ٹیکنالوجی کی لت اور اس سے پیدا ہونے والے خطرات

آج سوشل میڈیا اور سماجی ویب سائیٹس معاشرے میں جوانوں کے لئے ایک افیون کردار ادا کررہی ہے کہ انسان 24 گھنٹہ اپنی جیب میں چلتے پھرتے سوتے جاگتے غرض اس کا حشر و نشر ان ویب سائٹس کے ساتھ ہورہا ہے اور ہر لمحہ اپنے اکاونٹس کو اپڈیٹ کررہا ہے اور جب انسان ان سماجی ویب سائٹس پر جاتا ہے تو وہ یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ سماج کے ایک ذمہ دار فرد ہونے کی میری جو ذمہ داری تھی میں نے فیس بک، ٹوئٹر یا انسٹاگرام پر پوری کردی اب مجھے مزید کچھ کاوش کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہ گئی ہے۔

ولایت پورٹل: قارئین کرام! آپ نے لتوں اور عیبوں کے متعلق بہت سنا ہوگا کہ مثلاً فلاں کو شراب کی لت ہے یا فلاں میں نشہ کا عیب پایا جاتا ہے آئیے آج ہم آپ کی خدمت میں ایک نئی لت اور نئے عیب کے بارے میں بیان کریں اور وہ ہے کسی کو ٹیکنالوجی کی لت لگ جانا۔ شاید پہلی نظر میں ٹیکنالوجی کو کثرت کے ساتھ استعمال کرنے کو لت یا عیب کا نام دیا جانا آپ کو عجیب محسوس ہو لیکن اس میں کوئی تعجب نہ کیجئے چونکہ خود نفسیات کے ماہرین کے درمیان بھی اس امر میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہ لوگ جو حد درجہ ٹیکنالوجی کے استعمال میں غرق رہتے ہیں کیا انہیں ٹیکنالوجی کا عادی کہا جائے اور اسی زمرے میں رکھا جائے جس میں دیگر منشیات کے عادی لوگوں کو رکھا جاتا ہے؟
اس سے پہلے کہ ہم کسی کو کسی عیب یا لت میں ملوث شمار کریں تو پہلے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ انسان کسی بھی لت میں کیسے ملوث ہوتا ہے؟ اور کیسے اسے کسی چیز کی عادت پڑتی ہے؟
انسان کیسے کسی لت کا عادی بنتا ہے؟


بنی نوع انسان کی بقا کا دارومدار ایک نہایت ہی سادہ سسٹم پر رکھا گیا ہے ۔ جب بھی ہمیں کسی حیاتی شئی کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ کھانا کھانا، پانی پینا یا سونا وغیرہ تو بدن کے اعصاب میں ایک نقل و حرکت کا عمل پیدا ہوجاتا ہے جسے میڈیکل سائنس کی زبان میں’’ڈوپیمین‘‘(Dopamine) کہا جاتا ہے۔ جو ہمیں ایسے کام کی طرف راغب کرتا ہے جو ہمارے بدن کے لئے ضروری ہو اس طرح کہ کسی چیز کو چاہنا اور اسے حاصل کرنا یہ سب کچھ ڈوپیمین کے ذریعہ کنٹرول ہوتے ہیں۔
اور یہی درحقیقت لت کا ایندھن ہوتا ہے۔ اب مرضی ہے کہ چاہے تو کوئی ڈوپیمین کے ان ترشحات کا استعمال مثبت اور حیاتی چیزوں میں کرلے اور چاہے اس کا استعمال منفی اور خراب چیزوں میں کرلے بہر حال! جب کوئی شخص کسی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا شروع کردیتا ہے جیسا کہ ویڈیو گیم تو آہستہ آہستہ اسے چاہنے اور پسند کرنے لگتا ہے اور مغز انسان میں ڈوپمین کے ترشحات شروع ہوجاتے ہیں اور اس طرح  انسان ٹیکنالوجی عادی بن جاتا ہے اور اسے اس کی لت لگ جاتی ہے۔ یہی مثال بلکل سگریٹ وغیرہ پینے کے لئے بھی ہے کہ اس میں موجود نیکوٹین کے سبب ڈوپیمین آزاد ہوکر میل و رغبت کے پیدا ہونے کا سبب بنتا ہے۔
قارئین کرام! یہ سب کچھ بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ سمجھ لیں کہ ڈوپیمین ہی وہ عنصر ہے جو کسی بھی چیز کی کثرت و زیادتی کا خواہاں ہوتا ہے۔
آج علمی حلقہ میں ماہرین کے درمیان بحث اس بات پر ہے کہ ڈوپیمین  انسان کے میلانات و رجحانات کو ظاہری طور پر چلاتا ہے۔ اور ٹیکنالوجی کا استعمال بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ لیکن چونکہ لت اور عیب جیسے الفاظ میں منفی اثر پایا جاتا ہے تو ٹیکنالوجی کے استعمال کرنے والے کو اس طرح سے عادی نہیں کہا جاسکتا جس طرح کسی نشہ کرنے والے کو عادی کہا جاتا ہے۔ چونکہ لت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب کسی کو کسی چیز کی لت لگ جاتی ہے تو وہ اپنی دیگر ضرورتیں اور حاجتوں کو بھول کر صرف اسی مد نظر چیز پر تمرکز کرنے لگتا ہے۔
ایک تازہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو پانچوں بر اعظم سے تعلق رکھنے والے اسٹوڈنیٹ پر کی گئی اور اس سروے میں 1000 اسٹوڈنٹ شریک تھے اور ان سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ کیا وہ 24 گھنٹے مکمل طور پر ٹیکنالوجی کے بغیر رہیں۔ چنانچہ اس سروے میں موجود اکثریت نے اس زمانے میں اس امر کو محال بتلایا ہے۔ آج کے زمانے میں اکثر بچے  گیم کنسول اور موبائل کے ساتھ بڑے ہوئے اور پروان چڑھے  ہیں اسی وجہ سے وہ ٹکنالوجی اپنی زندگی کا جزء مانتے ہیں۔اور اس سروے میں شریک 1000 اسٹوڈنٹ میں سے اکثر صرف 24 گھنٹے بھی ٹیکنالوجی سے دوری کا غم برداشت نہ کرسکے اور ان میں سے بہت سے اسٹوڈنٹ کے چہروں سے موبائل،ٹیلویژن اور کمپیوٹر سے کامل طور پر وابستگی اتنی شدید تھی کہ ان میں افسردگی اور پژمردگی کے آثار صاف دکھائی دے رہے تھے۔اور ان میں صرف معدودے کچھ ہی ایسے لوگ تھے جنہوں نے ان 24 گھنٹوں کو آرام و سکون سے گذارا تھا۔ لہذا اس سروے و تحقیق کی روشنی میں اگر ہم ٹیکنالوجی کے استعمال میں افراط کو لت کا نام بھی نہ دیں اور ایسے لوگوں کو ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ بھی دیا جائے تو اس میں کچھ غلط نہ ہوگا۔
ٹیکنالوجی لت کی انواع و اقسام
انٹرنیٹ کی لت


ہمارے اس دور میں اکثر جوان جس لت میں مبتلا ہے اسے انٹرنیٹ کی لت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ جس میں متعدد ممالک سے کچھ لوگ ٹیم بنا کر انٹرنیٹ کے ذریعہ آن لائین گیم کھیلتے یا سوشل ویب سائٹس پر چیٹ اور بات چیت کرتے ہیں اور اگر ان سب چیزوں کو ان کی زندگی سے نکال دیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان سے سرمایہ حیات چھین لیا گیا ہو۔
اگر ہم بات کریں انٹرنیٹ پر مصروف رہنے کی تو اگر اکثر لوگوں سے سوال کریں کہ آپ نے کتنا دیر انٹرنیٹ استمعمال کیا ہے تو 4 گھنٹے مصروف رہنے والا بھی 10 منٹ بتلاتا ہے۔یہ خود جھوٹ بولنا بتلاتا ہے کہ آپ کے کام میں بہر حال کہیں کوئی اشتباہ ضرور ہے۔
دوسرے جب آپ انٹرنیٹ پر ہوتے ہیں تو یہ خیال کرتے ہیں کہ جو چیز ہمیں حقیقی دنیا (Real life)نے نہیں دی ہے وہ آپ کو وہاں مل جائے گی جو سراسر دھوکہ و سراب ہے۔ یہی امر سبب بنتا ہے کہ انسان اپنے کو  حقیقی روابط سے دور کرلیتا ہے اور اس کی جانب متوجہ بھی نہیں ہوتا۔
تیسرے یہ کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے کی عادت ایک دم بڑھ جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کام سے (مثلا! آن لائن گیم) آپ پہلے ایک گھنٹہ کھیل کر راضی تھے اب وہ 4 گھنٹے تک بڑھ گئی ہے اس کے اثرات بالکل نشہ کی مانند ہے یعنی بعینہ وہ عمل جو پہلی بار کسی سگریٹ پینے والے کے ساتھ ہوتا ہے کہ جو کسی دوست کے کہنے پر پیتا ہے جسے پینے کے لئے وہ  پہلے تیار نہیں  تھا لیکن ابتداء میں دوست نے پلائی اور پھر بعد میں  انسان خود اتنا بڑا عادی ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے دیگر دوستوں کے بیچ الگ ہی پہچان رکھتا ہے۔
انٹرنیٹ کی لت کا سب سے بڑا شاہد


آج سوشل میڈیا اور سماجی ویب سائیٹس معاشرے میں جوانوں کے لئے ایک افیون کردار ادا کررہی ہے کہ انسان 24 گھنٹہ اپنی جیب میں چلتے پھرتے سوتے جاگتے غرض اس کا حشر و نشر ان ویب سائٹس کے ساتھ ہورہا ہے اور ہر لمحہ اپنے اکاونٹس کو اپڈیٹ کررہا ہے  اور جب انسان ان سماجی ویب سائٹس پر جاتا ہے تو وہ یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ سماج کے ایک ذمہ دار فرد ہونے کی میری جو ذمہ داری تھی میں نے فیس بک، ٹوئٹر یا انسٹاگرام پر پوری کردی اب مجھے مزید کچھ کاوش کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہ گئی ہے۔ اور آپ کا بہت سا وقت اس فکر میں گذر جاتا ہے کہ کیسی ڈی پی استعمال کرنا ہے۔اور اگر آپ کے پاس کمپیوٹر یا موبائل نہ ہو تو آپ اپنے کو کھویا کھویا سا محسوس کریں گے ۔اگر کسی سے بات یا چیٹ کرتے ہوئے آپ کا موڈم بند ہوجائے یا نیٹ ورک چلا جائے آپ فوراً تیز رفتاری سے موبائل کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اگر آپ نے یہ کام نہ کیا تو ایسا لگے گا کہ نہ جانے آپ سے کون سی چیز چھوٹ گئی ہے۔
قرائین و شواہد سے جو چیز سامنے آتی ہے وہ یہی ہے کہ انسان کی ٹیکنالوجی سے وابستگی کو اگر لت کا نام نہ دیا جائے تو اسے کیا کہیں گے ۔سوچ کر جواب دیجئے؟


0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین