مولانا سید حشمت علی سیالکوٹی

مسلسل چھ برس کے بعد وطن واپس آئے لیکن سال تمام ہونے سے پہلے ہی دوبارہ واپس چلے گئے اور پھر مزید چھ برس رہے،مولانا حشمت علی صاحب معقولات کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک سال قسطنطنیہ بھی رہے۔مجموعی طور پر ۱۳ برس عراق و ترکی میں رہ کر وطن واپس آئے تو احباب کا بڑا حلقہ جمع ہوگیا اگرچہ آپ ایک فقیہ اور ایک فیلسوف تھے لیکن اس وقت برصغیر میں مناظروں کا بول بالا تھا مناظروں اور وعظ کو ہی علم کا معیار تصور کیا جاتا تھا اگرچہ آپ کو خطابت کا اتنا شوق نہ تھا جتنا خود مسائل کو سمجھنے اور بتانے کا تھا اس کے باوجود ضرورت کو سمجھتے ہوئے مناظرے کے میدان میں قدم رکھا جہاں گئے ڈنکے بجادیئے ،جلسوں میں گئے تو لوہا منوالیا۔

ولایت پورٹل: مولانا سید حشمت علی صاحب موضع خیر اللہ پور سیدان تحصیل نارووال ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے،ان کے والد ماجد حاجی جماعت علی صاحب ایک متدین و بزرگ شخصیت تھے۔خاندانی طور پر سید حشمت کا تعلق ایران کے شہر شیراز سے تھا۔ اصل ماجرا یہ ہے کہ جب ہمایوں ہندوستان سے شکست کھاکر شاہ ایران طہماسپ کے پاس آیا تو انہوں نے اس کی فوجی امداد کی ان میں کچھ بزرگ اشراف و سادات بھی تھے ان میں سے ایک بزرگ سید سعید نورز شیرازی تھے یہ بزرگوار مستجاب الدعوات تھے چنانچہ دوبارہ فتح ملنے کے بعد ہمایوں نے انہیں سیالکوٹ کے قریب ایک مزرعہ دے دیا چنانچہ اسی گھرانے میں سید حشمت علی نے ۱۸۵۸ء / ۱۲۷۴ ہجری میں آنکھیں کھولیں۔
ہوش سنبھالا تو قصبے کے مدرسہ میں جانا شروع کیا پھر لاہور اور اس کے بعد لکھنؤ تشریف لے گئے بزرگ اساتذہ سے تفسیر و حدیث و فقہ میں تلمذ کیا لیکن ابھی علم کی تشنگی باقی تھی دل عراق کے لئے مچل رہا تھا لیکن والدہ نے منع کردیا آخر کار انہیں منت سماجت کرکے رضا مند کیا راستہ کی صعوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے سامرا پہونچ کر مجدد شریعت میرزا محمد حسن شیرازی کے شاگردوں میں شامل ہوگئے ابھی کچھ عرصہ بھی نہ گذرا تھا کہ آیت اللہ میزائے شیرازی کو آپ پر حددرجہ اعتماد ہوگیا چنانچہ دفتر کا شعبہ مراسلات مولانا سے متلعق ہوگیا۔
مسلسل چھ برس کے بعد وطن واپس آئے لیکن سال تمام ہونے سے پہلے ہی دوبارہ واپس چلے گئے اور پھر مزید چھ برس رہے،مولانا حشمت علی صاحب معقولات کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک سال قسطنطنیہ بھی رہے۔مجموعی طور پر ۱۳ برس عراق و ترکی میں رہ کر وطن واپس آئے تو احباب کا بڑا حلقہ جمع ہوگیا اگرچہ آپ ایک فقیہ اور ایک فیلسوف تھے لیکن اس وقت برصغیر میں مناظروں کا بول بالا تھا مناظروں اور وعظ کو ہی علم کا معیار تصور کیا جاتا تھا اگرچہ آپ کو خطابت کا اتنا شوق نہ تھا جتنا خود مسائل کو سمجھنے اور بتانے کا تھا اس کے باوجود ضرورت کو سمجھتے ہوئے مناظرے کے میدان میں قدم رکھا جہاں گئے ڈنکے بجادیئے ،جلسوں میں گئے تو لوہا منوالیا۔
قومی خدمات
تذکرہ بے بہا کے مصنف مولانا محمد حسین صاحب نے آپ کی بہت سی قومی خدمات کا تذکرہ کیا ہے:
شیعہ کانفرنس کے اجلاس امروہہ میں شرکت  کی، سن ۱۹۰۶ء میں سرگودھا میں امام باڑے کا سنگ بنیاد رکھا،اس جلسے میں انگریز حکام اور معززین شہر جمع بھی ہوئے تھے، مولانا کی تحریک سے چندہ بھی بہت ہوا،۱۱ محرم سن ۱۳۲۶ ہجری کو نارووال میں سالانہ جلسہ ہوا اور مولانا نے تقریر فرمائی موضوع تھا:
’’ان اللہ لا یغیر بقوم‘‘ اس موضوع پر اصلاحی اور علمی تقریر کی ،جمعہ کے دن بہت بڑے اجتماع کے ساتھ نماز ہوئی، علی گڑھ یونیورسٹی کے لئے دورہ کیا، چنانچہ ۱۰ مارچ ۱۹۱۱ء کو گوجرانوالہ میں قلندر حسین صاحب ڈسڑکٹ انجینئر گوجرانوالہ کی صدارت میں جسلسہ ہوا حکام بھی موجود تھے مولانا کی تقریر نے دل موہ لئے ،لوگوں نے یونیورسٹی فنڈ کے لئے دل کھول کر چندہ دیا۔۱۹۲۳ء جھنگ کے اجلاس شیعہ کانفرنس میں آپ صدر منتخب ہوئے،شیعہ کالج کی تحریک میں مولانا نے دل کھول کر امداد دی۔
تصانیف
۱۔معراجیہ(ثبوت معراج جسمانی)
۲۔رسالہ ضرورت امام(غیبت امام پر بحث)
۳۔شرح حدیث طینت
۴۔رسالہ عرشیہ(رد تناسخ)
۵۔نماز شیعہ مترجم با اصول دین
وفات
مولانا حشمت علی صاحب قبلہ نے یکم یا دوم جنوری سن ۱۹۳۵ء کو رحلت فرمائی،صبح کو بٹالہ،امرتسر،جھنگ،اور لاہور وغیرہ سے لوگ جوق در جوق جنازہ میں شرکت کے لئے جمع ہوئے ایک عظیم الشان مجمع نے نماز ادا کی اور امام باڑہ خیراللہ پور میں سپرد لحد کردیئے گئے۔

0
شیئر کیجئے:
ہمیں فالو کریں
تازہ ترین