تاریخ علم و صداقت کا ایک ورق

امام صادق(ع) کےلئے کتنا نادر موقع تھا کہ وہ باغی جماعت کا سہارا لے کر اور اس کی سرپرستی قبول فرما کر کرسیٔ حکومت پر آجاتے لیکن آپ(ع) نے یہ طے کرلیا کہ اس طرح میرے اوقات کا زیادہ حصہ شورشوں کے دبانے اور بغاوتوں کے کچلنے میں صرف ہوجائے گا اور دین الٰہی پھر انھیں حالات سے دوچار ہوجائے گا جن کا آج تک مقابلہ کرتا رہا ہے اور یہ بات اپنے واقعی مقصد اور فرض منصبی کے خلاف ہے۔لہٰذا آپ نے سب کو ٹھکرا کر اپنا علمی کام شروع کردیا۔

ولایت پورٹل: امام جعفر صادق، آپ جعفر ابن محمد ابن علی ابن حسین ابن علی ابن ابی طالب(ع) تھے۔
عربی زبان کے اعتبار سے جعفر وسیع نہر کو کہتے ہیں اور بعض روایات کی بنا پر جعفر جنت کی ایک نہر کا نام ہے۔
غالباً آپ کا نام جعفر اسی مناسبت سے رکھا گیا تھا کہ آپ(ع) کے علوم و کمالات سے ایک دنیا نے استفادہ کیا ہے اور اس سرچشمۂ فیوض و برکات سے یگانہ و بیگانہ ہر ایک سیر و سیراب ہوتا رہا ہے۔
القاب
یوں تو آپ کے القاب فاضل، طاہر، قائم، صابر، مصدق، محقق، کاشف الحقائق وغیرہ سبھی کچھ ہیں لیکن مشہور ترین لقب صادق ہے۔جس کے اسباب پر آئندہ روشنی ڈالی جائے گی اور یہ واضح کیا جائے گا کہ جس طرح کفارِ قریش نے رسول اکرم(ص) کی رسالت سے انکار کے باوجود ان کی صداقت کا کلمہ پڑھا تھا اسی طرح آپ(ع) کی صداقت کو بھی ہر دور میں تسلیم کیا گیا ہے۔ اگرچہ روایات عصمت کی بنیاد پر اس لقب سے خود رسول کریم(ص) نے آپ کو یاد کیا تھا۔ بعض دیگر احادیث میں آپ کو عالم اور شیخ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے جس سے آپ کی بلند پایہ عالمانہ صلاحیت اور بے پناہ بزرگی کا اندازہ ہوتا ہے۔
لفظ صادق کے بارے میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ جعفر نام کے ایسے افراد بھی پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے غلط طریقہ سے دعوائے امامت کیا یا ان کا کذب شہرۂ آفاق ہوگیا۔ اس لئے ضرورت تھی کہ ایسے افراد سے امتیاز قائم کرنے کے لئے لفظ صادق کو آپ(ع) کے نام کا جز قرار دے دیا جائے تاکہ دونوں جعفر ایک دوسرے سے الگ رہ سکیں۔
ولادت
۱۷؍ربیع الاول سن ۸۳ ہجری روز جمعہ بوقت طلوعِ فجر وہ مبارک ساعت تھی جب صادق و امین کی شریعت کا سچا امانت دار اس دنیا میں آیا اور اپنے ابتدائے وجود ہی سے یہ اعلان کرتا ہوا آیا کہ جس طرح شریعتِ اسلام کا بانی ۱۷؍ ربیع الاول کو اس عالم ظہور میں جلوہ گر ہوا تھا اسی طرح شریعت کے مٹے ہوئے نقوش کو دوبارہ ابھارنے والا اور اسلام کے پامال شدہ احکام کو از سر نو زندہ کرنے والا نبی کا سچا جانشین بھی اسی تاریخ کو اس دارِ دنیا میں جلوہ نما ہوا ہے۔ تاریخ ولادت کا اتحاد اس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ نبی(ص) کا یہ وارث تاریخی اعتبار سے نبوت کی ابتدا سے ہم آغوش ہے اور یہ فال نیک ارباب بصیرت کے لئے ایک مژدۂ جاں افزا ہے۔
نسب شریف
آپ(ع) کے والد ماجد حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام ہیں جن کو خود سرکارِ رسالت(ص) نے اولین و آخرین کے علوم کا وارث قرار دیا ہے اور آپ(ع) کی والدہ ٔماجدہ حضرت قاسم ابن محمد ابن ابی بکر کی صاحبزادی ہیں۔ جن کا نام فاطمہ ہے اور ام فروہ کنیت، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ(ع) نسبی اعتبار سے ایک طرف سے فرزند امام ہیں تو دوسری طرف سے اس آزاد فکر، حریت پسند مجاہد کے پرنواسہ ہیں جس نے نسب سے ملتی ہوئی ظاہری شرافت کو ٹھوکر ماردی اور اپنے معنوی کمالات کو اتنا اجاگر کیا کہ خود امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ محمد(ع) میرا بیٹا ہے۔ ابوبکر کے صلب سے۔ امام محمد باقر(ع) کا ام فروہ سے عقد کرنا اس بات کی علامت ہے کہ اسلام میں ازدواج کا معیار شرافت کردار ہے خاندان و خانوادہ نہیں ہے۔
وفات
آپ(ع) کی تاریخ وفات کے بارے میں چند اقوال ملتے ہیں:
 بعض حضرات کا خیال ہے کہ آپ (ع)نے پندرہ رجب کو رحلت فرمائی ہے، بعض نے پندرہ شوال کہا ہے اور بعض ۲۵؍ شوال کہتے ہیں اور بعض ۲۵؍ رجب۔
روزِ وفات کے سلسلہ میں دو قول ہیں: یکشنبہ ، دوشنبہ لیکن یہ بہرحال طے ہے کہ آپ نے ۶۵ سال کے سن میں سن  ۱۴۸ ہجری میں مدینۂ منورہ میں انتقال فرمایا ہے اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ آپ (ع)کے ایک صاحبزادے حضرت اسمٰعیل تھے جن کے بارے میں لوگوں کو امامت کا شبہ تھا اور انہوں نے آپ(ع) کی زندگی ہی میں انتقال فرمایا تھا لیکن خدا برا کرے طمع دنیا اور حبِّ ریاست کا کہ آپ (ع)کے دوسرے صاحبزادے عبداللہ افطح نےامام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے مقابلہ میں دعوائے امامت کردیا اور یہ ارادہ کیا کہ باپ کے جنازہ پر نماز بھی ادا کریں لیکن وارث حقیقی نے خالق کائنات کی مشیت سے ایسے معجزات ظاہر کردیئے کہ قوم پر عبداللہ کی حقیقت ظاہر ہوگئی اور یہ عقیدہ منظر عام پر آگیا کہ امام کی نماز جنازہ امام ہی پڑھا سکتا ہے۔
خصوصیات
یوں تو خالق کائنات کے معین کئے ہوئے ہر ہادی اور پیشوا میں مختلف خصوصیات اور بے پناہ علمی کمالات پائے جاتے ہیں لیکن زمانہ کے بدلتے ہوئے حالات کی بنا پر ہر خلیفۃ اللہ کو اتنا موقع نہیں مل پاتا کہ وہ جملہ کمالات کا اظہار کرسکے اس لئے جو کمال بھی کسی امام سے مکمل طور پر ظاہر ہوتاہے اسے اس کی خصوصیات میں شمار کرلیا جاتا ہے۔
تاریخی اعتبار سے امام جعفرصادق(ع) میں یہ پانچ خصوصیتیں پائی جاتی تھیں:
۱۔آپ(ع) سے اتنے علوم و کمالات اور احکام و تعلیمات ظاہر ہوئے ہیں کہ چودہ معصومین (ع) کے مکمل کردار سے مرتب کیا ہوا مذہب بھی آپ (ع)کی ذاتِ مبارک کی طرف منسوب ہوگیا ہے۔
۲۔آپ(ع) سے فریقین کے اتنے افراد نے استفادہ کیا ہے کہ اتنی تعداد کسی امام کے شاگردوں کی نہیں ہے۔ حد یہ ہے کہ آپ(ع) کے مدرسہ کے پڑھے ہوئے بچّے جو کل طفل مکتب کہے جاتے تھے آج امام مذہب کہے جاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ(ع) اگر خدائی سلسلۂ امامت کے وارث ہیں تو عوامی سلسلۂ امامت کے مورث بھی ہیں۔
۳۔آپ(ع) سے جس قدر علوم و فنون کا اشتہار ہوا ہے اتنا تاریخ عصمت کے کسی دور میں نہیں ہوسکا ہے۔ انتہایہ ہے کہ آپ کے صرف ایک شاگرد جابر ابن حیان کے علوم پر مشرق و مغرب دونوں ناز کررہے ہیں۔
۴۔آپ(ع) کا دور وہ تھا جب درس و تدریس کا سارا سلسلہ آپ (ع)ہی کی ذات تک منتہی ہوتا تھا اور مذہب کے سارے ذمہ دار آپ(ع) ہی کے مدرسہ کے شاگرد تھے۔
۵۔رسول اکرم(ص) کی طرح آپ(ع) کی صداقت بھی شہرۂ آفاق اور ضرب المثل تھی۔ کسی انسان سے آج تک یہ جرأت نہیں ہوسکی ہے کہ وہ آپ (ع)کی صداقت پر حرف لاسکے اور در حقیقت ایسے ہی صادق افراد ہوتے ہیں جن کے ساتھ رہنے کا قرآن مجید حکم دیتاہے:’’کُونُوا مَعَ الصَّادِقِیْنَ‘‘۔
شخصیت
اربابِ فکر و نظر اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ایک ایسی عظیم المرتبت شخصیت پر تبصرہ کرنا اور وہ بھی اتنے مختصر وقت میں انتہائی دشوار گذار امر ہے۔ قاعدہ کے اعتبار سے تو اس کی ضرورت بھی نہ ہونی چاہیے تھی کیوںکہ نبی(ص) کے علوم و کمالات کا وارث اور آئمہ مذاہب کا استاد کسی طرح بھی اس بات کا محتاج نہیں ہے کہ اس کی شخصیت کو نمایاں کیا جائے یا اس کی عظمت پر تبصرہ کیا جائے۔ مشک کی خوشبو کسی عطار کے کہنے کی ضرورت نہیں محسوس کرتی ہے۔ لیکن خدا برا کرے سیاسی اغراض اور نفسانی امراض کا کہ انھوں نے نہ کسی صاحبِ کمال کے کمال کو ظاہر ہونے دیا اور نہ کسی صاحب صلاحیت کی صلاحیتوں کو بروئے کار آنے دیا بلکہ ہمیشہ اپنی خواہش پرستی سے یہی چاہا کہ تخت و تاج اپنے ہاتھ میں رہے اور تاریکی زنداں صاحب علم و کمال کی قسمت میں لکھ دی جائے۔ اقتدار حاکم جور کے قبضہ میں رہے اور خانہ نشینی صاحب استعداد و صلاحیت کے حصہ میں آئے اور اگر سیاسی مقاصد اتنی سی بات سے بھی حاصل نہ ہوسکیں تو اس پر الزامات لگائے جائیں، اس کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جائے اور اس کے بارے میں ہر اس سازش کو روا رکھا جائے جو سیاست کے حق میں مفید ثابت ہو اور جس سے حاکم وقت کے دل کو تسکین حاصل ہوسکے۔
کیا تاریخ اس موقع کو بھلا دے گی جب امیر شام کے دربار میں مسلمانوں کے متفق علیہ خلیفہ اور ولی امرحضرت علی(ع) ابن ابی طالب(ع) کے نسب سے انکار کیا گیا اور ان کو نبی(ص) کا بیٹا کہا گیا اور فاطمہ(ع) کا باپ۔
اور کیا اربابِ نظر اس موقع کو فراموش کردیں گے جب حضرت علی(ع) کو گرفتار کرکے دربارِ خلافت میں لایا گیا اور آپ(ع) نے فرمایا کہ مجھے قتل کردینا ایک اللہ کے بندہ اور نبی(ص) کےبھائی کا قتل ہوگا۔ تو حضرت عمر نے جواب دیا کہ ہم آپ کو اللہ کا بندہ تو تسلیم کرتے ہیں لیکن نبی کا بھائی نہیں مانتے ہیں اور حضرت ابوبکر اس منظر کو نہایت خاموشی سے دیکھتے رہے۔
ظاہر ہے کہ جو امت ایسے کھلے ہوئے حقائق کے انکار کی عادی ہوگئی ہو اور جو اہل قلم اپنے قلم کو حکومتِ وقت کے ہاتھ بیچ چکے ہوں، جو اربابِ فکر و نظر اپنی صلاحیتوں کو حکومت کے غلط کردار کی تاویل کے لئے وقف کرچکے ہوں اور جو صاحبانِ تاریخ اپنی تاریخ کو کردار کا آئینہ بنانے کے بجائے حاکم وقت کے کردار کو اپنی تاریخ کا آئینہ بنانے پر تلے ہوئے ہوں ان سے یہ توقع رکھنا ہی بیکار ہے کہ وہ نبی(ص) کے اس وارث کے فضل و کمال کو نگاہِ اعتبار سے دیکھیں گے اور اس کی شخصیت کا مکمل طور سے اعتراف کرسکیں گے۔
دور جانے کی ضرورت نہیں ہے آپ ابن کثیر کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ یہاں ایک طرف تو بدکردار، بے ایمان اور غدار افراد کی مدح سرائی میں کتاب کے صفحات کو سیاہ کرکے صفحۂ قلب کا آئینہ بنایا گیا ہے اور دوسری طرف سن  ۱۴۸ ہجری کے حالات میں فقط یہ ایک فقرہ ذکر کیا گیا ہے کہ اسی سال امام جعفر صادق(ع) کا انتقال ہوا۔(اللہ اکبر)
انصاف سے بتائیے کہ کیا کوئی علمی غیرت رکھنے والا انسان اس ظلم پر خاموش رہ سکتا ہے؟ کیا امام جعفر صادق(ع) کی شخصیت اس قابل بھی نہ تھی کہ ان کے بارے میں چند سطریں لکھ کر ان کی عظمت کا اعتراف کرلیا جاتا؟
اس کے بعد مروج الذہب جلد ۳،ص:۲۱۲ کو اٹھا کر دیکھیں جس کی تصحیح علامہ محمد محی الدین نے فرمائی ہے کہ اس میں امام صادق(ع) کے حالات کا مختصر تذکرہ محمد ابن جعفر علوی کے نام سے کیا گیا ہے۔
آپ اسے کاتب کی غلطی کہیں یا پریس کی فروگذاشت لیکن اتنا ضرور کہا جائے گا کہ اگر علامۂ موصوف کو امام صادق(ع) کے حالات سے کچھ بھی دلچسپی ہوتی تو اس غلطی کی طرف ضرور متوجہ ہوتے۔
ان دونوں کے بعد استاد محمد ابوزہرہ کی باری آتی ہے۔ آپ نے بظاہر امام جعفرصادق(ع) کے حالات میں کتاب تألیف کرکے پوری امت اسلامیہ اور بالخصوص مذہب شیعہ پر احسان کیا ہے لیکن آپ کا واقعی مقصد آپ کے اندازِ نگارش اور اسلوب بحث سے صاف ظاہر ہوتاہے جہاں امام کی توہین اور ان کی شخصیت پر اعتراضات کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتاہے۔
خود اپنے یہاں مسٹر امیر علی کی تاریخ اسلام کو دیکھ لیجئے جس میں بنی عباس کے طرزِ حکومت پر ورق کے ورق سیاہ کئے گئے ہیں۔ بنی امیہ کے اندازِ سلطنت کو تفصیلی طور پر جگہ دی گئی ہے لیکن امام جعفر صادق(ع) کے علمی خدمات کو صرف ایک سرسری نظر سے دیکھاگیا ہے اورقیامت یہ ہے کہ اس کا نام تاریخ اسلام رکھا گیاہے۔ گویا ہمارے مصنف نمامصنف کی نظر میں اسلام اقتدار کی تنظیم اور حکومت کے سدھارنے کا نام ہے اور اس میں علمی خدمات ، ذہنی تربیت اور مستحکم تبلیغ کا کوئی درجہ نہیں ہے؟ چھوڑیئے کہاں تک اس داستانِ غم کو سنایا جائے گا اور کب تک آپ اسی انداز  سے ان قصوں پر آنسو بہاتے رہیں گے۔
آئیے ذرا اسی مسخ شدہ، اوہام پرست، تابع اقتدار اور دشمنِ امام(ع) تاریخ کے آئینہ میں امام کی عظمت و شخصیت کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کردار کی بلندی اور کمالات کی رفعت کس طرح سروں کو جھکا لیتی ہے اور دلوں کو کھینچ لیتی ہے۔فضیلت وہی ہے جس کی گواہی مخالف یا مخالف کی تاریخ دے۔ اس سلسلہ میں مجھے کسی تفصیلی بیان کی ضرورت نہیں ہے صرف زیر نظر کتاب کے عطربار کلمات کا مطالعہ ہی کافی ہے۔
علمی خدمات
تاریخ عالم میں دو ہی شخصیتیں ملتی ہیں جنہیں منظم طور پر علمی خدمت کرنے کا موقع ملا ہے اور جن کے اپنے علوم و کمالات سے ایک پورا مکتبِ خیال فیض یاب ہوا ہے۔
تاریخ یونان میں افلاطوں اور تاریخ اسلام میں امام جعفر صادق(ع)۔ افلاطون کی اہمیت کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ اس نے بکھرے ہوئے علمی شہ پاروں کو ایک مرکز پر جمع کرکے طالبان علم و معرفت کے لئے ایک مدرسۂ فکر قائم کردیا تھا جسے آج تک افلاطون اکیڈمی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود افلاطون کے اس مدرسہ کو وہ خصوصیات نہ حاصل ہوسکیں جو امام جعفر صادق(ع) کے مدرسہ کو حاصل ہوئیں۔جس کے بعض اسباب یہ ہیں:
۱۔افلاطونی دور میں انسانی ذہن اس منزلِ کمال تک نہ پہنچا تھا جہاں دوسری صدی ہجری میں پہنچ گیا تھا۔
۲۔افلاطون کے دور میں انسانی علوم گھٹنیوں چل رہے تھے اور امام صادق(ع) کے زمانہ میں یہی کمالات منزل معراج سے ہم کلام تھے۔
۳۔افلاطون کے مدرسہ میں جن علوم کی تعلیم دی جاتی تھی وہ آج کے ترقی یافتہ دور میں ایک سطحی بات سے زیادہ مرتبہ نہیں رکھتے ہیں۔
۴۔افلاطون کے مدرسہ میں تحصیل علم کرنے والے صرف اس کے اپنے عقیدت مند اور مخلص شاگرد تھے۔
لیکن امام کا جو مدرسۂ فکر کوفہ میں قائم ہوا تھا اس کی نوعیت ان تمام تنظیموں سے جداگانہ تھی۔ یہاں طالبانِ علم صرف عقیدت مند نہ تھے بلکہ بیگانوں کی بھی ایک کثیر تعداد تھی۔ یہاں  ناپختہ دماغ اور ناسارساذہنوں کی تربیت نہ ہوتی تھی بلکہ بڑے بڑے عظمائے قوم اور آئمۂ مذاہب زانوئے ادب تہہ کرتے تھے۔ یہاں جن علوم و فنون کی تعلیم دی جاتی تھی وہ ایسے ٹھوس عقائد تھے جن کی قدر آج کی ترقی یافتہ دنیا میں بھی کی جاتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سرکار رسالت(ص)، امیرالمومنین(ع) یا ان کے بعد کے آئمۂ ہدیٰ(ع) کو بھی اگر یہ ماحول نصیب ہوجاتا تو وہ بھی یہی تنظیم قائم کرتے جو امام جعفر صادق(ع) نے قائم کی تھی۔ لیکن اسے کیا کیا جائے کہ حالاتِ زمانہ نے یہ بات اسی وارثِ رسول(ص) کے لئے اٹھا رکھی تھی۔ چنانچہ دوسری صدی ہجری کے اس ابتدائی دور سے جس میں بنی امیہ کی تقدیر پلٹ رہی تھی اور ان کا تخت و تاج مٹتا ہوا نظر آرہا تھا، بنی عباس ہوس اقتدار اور خواہش حکومت میں جا بجا بغاوتیں اور انقلاب برپا کررہے تھے آپ(ع) نے بھی پورا پورا فائدہ اٹھایا اور تبلیغ دین و ترویج مذہب کے لئے ایک مسلسل علمی رابطہ قائم کردیا۔
یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ بنی فاطمہ(ع) کے لئے اتھاہ مصائب نے عوامی ذہنیت کو اس قدر متاثر کردیا تھا کہ بنی عباس یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ ان کی بغاوت صرف آل محمد(ص) کے نام پر کامیاب ہوسکتی ہے چنانچہ ان لوگوں نے بھی تمام انقلابات کی بنیاد آلِ رسول(ص) کو ان کے جائز حقوق دلانے پر رکھی۔ جس کی وجہ سے امام صادق(ع) کو اتنا موقع مل گیا کہ آپ (ع)اپنے علوم و کمالات سے ایک دنیا کو فیض یاب کرسکیں۔
یہاں تک آنے کے بعد سیاست اور امامت کا فرق بھی سمجھ لینا ضروری ہے کہ آنے والی حکومت یہ سوچ رہی تھی کہ جب ہماری بغاوتیں آل محمد(ص) کے نام پر ہوئی ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ہمیں اپنا محسن سمجھ کر ابن الوقت علماء کی طرح ہمارا پورا پورا ساتھ دیں گے۔ ابوہریرہ کی سی معاویہ پرستی کا مظاہرہ کریں گے، ابن عمر کی یزید نوازی کا منظر پیش کریں گے ، انس بن مالک کے ضعیف حافظہ کی تاریخ دہرائی جائے گی اور حقائق و مسلمات سے انکار کرکے حکومت وقت کی فضیلت میں حدیثیں تیار کی جائیں گی۔
اس خواہش پرست سیاست نے حکومت اور امامت کے فرق کو بالکل فراموش کردیا تھا۔اس نے یہ نہ سوچا کہ آل محمد(ص) حکومت کے بھوکے یا اقتدار کے پیاسے نہیں ہیں۔ انھیں اگر مظالم سے مہلت ملتی ہے تو موقع کو غنیمت جان کر ترویج دین میں صرف کردیتے ہیں۔ امام صادق(ع) کےلئے کتنا نادر موقع تھا کہ وہ باغی جماعت کا سہارا لے کر اور اس کی سرپرستی قبول فرما کر کرسیٔ حکومت پر آجاتے لیکن آپ(ع) نے یہ طے کرلیا کہ اس طرح میرے اوقات کا زیادہ حصہ شورشوں کے دبانے اور بغاوتوں کے کچلنے میں صرف ہوجائے گا اور دین الٰہی پھر انھیں حالات سے دوچار ہوجائے گا جن کا آج تک مقابلہ کرتا رہا ہے اور یہ بات اپنے واقعی مقصد اور فرض منصبی کے خلاف ہے۔لہٰذا آپ نے سب کو ٹھکرا کر اپنا علمی کام شروع کردیا۔
حکومت وقت کو بظاہر آپ کے اس اعراض و کنارہ کشی سے خوش ہونا چاہیے تھا لیکن وہ تو کسی اور بات کی توقع میں تھی۔ چنانچہ منصور نے اپنے مقصد کو پامال ہوتا ہوا دیکھ کر امام کی مخالفت کا اعلان کردیا اور درپردہ اذیتوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔
امام(ع) نے بھی چاہاکہ عزم و استقلال کا سہارا لے کر اپنے مدرسہ کی بقا کا انتظام کریں اور ہوس پرست حکومت کو یہ سمجھا دیں کہ ہم کسی آن بھی حکومت و اقتدار کے طالب نہیں ہیں۔ یہ اقتدار و حکومت تو ہمارے نام پر مانگی ہوئی ایک بھیک کا نام ہے۔
مثل مشہور ہے کہ جتنا انسان کی نیت میں خلوص ہوتا ہے اتنا ہی اس کا کام پائیدار ہوتا ہے۔
امام صادق(ع) کے حسنِ نیت اور اخلاص نظر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دوسری صدی کا قائم کیا ہوا یہ مدرسہ آج بھی ظَہرِ کوفہ(نجف) میں پوری آب و تاب کے ساتھ علمی خدمت انجام دے رہا ہے اور اپنی اسی روایت کو باقی رکھے ہوئے ہے کہ حکومتِ وقت مخالفت کرتی ہے تو کرے انسان کو اپنے عزم و استقلال کا سہارا لے کر دین کی خدمت کرتے رہنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منبع :
امام صادق(ع) اور مذاہب اربعہ
تألیف: علامہ سید اسد حیدر طاب ثراہ
ترجمہ: علامہ سید ذیشان حیدر جوادی طاب ثراہ


0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین