ولایت پورٹل: قارئین کرام! ایسے معاشرے میں زندگی گذارنا کہ جس میں متعدد و مختلف قسم کے مشکلات پائے جاتے ہوں واقعاً ایک سخت مسئلہ ہے۔ ہر دن ہم گلی، محلے، مارکیٹ، گھر اور اپنے اطراف میں ایسے مناظر مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہمارے ان سے پیش آنے کا طریقہ ہمارے پورے دن یا ہماری زندگی کے کچھ ایام کو متأثر ضرور کردیتے ہیں چنانچہ ایسے لوگوں سے پیش آنا اور ان سے درست برخورد کرنا بہت اہم ہے۔لہذا قرآن مجید نے ہمیشہ کی طرح انسان کی رہنمائی کی اور اس کے لئے بہت ہی آسان، کارآمد اور خوبصورت طریقہ تجویز فرمایا جسے ہم’’دوسروں کے ساتھ نیکی سے پیش آنے‘‘ کا نام دے سکتے ہیں۔
دین اسلام نے دوسروں کے ساتھ نیکی و بھلائی سے پیش آنے کو دو انداز میں پیش کیا ہے پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ اگر کوئی آپ کے ساتھ بھلائی اور نیکی کرے تو آپ بھی اس کے ساتھ نیکی کیجئے اور اس کے ساتھ بھلائی کا مظاہرہ کیجئے چونکہ جوانمرادی کی علامت بھی یہی ہے کہ جو آپ کا بھلا کرے آپ اس کو نقصان نہ پہونچائیں۔ چنانچہ اس مرحلہ میں قرآن مجید نے اپنے پیروکاروں کو ایک مسلم اور مستحکم قانون و اصول کو اپنانے کا حکم دیا ہے:’’هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ‘‘۔(سورہ رحمان:60) ۔کیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ کچھ اور بھی ہوسکتا ہے۔
دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنے کا دوسرا طریقہ جو دین نے پیش کیا ہے وہ پہلے والے طریقہ سے بہت بالا و ارفع اور حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ سخت بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر سامنے والا شخص آپ کے ساتھ بھلائی اور نیکی بھی نہیں کررہا ہے بلکہ آپ کے ساتھ بدی سے پیش آیا ہے تب بھی آپ اس کو اس کے جیسا ہی جواب مت دیجئے بلکہ اسے اچھائی، نیکی اور بھلائی سے جواب دیجئے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:’’ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ‘‘۔(سورہ مؤمنون:96)۔ (اے رسول(ص) آپ برائی کا جواب احسن طریقہ سے دیجئے۔ یا ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:’’ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ‘‘۔(سورہ فصلت:34)۔ اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہیں آپ(ص) (بدی کا) احسن طریقہ سے دفعیہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ آپ میں اور جس میں دشمنی تھی وہ گویا آپ کا جگری دوست بن گیا۔
محترم قارئین! مذکورہ آیات سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ دوسروں کے حق میں نیکی و بھلائی کرنا اگرچہ وہ آپ کے ساتھ بدی کا مظاہرہ کرے اس عمل کے دو اہم و بنیادی اثرات انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر بطور مساوی مترتب ہوتے ہیں:
1۔دشمنی کا دوستی میں بدل جانا
دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے اور نیکی سے پیش آنے کا سب سے پہلا اور انفرادی فائدہ و اثر تو یہ ہوتا ہے کہ جو کل تک آپ کا دشمن تھا وہ آپ کے اس رویئے اور برتاؤ کے سبب آپ کا دوست بن کر لوٹتا ہے۔ جو کل تک آپ کو ختم کرنا چاہتا تھا وہ آج آپ کی بقا کا خواہاں ہوجاتاہے۔ اور اس اثر اور نتیجہ کی بہت سی مثالیں ہمیں انبیاء، آئمہ(ع) اور علماء کی زندگی میں کثرت کے ساتھ ملتی ہیں کہ جب دشمن ان کے پاس کینہ و حسد سے بھرے آئے اور جب لوٹے تو وہ ان ہستیوں کے سب سے بڑے مداح اور خیر خواہ و دوست و عاشق بن چکے تھے جیسا کہ خود گذشہ آیت میں ارشاد ہوا:’’فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ‘‘۔کہ ناگہاں آپ دیکھیں گے کہ آپ کا دشمن آپ کا جگری دوست بن گیا ہے۔
۲۔معاشرے سے ایک برائی کا خاتمہ
دوسروں کے ساتھ بھلائی اور نیکی سے پیش آنے کا دوسرا فائدہ اس معاشرے کو بھی پہونچے گا جہاں ہم زندگی گذار رہے ہیں لہذا دین اسلام نے مسلمانوں کے زحموں کے اندمال اور ان کے درمیان تلخیوں کو کم کرنے کے لئے دوسروں کی خطاؤں اور غلطیوں سے درگذر کرنے اور ان کے ساتھ نیکی سے پیش آنے کی ہدایت فرمائی ہے لہذا دین کی تعلیم یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان نے آپ کے حق میں کوتاہی کی ہے تو آپ اپنے مسلمان بھائی سے انتقام لینے کے فراق میں نہ رہیں بلکہ انتقام کے شعلوں کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کیجئے اور اگر آپسی تلخیاں دور ہوگئیں تو ہمارے معاشرے میں محبت رأفت اور بھائی چارگی حاکم ہوگی جس کا دنیا میں کوئی بدیل و نطیر نہیں ہوگا۔
قابل ذکر بات
اپنی بات ختم کرنے سے پہلے ہم صرف دو نکات کی جانب اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ کسی کے ذہن میں ان آیات کی غلط تفسیر نہ بیٹھ جائے ان میں پہلا تو یہ ہے کہ دین و شریعت کی یہ تعلیم کہ دوسروں کے ساتھ نیکی سے پیش آؤ اس موقع کے لئے ہے کہ جب ہمیں یہ علم ہو کہ سامنے والا ہماری محبت اور احسان کا غلط استعمال نہیں کرے گا اور وہ اسے ہمارے ضعیف و کمزور ہونے کی علامت شمار نہیں کرے گا نیز اسے اپنی غلطی کا احساس بھی ہوجائے لیکن اگر ہمارے نرم رویئے سے اس کی جسارتیں بڑھ جائیں یا وہ ہماری نرمی کا غلط استعمال کرے تو پھر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔
دوسری اہم بات یہ بھی مد نظر رہے کہ اسلام کے اس گرانقدر اصول کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ انسان شیطانی وسوسوں کے سامنے تسلیم محض ہوجائے اور شاید قرآن مجید میں جہاں برائی کا جواب بھلائی سے دینے کی بات کہی ہے اسی کے بلا فاصلہ اپنے رسول کو یہ بھی حکم دیا:’’وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيم‘‘۔(سورہ فصلت:36)۔ اوراگر تمہیں شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ محسوس ہو تو اس سے اللہ کی پناہ مانگو۔ بے شک وہ بڑا سننے والا (اور) بڑا جاننے والا ہے۔
بہتر زندگی کا ایک قرآنی اصول
دین و شریعت کی یہ تعلیم کہ دوسروں کے ساتھ نیکی سے پیش آؤ اس موقع کے لئے ہے کہ جب ہمیں یہ علم ہو کہ سامنے والا ہماری محبت اور احسان کا غلط استعمال نہیں کرے گا اور وہ اسے ہمارے ضعیف و کمزور ہونے کی علامت شمار نہیں کرے گا نیز اسے اپنی غلطی کا احساس بھی ہوجائے لیکن اگر ہمارے نرم رویئے سے اس کی جسارتیں بڑھ جائیں یا وہ ہماری نرمی کا غلط استعمال کرے تو پھر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔

wilayat.com/p/1656
متعلقہ مواد
فکر قرآنی:خوشگوار زندگی کے 3 اہم قرآنی اصول
فکر قرآنی:امن عالم کا قرآنی منشور
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین