ولایت پورٹل: آئینہ کی خصوصیت ہے کہ وہ سچ بولتا ہے جو عیب ہے اسے ظاہر کرتا ہے ، عیب کو کسی دوسرے سے نہیں بتاتا جسکا عیب ہے اسی پر ظاہر کرتا ہے اسے توڑ بھی دیا جائے تو جھوٹ نہیں بولتا کرچی کرچی بھی ہو جائے تو ہر ایک کرچ میں تصویر وہی ہوتی ہے جو سامنے ہو تصاویر نہیں بدلتا ، منافقت سے کام نہیں لیتا ، ڈاکٹر کلب صادق صاحب کی شخصیت قوم و ملت کے لئے ایک آئینہ تھی، جو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ دین کے دائرہ میں جینے پر یقین رکھتی تھی اور دین کی آبائی تفسیر کے سخت خلاف تھی جو کہتی تھی دین عقل و فکر و تدبر کا نام ہے لایعنی رسموں کا کفن اوڑھنے کا نام دین نہیں ہے۔
آپکی شخصیت درمندی کا آئینہ تھی آپ کو درد تھا قوم کے انحطاط کا آپکو درد تھا ، نفرتوں کے رواج کا آپ کو درد تھا فکری سرمایہ کے تملق کے جال میں پھنس جانے کا ، آپکو درد تھا جوانوں کے ذہنوں میں جدید شبہات کی یلغار اور اس سے مقابلہ نہ کر پانے والے خشک مغز و متہجر ان افراد کا جنکے ہر عمل کو دین سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے لیکن وہ خود نہیں جانتے دین کیا ہے آپکو درد تھا جنگ زرگری کا ، آپ کو درد تھا جرات مندانہ قیادت کو سیاسی جالوں میں پھنسا کر اپنا الو سیدھا کرکے قوم کو لاوارث بنانے پر تلے چند ٹکوں کے مفادپرستوں کی حماقتوں کا ، آپکو درد تھا قوم میں بڑھتی بے بصیرتی اور چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والے چلن کا ، آپکو درد تھا قوم کے نام قوم کو لوٹنے والے بہروپیوں کا ، آپ کو درد تھا قوم کے وقار سے کھلواڑ کرنے والوں کا ، آپکو درد تھا غربت و افلاس کے شکار ان بچوں اور بچیوں کا جو اپنے اسلاف کی تساہلی کے نتائج کو بگھت رہے تھے لیکن غربت کے کوئیں میں لٹکتی تعلیم کی نجات دینے والی رسی کو پکڑنے کو تیار نہ تھے۔
ایک درد مند انسان کی پہچان یہی ہے کہ کسی بھی مقام پر اسے قرار نہیں رہتا وہ کبھی کہیں تو کبھی کہیں اس کوشش میں رہتا ہے کہ معاشرہ جس درد میں مبتلا ہے اسکی دوا کی جائے مرحوم ڈاکٹر کلب صادق صاحب کی یہ خصوصیت تھی کہ تا دم حیات قوم کے مسائل کو لیکر فکر مند رہے ،اپنی دردمندی کی بنا پر منبر سے لیکر عالمی کانفرنسوں اور بین الاقوامی نشستوں میں آپ نے جہاں ان موضوعات کو اٹھایا جو قوم کو اوپر لانے میں مددگار ہوں وہیں آپ نے گلیوں کوچوں میں ملنے والے احباب سے مختصر گفتگو میں بھی زمینی حقائق پر توجہ دینے کی درخواست کی کسی عام انسان سے ملتے تب بھی آپ کی گفتگو تعمیری ہوتی کسی خاص سے ملتے تب بھی تعمیری رخ رہتا ، آج انکے اس دنیا سے گزر جانے کے بعد اتنا بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے کہ آسانی سے بھرنے والا نہیں ہے ،آپ نے جہاں قوم کے موجودہ انحطاط کی جڑ پر انگلی رکھتے ہوئے اسے درست کرنے کی کوشش کی اور علم کو موجودہ مشکلات کا حل جانا وہیں آپ نے غربت و افلاس سے قوم کو ابھارنے کے لئے جو بن پڑا انجام دیا۔
آپکے جمعہ کے خطبات ہوں یا مجالس میں قومی مسائل کو مستند انداز میں نزاکتوں کی رعایت کے ساتھ بیان کرنا ہر جگہ قوم کے تئیں آپکی دردمندی صاف طور پر چھلکتی نظر آتی ہے ۔
لکھنو کی آصفی مسجد میں دئیے جانے والے آپ کے خطبات آج بھی ذہنوں میں نقش ہیں جن میں آپ تعلیم پر زور دیتے ہوئے فرمایا کرتے تھے اس قوم کے مسائل کا ایک ہی حل ہے تعلیم تعلیم تعلیم ۔
آپ نے جو فلاحی و تعلیمی کام انجام دئیے ہیں انکی افادیت کو اور انکے عمق کو سمجھنے میں بھی ابھی وقت لگے گا ، آپکے کاموں کو اگر نظر انداز کر دیا جائے تو ہندوستان میں موجودہ صدی میں جدید تعلیم و صحت عامہ و غربت و افلاس کے میدان میں ہمارے پاس لوگوں کو دکھانے کے لئے بھی کچھ نہیں ہے۔
آپکی درد مندی کی ایک بڑی پہچان یہ تھی کہ مثبت سوچ رکھتے تھے اور معاشرے کی تعمیر کے لئے مثبت طرز فکر کو ہی سامنے لیکر بڑھنے پر یقین رکھتے تھے۔شدت پسندی و رجعت پسندی کو ہمیشہ آپ نے قوم کے لئے مہلک مرض جانا اور آپ کی کوشش ہمیشہ یہ رہی کہ ایک کثیر الادیان و کثیر الثقافہ ملک میں اسلامی اخلاق کے سایے میں مل کر بقاء باہمی کے طرز پر زندگی گزاری جائے یہی وجہ ہے کہ بلا تفریق مذہب وملت آپ انسانیت کی خدمت کرتے نظر آئے ، اسلام کا سبق تو بہت لوگ پڑھاتے ہیں لیکن آپ نے اپنے طرز عمل سے انسانیت کی خدمت کے ذریعہ جو درس دیا ہے اسنے نہ جانے کتنوں کے دلوں میں توحید کے دئیے روشن کر دئے اور کسی کو یہ بھی نہ لگا کہ ڈائریکٹ اسے دوسرے دین کی دعوت دی جا رہی ہے یا کوئی دوسرا دین اسکے سر تھوپا جا رہا ہے۔
میری بہت زیادہ ملاقات نہ رہی لیکن لکھنؤ میں دوران تعلیم یا پھر ممبئی میں انکے کسی پروگرام کے حاشیہ پر جب بھی ملاقات ہوئی میں نے انہیں ہمیشہ ضعیفی و بڑھاپے کے باوجود روحانی طور پر جوان پایا ایسا جوان جو اپنے بوڑھے ہاتھوں سے قوم کو سہارا دیکر اوپر لانے کا عزم رکھتا ہو، جس کا یہ ماننا ہو کہ نفرتوں کے شعلے آپ کو جلا کر خاک کر دیں گے محبتوں کے دئیے جلائیے انکی روشنی سے ہی ملک و قوم کی تعمیر ممکن ہے۔
افسوس ایک مصلح و تعمیری شخصیت چلی گئی اور ہم اپنی ویرانیوں کے ساتھ رہ گئے ، سروں پر نفرتوں کے خود چڑھائے ہاتھوں میں عداوتوں کے گڑانسے لئے سوشل میڈیا کے معرکے میں ہم ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں کل تک موضوعات دوسرے تھے آج افسوس ہے کہ خود یہی شخصیت ایک موضوع بنی ہوئی ہے لیکن اس میں بھی تعمیری پہلو کو نظر انداز کر کے بعض لوگ اس شخصیت کے خاندانی معاملات پر زیادہ گفتگو کر رہے ہیں اس کے چھوڑے نقوش پر کم خاندانی مسائل کہاں نہیں ہوتے لیکن انکے بیان سے قوم کو کیا حاصل۔ افسوس گھر کے مسائل پر بھی صاحبان فکر و نظر کو چھوڑ کر جسے دیکھو ایک اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہے ،کچھ لوگ اس غم و اندوہ کی فضا میں بھی نفرتوں کے دیووں کے خوش کرنے میں لگے ہیں واٹس اپ و سوشل میڈیا کے گنیں ہاتھوں میں لئے سر سے پیر تک مسلح اس خاندان پر کیچڑ اچھالنے میں مشغول ہیں جس کی خدمات کو شمار کرنے بیٹھیں تو زندگی گزر جائے لیکن خدمات کے سلسلہ کا احاطہ نہ ہو سکے ، غلط اور صحیح کہاں نہیں ہوتے ، ہر ملک ہر قوم میں کچھ لوگ غلط ہوتے ہیں کچھ صحیح کچھ اچھے لوگ غلط فیصلے کرتے ہیں اچھے ہونے کے بعد بھی غلط فیصلے انکی شخصیت کو کارٹون بنا دیتے ہیں تو کچھ برے لوگ ہوتے ہیں لیکن صحیح و بر وقت فیصلہ قوم کے سامنے انکی ٹوٹی پھوٹی شخصیت کو جوڑ دیتا ہے ، اس ملک کو اس قوم کو ہمارے معاشرے کو ضرورت ہے ڈاکٹر صاحب جیسی شخصیتوں کی جو غلط فیصلہ پر بھی اپنے رائے کے اظہار کا گر جانتی تھی ہر غلط بات کو چلا کر غلط کہنےسے زیادہ خاموشی کے ساتھ صحیح راستے کی نشاندہی پر یقین رکھتی تھی غلط غلط کا ڈھول وہیں پیٹا جاتا ہے جہاں کچھ صحیح کر کے دکھانے کی توانائی نہ ہو۔
اگر ہم چاہتے ہیں ایک خادم قوم و ملت ایک خادم ملک و وطن کی یاد کو زندہ رکھیں تو ہمیں اپنی انا کے خود سے باہر نکلنا ہوگا دیکھیں دنیا بہت بڑی ہے، ان شخصیتوں پر نظر ڈالیں جنہوں نے دنیا بھر سے اس عظیم مفکر و اسکالر کے گزر جانے کے بعد تعزیتی جملوں کا اظہار کیا ہے اور ان تعزیت ناموں میں مختلف دنیاوی عہد ے داروں ، حکومتی اہلکاروں ، سیاسی مشیروں سے لیکر دینی ذمہ داروں و خادمان دین و شریعت مراجع کرام، طلاب و افاضل سبھی کے تاثرات ہیں ، جن پر اگر غور کریں گے تو واضح ہوگا کہ جب انسان درد مندہوتا ہے تو اسکی ذات سب کے لئے آئینہ بن جاتی ہے ۔
یہ اور بات ہے کہ آینہ کو دیکھنے کا انداز ہر ایک کا الگ ہے۔کوئی اسی جستجو میں آئینہ نہیں دیکھتا کہ اسے جیسا بے نقص آئینہ چاہیے وہ نہیں ملتا کوئی حالات وقت اور خود ساختہ سماجی جبر کے آگے مجبور ہو کر آئینےتوڑنے پر یقین رکھتا ہے تو کسی کی کوشش ہوتی ہے جو جتنا دکھا دے اتنا دیکھ لو کہ آئینہ جھوٹ نہیں بولتا ، ڈاکٹر صاحب تو چلے گئے لیکن ان کی شخصیت ایک آئینہ کی صورت ہمارے سامنے ہیں ، ہم چاہیں تو اپنی انگلیوں کو سوشل میڈیا پر گھس گھس کر سوچ لیں کہ بہت بڑا میدان سر کر لیا ہے یا چاہیں اس شاہراہ پر چل پڑیں جو خدمت قوم و وطن کی شاہراہ ہے جس پر چلتے چلتے انسان ایک دن ابدیت کی جانب کوچ کر جاتا ہے جبکہ دنیا میں اسکے چھوڑے نقوش منزلوں کا پتہ دیتے ہیں۔ ایک سوشل میڈیا کی راہ ہے جہاں نعرے ہیں دعوے ہیں بڑی بڑی باتیں ہیں اور رد عمل میں لائک ہیں۔ مصنوعی پھول ہیں سبحان اللہ کے جملے ہیں لبوں پر تعریف کے جملوں پر سجی ہوئی زہریلی مسکراہٹ ہے مجازی فعالیت ہے تو مجازی وعدے ہیں جنکے کھوکھلے پن سے ہر انسان واقف ہے جبکہ دوسری طرف ایک قوم کی خدمت کی زمینی راہ ہے جہاں طعنے ہیں جملے ہیں حملے ہیں لیکن ان سب کے باوجود تائید الہی ہے اسکی خوشنودی اسکی جانب سے انعام کا وعدہ ہے اب ہمیں خود فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اپنا فکری و ذہنی سرمایہ کہاں صرف کریں۔
ایک آئینہ حیات، ظاہری زندگی کے فریم سے نکل کر ابدیت کے فریم میں چلا گیا ہم کہاں ہیں یہ ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب آئینہ درآئینہ درآئینہ ہیں کیاخبرکون کہاں کسکی طرف دیکھتا ہے۔
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی