ولایت پورٹل: ہم میں سے بہت سے انسان حقیقت اور (Realty) کی طرف جاتے جاتے رک جاتے ہیں۔ہم میں سے کچھ تو مادی رعنائیوں میں گرفتار ہوجاتے ہیں تو کچھ خیال کی وادیوں میں گردش کرنے لگتے ہیں اور ظاہر سی بات ہے کچھ لوگوں کا وہم و گمان میں پھنس کر رہ جانا بھی ایک طبیعی امر ہے۔
چنانچہ ہمیں یہاں یہ دکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرح سوچتے ہیں؟ہم اللہ کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں لیکن شیطان درمیان میں ہی ہمارا راستہ روک لیتا ہے چونکہ اگر ہم میں سے ہر ایک اللہ سے نزدیک ہوجاتا تو حضرت امام عصر(عج) کا ظہور بہت پہلے ہوجاتا۔
حضرت صاحب العصر(عج) کے ظہور کی بنیادی شرط آپ کی معرفت ہے چونکہ عمل کا دار و مدار ہماری معرفت، تفکر اور نظریہ پر موقوف ہے اگر ہمارا عمل صحیح بھی ہو تب بھی ہمیں ایک مثبت نظریہ و تفکر کی ضرورت پڑتی ہے لہذا ہمیں اپنے نظریہ کی اصلاح کرتے ہوئے صحیح ڈھنگ سے اعمال بجالانے کی ضرورت ہے۔
ہم نے اجمالاً بیان کیا کہ صرف عمل سے کچھ ہونے والا نہیں ہے بلکہ جو چیز اصل ہے وہ ہے ایسا عمل جس کا پشتوانہ ایک ثابت و راسخ نظریہ و عقیدہ ہو چونکہ جب کوئی عمل ایک صحیح نظریہ و عقیدہ پر استوار ہوتا ہے تو ہی اس سے مطلوبہ نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ فرض کیجئے اگر ہمارا عقیدہ صحیح نہ ہو تو ہم اگر پوری توضیح المسائل کے ہر مسئلہ پر عمل بھی کرلیں تو نہ ہمیں ثواب ملے گا اور نہ ہی ہم حقیقی مسلمان کہلانے کے لائق بن سکیں گے۔ ہمارے بنیادی عقائد ہی ہیں جن کے سبب ہم ہر آن دین کے حکم کو گلے لگانے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہی حال ہمارا امام زمانہ(عج) کی صحیح معرفت کے لئے بھی ہے اگر خدا نخواستہ ہم اپنے وہم و خیال میں امام علیہ السلام کو رکھیں(فرض یہ ہے کہ ہمیں ان کی صحیح و مکمل معرفت نہ ہو) یہ بلکل ایسا ہی ہے کہ جیسے ہم خواب میں اپنے کو امام زمانہ(عج) کے حضور دیکھ رہے ہوں حضرت کی خوشبو کو استشمام کررہے ہوں آپ کے دست مبارک و پیشانی کے بوسے بھی لے رہے ہوں۔
لہذا جان لینا چاہیئے جس شخص کے افکار و احوال اس طرح گذر رہے ہوں یہ بہت خطرناک ہے چونکہ کوئی بھی شعبدہ باز اور لفظوں کا جادوگر ہمیں ہمارے عمل سے بھٹکا سکتا اور گمراہ کرسکتا ہے لہذا عمل کی بنیاد کہ جس کا خلاصہ صحیح معرفت اور عقیدہ میں ہوتا ہے ہمیں اسے پختہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم اکثر مسلمانوں میں شائع بیماری جس میں امت کے اکثر افراد گرفتار ہیں وہ افراط و تفریط ہے کبھی ہم چاہتے ہیں کہ عالم معنیٰ میں وارد ہوجائیں تو ہم دنیا کے وظائف سے رک جاتے ہیں اور کبھی ہم اتنا اس دنیا کی لذتوں میں غرق ہوجاتے ہیں کہ اب اللہ کی طرف لوٹنا مشکل ہوجاتا ہے۔
پس یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اگر ہم ایک سمت میں چل پڑیں اور ہم اپنی زندگی میں تعادل و بیلنس نہیں بنا پائے تو اطمئنان رکھئے ہمیں ظہور کے بعد بھی حضرت صاحب العصر(عج) کو قبول کرنا بہت سخت ہوگا۔
لہذا زندگی میں (balance) بنا کر رکھنا بہت ضروری ہے اور عمل میں کے لئے معرفت کا صحیح ہونا ضروری ہے نہ تو خشک متقی بن کر رہیئے اس طرح کہ دنیا کو بالکل چھوڑ دیا جائے جب کہ دین کی تعلیم یہ ہے کہ: دنیا آخرت کی کھیتی ہے‘‘۔ اور نہ اس طرح اس دنیا میں غرق ہوجائیں کہ اللہ کی طرف لوٹنا سخت و دشوار بن جائے۔
یاد رکھئے ہماری باتوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی دنیا کا دلدادہ بن جائے! نہیں! دنیا سے دلگی کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ البتہ اس دنیا کا نظم اور ترتیب اخروی قوانین سے مأخوذ ہیں اگرچہ خود دنیا کے بھی اپنے کچھ منفرد قوانین ہیں لیکن دنیا میں کامیاب وہی لوگ ہیں جن کی پاک اور اخروی فطرت یہاں کی آلودگی سے پاک و صاف رہ کر زیادہ سے زیادہ استفادہ کرتی ہے۔
امام زمانہ(عج) کی معرفت؛عمل کے صحیح ہونے کی کسوٹی
حضرت صاحب العصر(عج) کے ظہور کی بنیادی شرط آپ کی معرفت ہے چونکہ عمل کا دار و مدار ہماری معرفت، تفکر اور نظریہ پر موقوف ہے اگر ہمارا عمل صحیح بھی ہو تب بھی ہمیں ایک مثبت نظریہ و تفکر کی ضرورت پڑتی ہے لہذا ہمیں اپنے نظریہ کی اصلاح کرتے ہوئے صحیح ڈھنگ سے اعمال بجالانے کی ضرورت ہے۔

wilayat.com/p/2660
متعلقہ مواد
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین