئمہ(ع) کے اس مایہ ناز صحابی نے اسلامی معارف و دینی مسائل پر 30 یا 33 کتابیں تحریر کیں، شیعوں کے ہمیشہ مدد گار رہے ،انکا طریقہ یہ تھا کہ وه زیادہ تر سوالات ان پانچ آئمہ(ع) سے لکھ کر پوچھتے تھے اور جو ضروری باتیں ہوتیں آئمہ(ع) تک منتقل کرتے آئمہ(ع) اور علی بن مہزیار کے درمیان بہت سے خطوط رد و بدل ہوئے ہیں۔

ولایت پورٹل: قارئین کرام! آج ہم آئمہ علیہم السلام کے اصحاب کے درمیان سے ایک ایسی شخصیت کا تعارف پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں جنہیں تاریخ اہل بیت اطہار(ع) سے عشق اور ان کی تعلیمات کی اشاعت کے لئے ہمیشہ یاد رکھے گی کہ جن کا نام نامی اسم گرامی جناب علی بن مہزیار اہوازی ہے۔
علی بن مہزیار تیسری صدی ہجری کے بڑے مشہور فقیہ محدث اور عالم تھے کہ آئمہ علیہم السلام کے نزدیک جو بلند مقام  اور جلیل القدر منزلت کے حامل ہیں۔ جناب علی بن مہزیار کو امام علی رضا علیہ السلام امام محمد تقی علیہ السلام اور اسی طرح امام علی نقی و عسکری علیہا السلام کے خاص شاگردوں اور اصحاب میں سے تھے اور آئمہ(ع) کے اس مایہ ناز صحابی نے اسلامی معارف و دینی مسائل پر 30 (1) یا  33 کتابیں تحریر کیں، شیعوں کے ہمیشہ مدد گار رہے ،انکا طریقہ یہ تھا کہ وه زیادہ تر سوالات ان پانچ آئمہ(ع)  سے لکھ کر پوچھتے تھے اور جو ضروری باتیں ہوتیں آئمہ(ع) تک منتقل کرتے  آئمہ(ع) اور علی بن مہزیار کے درمیان بہت سے خطوط رد و بدل ہوئے ہیں چنانچہ ہم ذیل میں سے اس ایک خط کو ذیل میں پیش کر رہے ہیں جو امام محمد تقی علیہ السلام نے آپ کے نام تحریر کیا تھا:
 علی بن مہزیار نے  ایک خط کے ذریعہ جب امام محمد تقی علیہ السلام کو حکومتی کارندوں اور قم کے رہنے والے شیعوں کے درمیان تصادم کی  اطلاع دی تو امام محمد تقی علیہ السلام نے اس کے جواب میں لکھا: تم نے جو بھی قم کے بارے میں مجھے اطلاع دی ہے  اسے میں نے دیکھ لیا  ہے خدا انہیں نجات دے ،اور انکی مشکلات کو حل کرے ، تم نے جو باتیں مکتوب کی ہیں  ان سے اس قضیہ میں جان کر مجھے خوشی ہوئی ، اسی طرح سے یہی عمل کرتے رہو امید کرتا ہوں کہ خدا بدلے میں جنت دے کر تمہیں خوش کرے ، اور تم سے میری رضایت کی بنا پر راضی ہو جائے اس کے حضور عفو و کرم کا خواستار ہوں  حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔(2) اس مکتوب سے پتہ چلتا ہے کہ علی ابن مہزیار صرف اس علاقے میں آپ کے نمائندہ اور وکیل ہی  نہ تھے بلکہ آپ کو ایک خصوصی حیثیت بھی حاصل تھی اسی وجہ سے امام علیہ السلام فرماتے ہیں اسی طرح اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے رہو  اسکے علاوہ اور بھی ایسے مکتوب ہیں جنہیں امام علیہ السلام نے علی ابن مہزیار کے مکتوب کے جواب میں لکھ کر ان سے اپنی محبت اور اور اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔(3) علی  ابن مہزیار کی شخصیت اس اعتبار سے ہمارے لئے اہم ہے کہ انکے والد کا تعلق ہماری ہی سر زمین ہندوستان سے تھا اور مذہب کے لحاظ سے پہلے عیسائی تھے۔(4) انکے عیسائی مذہب ہونے کے بارے میں صراحت کے ساتھ کشی نے انکے بارے میں  بیان کیا ہے کہ پہلے وہ عیسائی تھے اور انکا تعلق ہندوستان سے تھا  لیکن خدا نے اپنے کرم و لطف سے انکی ہدایت کی۔(5)
علی ابن مہزیار کا یہ نمونہ ہمارے لئے قابل غور ہے کہ ہندوستان کا رہنے والا ایک شخص امام جواد علیہ السلام سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ آپ کا مورد اعتماد بن جاتا ہے اور ان شخصیتوں میں قرار پاتا ہے جن کے لئے امام علیہ لسلام دعا کرتے ہیں ، جہاں یہ بات ہمارے لئے پیروی اور اطاعت کے اصولوں کو لیکر بہت کچھ سبق رکھتی ہے وہیں امام علیہ السلام کی طرز امامت کو بھی بیان کرتی ہے کہ کس طرح دور دراز کے علاقے کے لوگوں کو امام علیہ السلام نے اپنے کردار کے بل پر اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔
اگر ہم بھی اپنے کرادار و اخلاق کو ویسا سجا لیں جیسا ہمارے ائمہ طاہرین (ع)نے تأکید کی ہے تو ہم بھی دور دراز کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، اور موجودہ دور میں ملک کی سالمیت ، قومی استحکام کے لئے یہ ضروری ہے، آج ہمارے  ملک  کے ساتھ ہماری قوم ہردور سے زیادہ تعلیمات ائمہ طاہرین علیہم السلام  کی محتاج ہے۔
……………………………………………………………………………………………….
حوالہ جات:
1  ۔ فهرست، شیخ طوسی، ص ۸۸
2  ۔ رجوع کیجئے: رمضانعلی رفیعی, تاریخ زندگانی ائمه (امام محمدتقی علیه السلام)
3۔ بحار الأنوار، ج ‏۵۰، ص ۱۰۵٫
4۔ زرکلی‌، الاعلام، ج ۵، ص ۱۷۸
5  ۔ اختیار معرفة الرجال، شیخ طوسی، ص ۵۴۸
 
 


0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین